27 ستمبر 2024ء کو اسرائیلی طیاروں نے لبنانی تنظیم، حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر واقع بیروت پر بھاری بھرکم بم گرا کر کے اس کے سیکرٹری جنرل ، حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا۔
یوں دور حاضر کے ایک ممتاز گوریلا لیڈر ارض فلسطین پہ قابض اسرائیلی حکمران طبقے سے لڑتے ہوئے اپنے ربّ کے حضور پیش ہو گئے۔ وہ مرتے دم تک اسرائیلی ظلم وستم کا شکار اہل فلسطین کی ہر ممکن مدد کرتے رہے۔ چونسٹھ سالہ حسن 1982ء میں حزب اللہ میں شامل ہوئے۔ یہ تنظیم اُسی سال لبنانی علما نے حملہ آور اسرائیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی تھی۔ حسن 1992ء میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔
وہ ایک متحرک، ذہین اور قابل منتظم تھے۔ ان کی زیرسرکردگی میں حزب اللہ منظم ہو گئی۔ مجاہدین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کے پاس جدید اسلحہ بھی آ گیا۔ اس جدت کے بعد مجاہدین اسرائیلی فوج پر گوریلا حملے کرنے لگے جو اس زمانے میں جنوبی لبنان پر قابض تھی۔ تنظیم کے پے در پے حملوں سے اسرائیلی فوج کو بہت جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ آخر اسرائیلی 2000ء میں پسپا ہو کر جنوبی لبنان سے رخصت ہو گئے۔
حسن نصر اللہ کی زیرقیادت حزب اللہ نے یوں اسرائیل جیسی بڑی عسکری طاقت کو شکست دے کر لبنان اور عالم اسلام میں شہرت پا لی۔ جلد اس تنظیم کو دنیا کا سب سے بڑا مسلح گروپ کہا جانے لگا۔ اس کے مجاہدین کی تعداد لبنانی فوج سے بھی بڑھ گئی۔ حزب اللہ سے قبل لبنان میں عیسائی مسلح تنظیمیں اسرائیل کی پشت پناہی سے مسلمانوں پہ ظلم کرتی تھیں۔ حزب اللہ طاقتور ہوئی تو ان شر پسند تنظیموں کا خاتمہ ہو گیا۔
تاہم حسن نصر اللہ کے مخالفین ان پہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ایک آمر تھے اور ان کی منشا کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی کٹر دشمن بن گئی جس نے مسلمانان عالم کے تیسرے مقدس مقام، بیت المقدس اور ارض فلسطین پہ زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہر مسلمان کو اسرائیل کے خلاف سینہ سپر ہو جانا چاہیے۔
ایرانی نژاد جاسوس: مغربی میڈیا نے انکشاف کیا ہے،حزب اللہ میں شامل اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ایک ایرانی نژاد جاسوس نے اسرائیلی حکومت کو خبر دی کہ فلاں وقت حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر میں ایک اعلی سطحی میٹنگ ہو گی۔اور اس میں حسن نصراللہ سمیت حزب اللہ کے کئی بڑے رہنما شریک ہوں گے۔ اسی اطلاع کی بنیاد پر حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پہ فضائی حملہ کیا گیا۔
یہ ہیڈکوارٹر چھ عمارتوں پہ مشتمل تھا۔ اس کے نیچے ، ساٹھ فٹ سے زیادہ گہرائی میں دفاتر بنائے گئے تھے۔ انہی دفاتر میں میٹنگ ہو رہی تھی۔ اتنی گہرائی تک وار کرنے کی خاطر اسرائیل نے خصوصی اور بھاری بھرکم بنکر بسٹر بم استعمال کیے۔ یہ بم زیرزمین واقع تعمیرات تباہ کرنے کے لیے مارے جاتے ہیں۔ انہی بموں کی وجہ سے حسن نصر اللہ نے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔
