سید المرسلین ، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیﷺکی ذات اقدس تمام نوع انسان کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل اور ضابطہ حیات ہے۔ آپ ﷺ ہی وہ فرد کامل ہیں جن میں اللّہ رب العزت نے وہ تمام اوصاف جاگزیں کردیے جو انسانی زندگی کے لیے مکمل لائحہ عمل بن سکتے ہیں۔
آپ ﷺ اپنی قوم میں رفعت کردار، فاضلانہ وشیریں اخلاق اور کریمانہ عادات کے سبب سب سے ممتاز تھے ۔ مزید یہ کہ نبی ﷺ سب سے زیادہ بامروت ، سب سے زیادہ خوش اخلاق ، سب سے زیادہ معزز ہم سائے ، سب سے بڑھ کر دوراندیش ، سب سے زیادہ راست گو، سب سے زیادہ نرم دل، سب سے زیادہ پاک نفس، سب سے زیادہ خیراندیش ، سب سے زیادہ کریم، سب سے زیادہ نیک، سب سے بڑھ کر پابندِعہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے۔ حتٰی کہ آپ ﷺ کی قوم نے آپ ﷺ کا لقب ہی امین رکھ دیا تھا۔ اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی صداقت و دیانت داری کو دیکھ کر ہی آپ ﷺ سے شادی کی تھی۔
اس عظیم شخصیت ﷺ کی سیرت کے بہت سے پہلو ہیں جن میں چند ایک قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں تاکہ ہم سب ان پر عمل کریں اور اس روش کو اپنے لیے ذریعہ نجات بنالیں۔
نمونۂ اخلاق
نبی ﷺ کا بچپن، جوانی اور بڑھاپا یعنی آپ ﷺکی مکمل زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ اللّہ رب العزت نے نبی ﷺ کو بچپن ہی سے بُری محفلوں اور مناہی منکرات کے کاموں سے بچائے رکھا۔ نبی ﷺ اپنے بچپن کا ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اہل جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفعہ کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گزرا، لیکن ان دونوں موقعوں میں سے بھی ہر بار اللّہ تعالیٰ نے میرے اور اس کے کام کے درمیان رکاوٹ ڈال دی۔
اس کے بعد مجھے کبھی ان کا خیال نہیں گزرا، یہاں تک کہ اللّہ نے مجھے پیغمبری سے مشرف فرمایا۔ ہوا یہ کہ جو لڑکا میرے ساتھ بالائی مکہ میں بکریاں چَرایا کرتا تھا ایک رات اس سے میں نے کہا کیوں نہ تم میری بکریاں دیکھو اور میں مکہ جا کر دوسرے جوانوں کی طرح وہاں کی قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کر لوں ، اس نے کہا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد میں نکلا۔ ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی، میں نے پوچھا کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا فلاں کی فلاں سے شادی ہے ۔
میں سننے بیٹھ گیا اور اللّہ نے میرے کان بند کردیے اور میں سو گیا۔ پھر سورج کی تمازت سے میری آنکھ کھلی اور میں اپنے ساتھی کے پاس آیا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے ساری تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا تو پھر اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ اور اس کے بعد کبھی ایسا نہ ہوا۔‘‘ (الرحیق المختوم)
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
فاقے پر فاقہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور اکثر فاقے پر فاقہ کیے جاتے تھے۔ ایک اور روایت میں اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبیﷺ کے گھر والے ایک ایک مہینہ اس طرح سے گزارتے کہ گھر میں آگ نہ سلگائی جاتی اور ہمارا کھانا یہی ہوتا کھجور اور پانی۔ (ابن ماجہ)
اور بعض دفعہ نبی ﷺ بھوک سے کروٹیں بدلتے ، پیٹ کو الٹتے اور خراب کھجور بھی آپ کو نہ ملتی کہ اسی سے پیٹ بھر لیں۔ (ایضاً)
سونے کا ٹکڑا
نبی کریم ﷺ ایک بار نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے، تکبیر ہوچکی تھی، مگر آپ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنہ کو وہیں کھڑا چھوڑ کر گھر تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اور نماز پڑھائی ۔ کسی نے اس بے وقت گھر تشریف لے جانے کی وجہ دریافت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ گھر میں ایک سونے کا ٹکڑا پڑا رہ گیا تھا میں نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ گھر میں پڑا رہے اور وقت ایسے ہی گزر جائے۔
ٓوہ اولیں ہے وہ آخریں ہے
مرا تو سب کچھ میرا نبی (ﷺ) ہے
عمدہ اخلاق والے کریم نبی ﷺ