تشویش ناک بات: اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے ایران کی حکومت میں اپنے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں۔ایرانی حکومتی ایوانوں میں اسرائیل کی رسائی کتنی زیادہ ہے، اس کا انکشاف حال ہی میں سابق وزیراعظم ، احمدی نژاد کے ایک بیان سے ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ حکومت ایران نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی ، موساد کی چالوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا ایک خفیہ ادارہ بنایا تھا۔ کئی برس بعد 2012 ء میں معلوم ہوا کہ اسرائیل اسی ادارے کے سربراہ کو اپنا جاسوس بنا چکا۔سابق صدر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایران میں اسرائیل اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر جاسوسی کی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔
یاد رہے، اسرائیل نے 2010ء میں ایرانی ایٹمی منصوبے میں شامل مشینوں میں وائرس چھوڑ دیا تھا تاکہ انھیں تباہ کیا جا سکے۔ اسی طرح اس نے ایرانی ایٹمی سائنس دانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اسرائیلی میزائیل اور بم ایرانی افواج کے کئی کمانڈروں کو بھی ہلاک کر چکے۔ حال ہی میں ایرانی صدر، ابراہیم رئیسی اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم، حماس کے سربراہ، اسماعیل ہنیہ کو بھی اسرائیل نے ہی شہید کیا۔ اس صورت حال سے عیاں ہے، احمدی نژاد کا یہ بیان ٹھوس بنیاد رکھتا ہے کہ حکومت ایران میں اسرائیلی جاسوس کافی اندر تک گھسے ہوئے ہیں۔
پاکستانی خفیہ ایجنسیاں محتاط ہو جائیں
اس انکشاف سے عالم اسلام کے بڑے ممالک… پاکستان ، ترکی اورمصر کو بھی خبردار ہونا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے، اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے ان ملکوں کی حکومتوں میں بھی اپنے جاسوس چھوڑ رکھے ہوں۔ یہ مقامی جاسوس خاص طور پہ عسکری منصوبوں کی بابت قیمتی معلومات اسرائیلی حکومت تک پہنچا سکتے ہیں۔ لہذا پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو نہایت محتاط ہو کر کام کرنا چاہیے اور وہ اپنی صفوں پر گہری نظر رکھیں تاکہ بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا کوئی ’’چھچھوندر‘‘ان کے اندر داخل نہ ہو سکے۔
حسن نصر اللہ کی شہادت سے قبل پورے لبنان میں حزب اللہ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے سے پھٹ گئے تھے۔ یہ آلات اسرائیلی کمپنیوں نے تیار کیے تھے۔ اور ان کی تیاری کے دوران اندر بارودی مواد بھر دیا گیا تھا۔
یہی نہیں، اس بارود کو اپنی مرضی سے پھوڑنے کے لیے ایک سوئچ بھی نصب کیا گیا۔ یہ واقعہ بھی عیاں کرتا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں حزب اللہ کے بہت اندر تک رسائی رکھتی ہیں۔ کیونکہ حزب اللہ کے کسی رہنما کو یورپی کمپنیوں سے خریدے گئے ان پیجروں اور واکی ٹاکیوں پر شک نہیں ہوا۔ گویا ان کو خریدنے اور تنظیم میں متعارف کرانے والا اسرائیل کا ایجنٹ حزب اللہ میں اہم مقام رکھتا ہو گا، تبھی اس پر شک نہیں کیا گیا۔
حیرت کی بات یہ کہ حسن نصراللہ جان گئے ہوں گے کہ ان کی تنظیم میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ آن گھسے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے اپنی نقل و حرکت انتہائی خفیہ نہیں رکھی۔ یا پھر اسرائیلی خفیہ ایجنٹ ان کے قریبی حلقے میں شامل ہو گا، تبھی اسے پتا چل گیا کہ حسن نصر اللہ فلاں وقت ہیڈکوارٹر میں موجود ہوں گے۔ یوں ایک غدار کے باعث وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔
کامیابی کا راز: اسرائیل کی حکومت اپنی خفیہ ایجنسیوں کو ہر سال اربوں روپے دیتی ہے۔ ان کے ایجنٹوں کو جدید ترین تربیت دی جاتی ہے۔ وہ جدید آلات سے بھی لیس ہوتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں بھی لاکھوں روپے ہیں۔ پھر یہ ایجنسیاں غیرملکیوں کو منہ مانگی رقم دے کر اپنا جاسوس بناتی ہیں۔ یہ تمام عوامل اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی کامیابی کا راز ہیں۔
اسرائیلی حکومت طویل عرصے سے حسن نصر اللہ اور حزب اللہ و حماس کے لیڈروں کو شہید کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ان قائدین پر کئی حملے بھی کیے مگر وہ ہمیشہ بچ جاتے۔ اس بار اپنے جاسوسوں ، جدید ترین ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے بل پر اسرائیل کئی مجاہد لیڈروں کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ امید ہے، اسرائیلی حکومت کے خلاف لڑنے والے اب نہایت محتاط ہو جائیں گے۔ ان کی بھرپور سعی ہو گی کہ اسرائیل یا امریکا کا کوئی بھی جاسوس ان کے حلقے میں داخل نہ ہو پائے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ لالچ انسان کو اکثر بھٹکا دیتا ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں اسی سچائی سے واقف ہیں۔ وہ بے دریغ رقم لٹا کر کسی نہ کسی لالچی کو اپنے پھندے میں پھنسا ہی لیتی ہیں۔ایران کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ، علی یونسی نے2012ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:
’’ پچھلے دس برس کے دوران موساد کے کئی ایجنٹ حکومت کے ایوانوں میں داخل ہو چکے۔ اس لیے ایرانی حکومت کے تمام لیڈروں کو خبردار ہو جانا چاہیے۔ ان جاسوسوں کی مدد سے اسرائیل کسی کی بھی جان لے سکتا ہے۔ ‘‘علی یونس کا یہ انتباہ حقیقت بن گیا جب صدر ایرانی صدر اور اسماعیل ہنیہ اسرائیلی جاسوسوں کی مدد سے انجام پائے حملوں میں شہید ہو گئے۔
کامیابی کیونکر حاصل ہوئی؟: اسرائیل سے نبردآزما اہم لیڈروں کو شہید کرنے کے بعد اسرائیلی حکمران طبقہ نہایت خوش ہے۔ حتی کہ اسرائیلی وزیراعظم،بنجمن نیتن یاہو نے غرور وتکبر سے اعلان کیا کہ اس کے دشمن جہاں کہیں بھی ہوں گے، انھیں اپنی مرضی سے وقت اور جگہ کا انتخاب کر کے مار دیا جائے گا۔ اسرائیل کی حالیہ کامیابیاں دیکھتے ہوئے یہ شیخی خاصی درست لگتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چالیس سال کی مسلسل سعی وکوشش کے بعد ہی اسرائیل اس قابل ہوا کہ اپنے دشمنوں کو ضرر پہنچا سکے۔ آخر اس کو یہ کامیابی کیونکر حاصل ہوئی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور نت نئے ہتھیاروں سے زیادہ جاسوسوں کے نیٹ ورک کی بدولت اسرائیل اس قابل ہوا کہ ممتاز مسلم جنگجو لیڈروں کو شہید کر سکے۔ گویا اسے کامیاب کرانے میں جاسوسی کے نیٹ ورک کا بنیادی کردار رہا۔ اس سچائی سے عیاں ہوتا کہ جدید جنگ وجدل میں بھی جاسوسوں کا کردار بڑا اہم ہے ۔ وجہ یہی کہ ان کی اصلیت سے کوئی آگاہ نہیں ہوتا۔ لہذا وہ معاصرین کی صفوں میں گھس کر اور اعتماد حاصل کر کے ان کی ایسی معلومات بھی جان لیتے ہیں جو عام حالات میں پوشیدہ رہتی ہیں۔