اللّہ رب العزت نے نبیﷺ کو بڑے ہی اعلٰی اخلاق سے نوازا تھا۔ یہ آپ ﷺ کے ارفع اخلاق ہی تھے کہ جس نے دشمن کو دوست ، بیگانے کو اپنا، سخت دل کو نرم خو بنادیا تھا۔ نبی ﷺ کے اسی بلند اخلاق کی تعریف اللّہ رب العزت نے ان الفاظ میں فرمائی ہے:
ترجمہ: اور بے شک ﷺ کا اخلاق بہت بلند ہے۔ (سورہ قلم)
موطا امام مالک میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں اور حضرت انس رضی اللہ عنہ، نبی ﷺ کے خدمت گزار، فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس تک نبی ﷺ کی خدمت کی اس مدت میں آپ ﷺ نے مجھے اف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا یہ کام کیوں نہیں کیا۔ (مسلم )
یہ آپ صلی اللّہ علیہ وسلم کے اخلاق ہی تھا کہ جس نے لوگوں کے دلوں سے ظلمت و جہالت کو نکال کر نورصداقت اور معرفت الٰہی کو متمکن کردیا تھا۔ آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور نرم خو ہونے کی صفت کو بیان کرتے ہوئے اللّہ تعالٰی فرمایا:
ترجمہ: اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو لوگ کبھی بھی آپ کے پاس آ کر نہ بیٹھتے۔ (آل عمران)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی ﷺ سخت گو، لعنت کرنے والے نہ تھے۔ اگر آپ ﷺ کو ہم میں سے کسی پر غصہ بھی آتا صرف اتنا فرماتے اس کو کیا ہوگیا۔ اس کی پیشانی پر خاک لگے۔
نبی پاک ﷺ کی شجاعت وبہادری اور سخاوت
نبی کریم ﷺ کا شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی مقام سب سے بلند اور معروف تھا۔ آپ سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جب کہ اچھے اچھے جاںبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ ﷺ اپنی جگہ جمے رہے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی بڑھتے گئے۔ پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول اللّہ ﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول اللّہ ﷺ واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ ﷺ لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے چکے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے، گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی، اور فرما رہے تھے ڈرو نہیں، ڈرو نہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ (مسلم شریف)
سخاوت
حضرت جابر بن عبداللّہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی دریادلی اور سخاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس نے بھی کوئی چیز آپﷺ سے مانگی، آپ نے انکار نہ کیا بلکہ دے دی ۔ (بخاری )
ایک شخص کو آپ ﷺ نے اتنی بکریاں دیں کہ جس سے دو پہاڑوں کے درمیان والی زمین بھر گئی۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس جا کر کہنے لگا میری قوم کے لوگو! مسلمان ہوجاؤ کیوںکہ محمد (ﷺ) اتنا کچھ دیتے ہیں کہ پھر محتاجی کا ڈر نہیں رہتا۔ (مسلم شریف)
شفقت
اقرح بن حابس نے دیکھا کہ آپ ﷺ حضرت حسنؓ کو پیار کر رہے ہیں تو ایک صحابی نے کہا اللّہ کے نبی ﷺ میرے دس بچے ہیں۔ میں نے کبھی ان کو پیار نہیں کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو رحم نہ کرے گا۔ (بچوں، یتیموں، عاجزوں اور ضعیفوں پر) اللّہ بھی رحم نہ کرے گا اس پر۔
نبی کریم ﷺ عجز وانکسار کے پیکر
نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے۔ آپ ﷺ اپنے لیے صحابہ کرامؓ کو کھڑے ہونے سے منع فرماتے تھے۔ مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقرا کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے۔ صحابہ کرامؓؓ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے۔
اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑوں پر خود پیوند لگاتے تھے، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے گھر کے کام کاج کرتا ہے۔ آپ ﷺ بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔ (مشکو ۃ المصابیح)
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں کیا چیز ہے لوح وقلم تیرے ہیں
نبی پاک ﷺ کے زندگی ہمارے لیے مشعل راہ اور ضابطہ حیات ہے آپ کی سیرت طیبہ پر بے شمار کتب لکھی جاچکی ہیں۔ ہم نے بھی اپنی نجات کے لیے قلم اٹھایا اور چند کلمات قرطاس کے سپرد کردیے۔ اللّہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)