تبدیلی آ گئی: ماہرین بتاتے ہیں کہ اسرائیل کا جاسوسی نیٹ ورک 2006ء میں حزب اللہ سے جنگ کے بعد بننا شروع ہوا۔ اس جنگ میں ایک لحاظ سے اسرائیلی فوج کو شکست ہوئی کیونکہ وہ عسکری لحاظ سے اپنے سے کہیں زیادہ کمتر حزب اللہ کو زیر نہیں کر سکی۔ اور نہ ہی حسن نصر اللہ سمیت تنظیم کے کسی اہم رہنما کو گزند پہنچا۔ اسی جنگ نے اس تاثر و نظریے کو کافی نقصان پہنچایا کہ اسرائیل عسکری طور پہ بہت طاقتور ملک ہے۔
اس ہزیمت کے بعد اسرائیلی حکمران طبقے نے اپنے ایلیٹ جاسوسی نیٹ ورک کو حزب اللہ کے خلاف متحرک کر دیا۔ اس ایلیٹ نیٹ ورک میں اسرائیل کا اعلی ٹکنالوجی سے آراستہ سگنلز اینٹلی جنس ادارہ، یونٹ 8200 (signals intelligence Unit 8200)اور فوج کا ملٹری اینٹلی جنس ڈائرکٹوریٹ، امان (Aman) شامل تھے۔ دونوں اداروں کے ماہرین اگلے بیس برس تک حزب اللہ کے بارے میں ہر قسم کی معلومات جمع کرتے رہے۔ یہ معلومات ہر ممکن ذریعے سے حاصل کی گئی۔
میری ایسین اسرائیل کی سابق سئینر اینٹلی جنس افسر ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جنگ 2006ء کے بعد اسرائیلی حکم ران طبقے کی سوچ میں بنیادی تبدیلی آ گئی۔ وہ حزب اللہ کو مختلف نظر سے دیکھنے لگا۔ ابتداً اسرائیل کا خیال تھا کہ یہ تنظیم اپنی موت آپ مر جائے گی۔ مگر وہ تو رفتہ رفتہ قوت پا کر اسرائیلی حکومت کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئی۔ اس نے جنوبی لبنان میں اٹھارہ سال تک اسرائیل کے اعتماد کو پارہ پارہ کر دیا۔ آخر اسرائیل کو مجبورا شکست تسلیم کر کے وہاں سے پسپا ہونا پڑا۔ یوں جنوبی لبنان میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیاں بھی بہت محدود ہو گئیں۔ اب وہ کھل کر وہاں سرگرم گوریلوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔
حزب اللہ نے مگر جب قوت پکڑ لی تو اسرائیل کا زاویہ نظر بھی بدل گیا۔ اب اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے اپنا دائرہ کار بہت بڑھا لیا۔ وہ حزب اللہ کے عسکری ونگ اور سیاسی دھڑے کا عمیق مطالعہ کرنے لگے۔ حزب اللہ نے ایرانی فوج کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں تو اسرائیلیوں نے ان سرگرمیوں کو بھی گہری نظر سے دیکھا۔ حسن نصر اللہ شام کے صدر ، بشر الاسد کے بھی دوست بن گئے۔ اب اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کو محسوس ہوا کہ حزب اللہ محض گوریلا گروپ نہیں رہا بلکہ ایک علاقائی طاقت میں ڈھلتا جا رہا ہے۔
’’دہشت گرد فوج‘‘: اس احساس کے باعث ہی اسرائیلی حکمران طبقہ حزب اللہ کو ایک گوریلا تنظیم نہیں بلکہ ’’دہشت گرد فوج‘‘ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ اس کے نزدیک اسامہ بن لادن کی تنظیم ، القاعدہ بھی دہشت گرد گروپ تھا ،اسے فوج کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اسی سوچ نے اسرائیل کو مجبور کر دیا کہ وہ جس وسیع پیمانے پر شامی فوج یا پاکستان کی افواج کی خوبیوں اور خامیاں کا مطالعہ کرتا ہے، اسی بڑے پیمانے پر بھی حزب اللہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور ان پہ عمیق تحقیق کی جائے۔
2012ء میں شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔ حزب اللہ نے اپنے کمانڈوز بھی شام بھیجے تاکہ وہ شامی حکومت سے برسرپیکار مسلح تنظیموں سے لڑ سکیں۔ شام میں تب کئی گوریلا گروپ وجود میں آ چکے تھے۔ اس لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے سیکڑوں ایجنٹ ان تنظیموں میں آسانی سے داخل ہو گئے۔ ان اسرائیلی ایجنٹوں نے تنظیموں کے مابین فرقہ ورانہ ، معاشی ، ثقافتی اور معاشرتی اختلافات پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔ یوں گوریلا گروپ متحد نہ ہو سکے ۔ وہ آپس ہی میں لڑ مر کر کمزور ہو گئے۔
سیٹ اپ کے اندر جھانکنا: شام میں سرگرم اسرائیلی ایجنٹوں کے توسط ہی سے اسرائیل کو پہلی بار حزب اللہ کے سیٹ اپ کے اندر جھانکنے کا موقع ملا اور یوں ایک اینٹلی جنس تصویر نمایاں ہونے لگی۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے جانا کہ حزب اللہ کے آپریشن کن لیڈروں کی زیرقیادت انجام پاتے ہیں، کس کو ترقی مل رہی ہے، کون کرپٹ آدمی ہے اور فلاں رہنما ایک خفیہ دورہ کر کے واپس لوٹا ہے۔
شام میں کئی برس جاری رہنے والی خانہ جنگی نے حزب اللہ کے گوریلوں کو حربی فنون میں طاق کر دیا، مگر ایک نقصان یہ پہنچا کہ تنظیم کو اپنے پھیلتے آپریشنوں کی خٓاطر نئے لوگ بھرتی کرنے پڑے۔ ان نئے ریکروٹوں میں نہ صرف اسرائیلی ایجنٹ شامل تھے بلکہ انھوں نے پیسے کا لالچ دے کر دیگر ساتھیوں کو بھی اپنے لیے جاسوسی کرنے پر آمادہ کر لیا۔ یاد رہے، لبنان میں غربت جا بجا پھیلی ہے اور حکمران طبقے کو چھوڑ کر بقیہ عوام بہ مشکل ہی گذارہ کرتے ہیں۔ اس لیے پیسے کا لالچ بے اصولے مردوزن سے ہر قسم کا غیر اخلاقی و غیر قانونی کام کرا لیتا ہے۔
رندہ سلیم امریکی دارالحکومت، واشنگٹن میں واقع ایک تحقیقی ادارے، مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں محقق ہے۔ وہ کہتی ہے:’’شام کی خانہ جنگی میں داخل ہو کر حزب اللہ بہت پھیل گئی۔ مگر اس تبدیلی کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ تنظیم کا اندرونی نظام کمزور ہو گیا اور لیڈروں کی اس پہ پوری طرح گرفت نہیں رہی۔ یوں دشمنوں کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے جاسوس اس نظام میں داخل کر سکیں۔ ‘‘
ڈیٹا تک رسائی و مدد: شام کی جنگ نے بہت سارا ڈیٹا بھی پیدا کیا جو دنیائے انٹرنیٹ اور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی صورت بھی ہر کسی کو میّسر تھا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں تو ڈیٹا جمع کرنے کے جدید ترین آلات و ذرائع رکھتی ہیں، لہذا ان کے لیے یہ ڈیٹا سونے کی کان ثابت ہوا ۔ مثال کے طور پر حزب اللہ نیٹ پر اپنے مقتول کارکنوں اور لیڈروں کے تعزیتی مضامین بکثرت دینے لگی۔ ان مضامین میں مقتولوں کی زندگی اور خدمات کے بارے میں کافی معلومات موجود ہوتیں۔ مثلاً یہ کہ متوفی کس قصبے یا شہر سے تعلق رکھتا تھا، وہ کہاں مارا گیا اور کن دوستوں نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ حزب اللہ کے مقتولوں کے جنازے بھی اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے لیے اہم بن گئے کیونکہ ان میں تنظیم کے اہم لیڈر تاریکی سے نکل کر شرکت کرتے تھے ، گو وہ پھر جلد پردہ اخفا میں چلے جاتے۔
بیروت میں ایک سابق اعلی لبنانی سفارت کار کہتا ہے:’’حزب اللہ نے شامی صدر کی کھلے عام حمایت کی، مگر اس کی قیمت تنظیم کو یوں چکانی پڑی کہ اس کی صفوں میں اسرائیلی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے جاسوس گھس گئے۔شام میں جا کر حزب اللہ کو اپنا آپ عیاں کرنا پڑا۔ تنظیم کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ شامی خفیہ ایجنسیوں سے روزانہ روابط رکھے جن کے بیشتر ارکان کرپٹ اور بکاؤ مال تھے۔ پھر وہاں روسی اینٹلی جنس ایجنسیوں کے ایجنٹ بھی سرگرم تھے جن پر امریکی خفیہ ادارے گہری نظر رکھتے ہیں۔ ‘‘
خفیہ پن جاتا رہا: شام میں جانے سے پہلے حزب اللہ اپنے اندر نہایت نظم وضبط رکھتی تھی۔ اس کے لیڈروں کے بارے میں لوگ کم ہی جانتے تھے۔ تنظیم کا اپنا حلقہ تھا جس میں غیرمتعلقہ افراد کو دخول بہت مشکل تھا۔ صدر بشار الاسد کی حمایت مگر حزب اللہ کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوئی کیونکہ شامی خانہ جنگی میں شامل ہو کر اس کا تمام خفیہ پن جاتا رہا۔ اور جب تنظیم کا پھیلاؤ ہوا تو معاملات پر لیڈروں کی گرفت کمزور ہوتی گئی۔ یہی نہیں ، پیسے کی ریل پیل اور اختیارات میں اضافے نے اکثر لیڈروں کو مغرور اور بے پروا بنا دیا۔ وہ اپنے فرائض سستی سے انجام دینے لگے۔
اس طرح حزب اللہ اپنے اس اندرونی زبردست دفاع سے محروم ہو گئی جس پر تنظیم کے لیڈر فخر کرتے تھے۔ اسی مضبوط دفاع کی وجہ سے اسرائیلی وامریکی خفیہ ایجنسیاں حزب اللہ میں نفوذ نہیں کر سکی تھیں۔ جبکہ حزب اللہ کی اینٹلی جنس اتنی بہترین اور اثرپذیر تھی کہ اسرائیل جب جنوبی لبنان پر قابض تھا تو تنظیم نے اس کی مایہ ناز خفیہ ایجنسی، شین بیت کا جاسوسی مرکز ایک نہیں دو بار بم دہماکوں سے اڑا دیا تھا۔ حد یہ ہے کہ 1997ء میں اسرائیلی حکومت یہ جان کر حیران رہ گئی کہ حزب اللہ اس کی برقی نشریات پکڑ رہی ہے۔ یوں اس کو معلوم ہو جاتا کہ اسرائیلی افواج کن ٹارگٹوں پہ بم باری کرے گی اور اس کے طریق ِ جنگ کیا ہیں۔
جاسوسی کے نت نئے آلات: اسرائیل جب حزب اللہ کی وسیع پیمانے پر جاسوسی کر رہا تھا تو اسی دوران سائنس و ٹکنالوجی میں بھی محیر العقول ترقی ہو رہی تھی۔ اس ترقی کے باعث جاسوسی کے نت نئے آلات سامنے آ گئے…جاسوس سیٹلائٹ، جدید آلات سے لیس ڈرون اور نیٹ پر جاسوسی کرنے والے سافٹ وئیر ۔ ان آلات کے ذریعے کسی کے بھی موبائل فون پر ہوتی گفتگو سننا آسان ہو گیا۔ یہ بھی معلوم ہونے لگا کہ نشانے پر آیا فرد کہاں موجود ہے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے سینکڑوں کارکن نیٹ سے حزب اللہ سے متعلق ہزارہا وڈیوز اور تصاویر بھی جمع کرنے لگے۔ جلد ہی ان کا کروڑوں گیگابائیٹ پر ڈیٹا اکھٹا ہو گیا۔ اس کے بعد اسرائیلی خفیہ ادارے، یونٹ 9900 کے ماہرین نے خصوصی الگورتھم پر مبنی سافٹ وئیر ایجاد کیا۔ اس سافٹ وئیر کا کام یہ تھا کہ وہ وڈیوز اور تصاویر میں ایسی باتیں تلاش کرے جن سے اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کو حزب اللہ کے بارے میں کوئی نکتہ حاصل ہو سکے۔ مثلاً یہ کہ کہیں کوئی سڑک کنارے دیسی بم چھپا رہا ہے۔ کہیں سرنگ کھودی جا رہی ہے۔ کہیں کنکریٹ کی مدد سے مورچے تیار ہو رہے ہیں۔ غرض اسرائیلی ادارے حزب اللہ اور اس کے قائدین و کارکنوں کے بارے میں پل پل کی خبریں رکھنے لگے۔
مزید گہری نظر: جب اسرائیلی خفیہ اداروں کو مسلسل نگرانی اور تحقیق سے یقین ہو جاتا کہ فلاں آدمی حزب اللہ کا کارندہ ہے، تو اس پر مزید گہری نظر رکھی جانے لگتی۔ اس کی روزمرہ سرگرمیوں کے بارے میں ڈیٹا حاصل کر کے اسے کمپیوٹر میں فیڈ کر دیا جاتا۔ اس کے بارے میں ہر دستیاب طریقے سے معلومات پانے کی کوشش ہوتی، مثلاً اس کی بیوی، بچوں اور احباب کے موبائلوں سے، کار کے اوڈومیٹر سے اور جانے والی جہگوں سے! اکثراوقات فضا میں اڑتے ڈرون اس پہ نگاہ رکھتے کہ وہ کہاں کہاں جاتا ہے۔ موقع ملتا تو اس کے جانے کی جگہ پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کو ہیک کر لیا جاتا تاکہ اس میں محفوظ ٹارگٹ کی وڈیو حاصل کی جا سکے۔ حتی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں ٹی وی کے جدید ریموٹ کنٹرول میں لگے مائکروفون تک پہنچ کر اس کی آواز ریکارڈ کر لیتی ہیں۔
جب ٹارگٹ اپنے روزمرہ معمول کو توڑ دیتا تو اس اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے کان کھڑے ہو جاتے۔ حزب اللہ کے لوگوں پر اسی طرح نظر رکھ کر آخر انھوں نے ایسے کمانڈروں کو تلاش کر لیا جو تین یا چار رکنی دستوں کے سربراہ ہوتے۔ یہ دستے اسرائیل ۔ لبنان سرحد کے نزدیک موجود اسرائیلی ٹینکوں کو نشانہ بناتے تھے۔ اسرائیلی پھر وسطی سطح کے ان کمانڈروں پہ خاص نظر رکھنے لگے۔ کیونکہ ان کے معمول میں کوئی تبدیلی آتی تو اسرائیلی سمجھ جاتے کہ شاید وہ ٹینکوں پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
کئی برس لگ گئے: یہ تمام سرگرمیاں چند ماہ بلکہ کچھ برسوں میں مکمل نہیں ہوئیں، بلکہ ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کئی برس لگ گئے۔ اس کے بعد ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں اس قابل ہوئیں کہ لبنان میں آباد لاکھوں انسانوں میں سے حزب اللہ کے ہزارہا لیڈروں اور کارکنوں کو شناخت کر سکے۔ یہی وجہ ہے، جب اسرائیل نے لبنان پر حالیہ بم باری شروع کی تو ماہرین کا کہنا ہے، اسرائیلی طیاروں نے انھیں ہی نشانہ بنایا۔ خیال ہے کہ اب تک بم باری سے حزب اللہ کے کئی ہزار سے زائد کمانڈر اور عام جنگجو مارے جا چکے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا ایک افسر کہتا ہے:
’’اسرائیل نے پچھلے سترہ اٹھارہ سال کے دوران ٹارگٹ کرنے کی اپنی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر لیا ہے۔ اب ہمارے پاس (حزب اللہ کے سلسلے میں )معلومات کا خزانہ موجود ہے۔ ہم یہ ڈیٹا استعمال کر کے پہلے بھی حزب اللہ کو نشانہ بنا سکتے تھے، مگر ہم موقع کی تلاش میں رہے جو اب آ پہنچا ہے۔‘‘
پچھلے سال جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو جلد ہی اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان بھی سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران اسرائیل نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ جھڑپوں میں اسرائیلی فوج نے چند سو حزب اللہ کا جنگجو مار ڈالے۔ اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے۔ رفتہ رفتہ حزب اللہ کے ہزارہا جنگجو جنوبی لبنان میں جمع ہو گئے۔
اسرائیلی افواج کی چال: ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کو سرحدی جھڑپوں میں الجھائے رکھنا اسرائیلی افواج کی چال تھی۔ سرحدی جھڑپیں جب کئی ماہ جاری رہیں اور اسرائیلی آگے نہیں بڑھے تو حزب اللہ کے کمانڈر، حسن نصر اللہ یہ سوچنے لگے کہ اسرائیل ان کی تنظیم سے پنگا لے کرنیا محاذ نہیں کھولنا چاہتا۔ لہذا وہ بھی انتظار کرنے لگے کہ اسرائیل کب حماس کے ساتھ امن معاہدہ کرتا ہے۔
اس دوران اسرائیلی فوج نے ایک ایک کر کے حماس کے بیشتر لیڈر اور جنگجو شہید کر دئیے۔ ان مہینوںمیں اسرائیل نے لبنان کی سرحد پر آباد ساٹھ ہزار اسرائیلی باشندے بھی پیچھے ہٹا لیے۔ اسرائیلی حکومت کو خطرہ تھا کہ حماس کی طرح حزب اللہ بھی سرحد پار کر کے فوجیوں اور باشندوں پہ حملہ کر سکتی ہے۔ یوں ساٹھ ہزار اسرائیلی بے گھر ہو گئے۔ اور اس طرح اسرائیل اور لبنان کی سرحد سرگرم جنگی محاذ میں تبدیل ہو گئی۔
جب غزہ میں حماس کی مزاحمت کم ہو گئی تو اسرائیلی افواج نے لبنان میں نیا محاذ جنگ کھول دیا۔ اس کا آغاز پیجر اور واکی ٹاکی بم دہماکوں کے ذریعے ہوا۔ اس کے بعد ہوائی جہازوں کی بم باری ، میزائیل حملوں اور راکٹوں کے ذریعے حزب اللہ کے ٹھکانے تباہ کیے جانے لگے۔ ایک ایسے ہی حملے میں سربراہ حزب اللہ ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
جذبہ شہادت اور استقامت: غزہ اور لبنان پر تادم تحریر اسرائیل کی بم باری جاری ہے۔ لگتا ہے کہ اسرائیلی حکمران طبقے نے دونوں تنظیموں کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ وہ مستقبل میں اسرائیل پر حملہ آور نہیں ہو سکیں۔ لیکن کیا خبر کہ آگے چل کر مجاہدین کی نئی نسل تیار ہو جائے۔ اسرائیل نے آخر ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ اور اہل فلسطین کا کہنا ہے کہ بے شک امت میں کوئی مسلمان ان کا ساتھ دے یا نہ دے، وہ اسرائیلی قابضین کے خلاف اپنا جہاد جاری رکھیں گے۔ ان کے جذبہ شہادت اور استقامت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی فلسطینیوں اور اسرائیلی حکومت کے مابین جنگ جاری رہے گی۔
ایک زاویہ نظر: فلسطین کے بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے، فلسطینیوں کو اسرائیل کا قیام تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ وہ اب بڑی جنگی طاقت بن چکا۔ پھر اس کے پیچھے امریکا جیسی سپرپاور ہے۔ جبکہ اہل فلسطین کو عملی طور پہ صرف ایران اور حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔
بقیہ عالم اسلام میں سے مسلمان زبانی کلامی حمایت تو کرتے ہیں، مگر عملی مدد کوئی نہیں ملتی۔ اس صورت حال میں بے یارومددگار فلسطینی اسرائیلی قوت کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوتے رہیں گے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ اس لیے حل یہ ہے کہ اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا جائے۔ اس کے بعد آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہو جائے گا کیونکہ تب دنیا کے سبھی ممالک اہل فلسطین کی حمایت کریں گے۔اسرائیل اس وقت بیت المقدس اور مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تیزی سے تعمیر کر رہا ہے ۔
یہ دونوں علاقے مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل ہونے ہیں۔ اگر اسرائیلی حکومت کا راستہ نہیں روکا گیا تو آخر کار وہ دن آسکتا ہے جب بیت المقدس اور مغربی کنارے میں یہود کی کثرت ہو جائے گی۔ اس کے بعد دونوں علاقوں کو آزاد ریاست فلسطین میں شامل کرنا نہایت کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔ بلکہ اس طرح ایک نیا مسئلہ جنم لے گا۔