جوڈیشل کمیشن رولز 2010 منسوخ، جوڈیشل کمیشن رولز 2024 پبلک کر دیے گئے

ملک بھر کی پانچوں ہائی کورٹس میں 38 ایڈیشنل ججز کی تعیناتیوں کےلیے نامزدگیاں طلب کر لی گئیں


جہانزیب عباسی December 24, 2024
فوٹو: فائل

اسلام آ باد:

جوڈیشل کمیشن رولز 2010 منسوخ کردیے گئے، جوڈیشل کمیشن رولز 2024 منظوری کے بعد پبلک کر دیے گئے، دوسری جانب ملک بھر کی پانچوں ہائی کورٹس میں 38 ایڈیشنل ججز کی تعیناتیوں کےلیے نامزدگیاں طلب کر لی گئی ہیں۔

جوڈیشل کمیشن رولز 2024 منظوری کے بعد پبلک کر دیے گئے ہیں۔ رولز کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا ایک سیکریٹریٹ ہوگا، جو سپریم کورٹ بلڈنگ اسلام آباد میں یا چیئرپرسن کے طے کردہ کسی اور مقام پر قائم ہوگا،جوڈیشل کمیشن سیکریٹریٹ کے ریکارڈز کو محفوظ کیا جائے گا اور سیکریٹریٹ کے دیگر امور کو اس انداز میں چلایا جائے گا جیسا کہ چیئرپرسن کے عام یا خاص احکامات میں بیان کیا جائے گا۔

کسی شخص کی جج کے طور پر تقرری کے لیے میرٹ کا تعین آئین کے تحت جج کے حلف کے مطابق کیا جائے گا،نامزد فرد کے میرٹ کا جائزہ لیتے وقت پیشہ ورانہ قابلیت  تجربہ، قانونی مہارت،پیشہ ورانہ رویہ کو دیکھا جائے گا،کسی فرد کو جج نامزد کرنے وقت اسکی کارکردگی،ابلاغی مہارت، دیانت داری کو دیکھا جائے گا،ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے لیے نامزدگیوں کے آغاز اور حتمی فیصلے کے دوران، وکلا اور عدالتی افسران دونوں کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا، عدالتی افسران کے معاملے میں طے شدہ قابلیت اور معیار کیساتھ ساتھ سینیارٹی کو بھی مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔

عدالتی افسر کی نامزدگی کیلئےمتعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ کوئی رکن، متعلقہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے، عدالتی افسر سے نامزدگی فارم میں درج کیے جانے والے معلومات اور منسلک کیے جانے والے مواد کو حاصل کرے گا،اس مقصد کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ سے عدالتی افسر کے سروس ریکارڈ کی رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔

وضاحت کی جاتی ہے کہ متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ کوئی رکن عدالتی افسر سے براہ راست رابطہ نہیں کرے گا تاکہ اس کی نامزدگی کا آغاز کیا جا سکے،ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے لیے نامزدگیوں کے آغاز اور حتمی فیصلے کے دوران، اراکین مقررہ معیار کے مطابق، جنس، علاقہ اور مذہب کے لحاظ سے مناسب تنوع کو یقینی بنائیں گے،ایڈیشنل جج کو کنفرم کرنے کیلئے اسکے دیے گئے فیصلوں کی تعداد، معیار، اخلاقیات، دیانت داری، غیر جانبدار رویہ کا جائزہ لیا جائے گا۔

جوڈیشل کمیشن کسی ایڈیشنل جج کو کنفرم کرنے سے قبل کسی ایسے معاملے کو بھی دیکھ سکتا ہے جو ابتدائی تقرری کے وقت سامنے نہیں آئے،جوڈیشل کمیشن سیکریٹریٹ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالت میں ججوں کی تمام متوقع اورخالی آسامیوں کا مکمل ریکارڈ رکھے گا اور کمیشن کو ان سے آگاہ رکھے گا۔

وضاحت کی جاتی ہے کہ متوقع خالی آسامیوں سے مراد وہ آسامیاں ہیں جو تین ماہ کے اندر خالی ہونے کی توقع ہو،سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے، چیئرپرسن ان خالی آسامیوں کی تعداد کا تعین کرے گا جن کے لیے نامزدگیاں طلب کی جائیں گی،ہائی کورٹس یا وفاقی شرعی عدالت میں ججوں کی تقرری کے لیے، چیئرپرسن متعلقہ چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد ان خالی آسامیوں کی تعداد کا تعین کرے گا جن کے لیے نامزدگیاں طلب کی جائیں گی،خالی آسامی پر جج کی تقرری کے لیے چیئرپرسن کی جانب سے نامزدگیاں طلب کیے جانے پر، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت، یا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، یا وفاقی شرعی عدالت یا ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے کمیشن کا کوئی بھی رکن ایسی خالی آسامی کے لیے تقرری کے لیے کمیشن میں نامزدگیاں دے سکتا ہے۔

وضاحت کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کے لیے نامزدگی متعلقہ تمام ہائی کورٹس کی منصفانہ نمائندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے گی،وضاحت کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کے لیے نامزدگیاں متعلقہ ہائی کورٹ کے پانچ سب سے سینئر ججوں میں سے کی جائیں گی،وضاحت کی جاتی ہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نامزدگیاں اس ہائی کورٹ کے تین سب سے سینئر ججوں میں سے کی جائیں گی،اگر کوئی رکن دوسرے یا تیسرے سب سے سینئر جج کو نامزد کرتا ہے تو اسے نامزدگی خط میں اس بات کی وجوہات بیان کرنی ہوں گی کہ سب سے سینئر جج یا دو سب سے سینئر ججوں کو نامزد کیوں نہیں کیا گیا،مزید یہ کہ اگر کمیشن سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس مقرر نہیں کرتا تو کمیشن کو اس بات کی وجوہات بتانی ہوں گی کہ سب سے سینئر یا دو سب سے سینئر ججوں کو مقرر کیوں نہیں کیا گیا۔

ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالت میں ججوں کی تقرری کے لیے نامزدگیاں ان قواعد کے شیڈول-1 میں دیے گئے مقررہ فارم پر سیکریٹریٹ کو جمع کرائی جائیں گی،نامزدگیاں اس تاریخ کے پندرہ دن کے اندر سیکریٹریٹ کو جمع کرائی جائیں گی جس دن نامزدگیاں طلب کی گئی ہوں۔

وضاحت کی جاتی ہے کہ مقررہ وقت کے بعد موصول ہونے والی نامزدگیاں کمیشن کے سامنے غور کے لیے پیش نہیں کی جائیں گی،اگر کمیشن یہ فیصلہ کرے کہ کوئی نامزد فرد دوبارہ غور کے لیے موزوں نہیں ہے تو وہ آئندہ خالی آسامیوں کے لیے دوبارہ نامزدگی سے نااہل ہو سکتا ہے،جوڈیشل کمیشن سیکریٹریٹ مقررہ وقت کے اندر موصول ہونے والی نامزدگیوں پر، متعلقہ حکام سے نامزدگی فارم میں فراہم کردہ تصدیق شدہ معلومات کے بارے میں رپورٹس حاصل کرے گا،اور دو سول انٹیلی جنس ایجنسیوں سے نامزد افراد کے عمومی پس منظر کے بارے میں رپورٹس بھی حاصل کرے گا۔

سول ایجنسیوں کی حاصل کردہ رپورٹس میں کوئی منفی تبصرے شامل ہوں تو ایسے تبصرے کرنے والے افسر کو معاون مواد فراہم کرنا ہوگا اور رپورٹ پر اپنے نام اور عہدے کے ساتھ دستخط کرنے ہوں گے،حاصل کردہ رپورٹس سیکریٹریٹ کی تحویل میں رہیں گی اور کمیشن کے اجلاس میں غور و فکر اور نامزدگیوں کو حتمی شکل دینے کے لیے پیش کی جائیں گی،سیکریٹریٹ کمیشن کے غور و فکر کے لیے نامزدگیوں کی دو مجموعی فہرستیں تیار کرے گا، پہلی فہرست وکلا کے ناموں پر مشتمل ہوگی، بشمول لاء آفیسرز،دوسری فہرست عدالتی افسران کے ناموں پر مشتمل ہوگی۔

سیکریٹری جوڈیشل کمیشن تمام اراکین کو کمیشن کے طے شدہ اجلاس سے کم از کم چودہ دن پہلے اجلاس کے ایجنڈے اور معاون مواد کے ساتھ اطلاع دے گا،اجلاس کے لیے کورم کمیشن کے کل اراکین کی اکثریت پر مشتمل ہوگا،چیئرپرسن کمیشن کے اجلاس کی کارروائی کو منظم کرے گا اور یقینی بنائے گا کہ تمام اراکین کو غور و خوض کے دوران اپنی رائے کے اظہار کا مساوی موقع دیا جائے،جوڈیشل کمیشن نامزدگیوں پر منظم انداز میں غور کرے گا، جس کی ترتیب چیئرپرسن طے کرے گا،چیئرپرسن یہ یقینی بنائے گا کہ غور و خوض ہر نامزد فرد کی قابلیت پر مرکوز رہے، جو مقررہ معیار کے مطابق ہو،کمیشن کسی نامزد فرد سے متعلق اضافی معلومات طلب کر سکتا ہے اگر اسے ضروری سمجھا جائے،غور و خوض کے بعد، نامزدگیوں پر ووٹنگ شو آف ہینڈ کے ذریعے کی جائے گی،کسی نامزد فرد کو کمیشن کے تحت آئین کے آرٹیکل 175A کی شق (8) کے مطابق نامزدگی کے لیے منتخب ہونے کے لیے کمیشن کی کل رکنیت کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔

اگر کسی خالی آسامی کے لیے کوئی نامزد فرد مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کر سکے تو کمیشن ان نامزد افراد کے درمیان ایک اضافی ووٹنگ کا عمل منعقد کرے گا جنہوں نے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، لیکن ہر خالی آسامی کے لیے دو سے زیادہ نامزد افراد شامل نہیں ہوں گے،وضاحت کی جاتی ہے کہ اگر دو سے زیادہ نامزد افراد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کریں تو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ دو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے نامزد افراد کے درمیان ہوگی،اگر دوسرے مرحلے کی ووٹنگ میں بھی کوئی نامزد فرد مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرے تو ووٹنگ کا عمل ختم ہو جائے گا، اور ان قواعد کے مطابق نئی نامزدگیاں طلب کی جا سکتی ہیں۔

سیکریٹری جوڈیشل کمیشن اجلاس کی کارروائی، فیصلے، اور ووٹنگ کے نتائج کے منٹس تیار کرے گا اور اجلاس کے دو دن کے اندر منتخب نامزد افراد کے نام پرنسپل سیکریٹری برائے وزیراعظم کو آئین کے مطابق مزید کارروائی کے لیے بھیجے گا،جب تک کمیشن کی جانب سے کوئی اور ہدایت نہ دی جائے، تمام کارروائیاں رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے بند کمرے میں منعقد ہوں گی،کمیشن کے صرف فیصلے، نہ کہ بحث و مباحثہ، کو مختصر شکل میں کمیشن کی آفیشل ویب سائٹ یا ویب پیج پر شائع کیا جائے گا۔

اراکین کمیشن کے اجلاسوں میں ہونے والی بحث و مباحثہ کے مواد کو ظاہر نہیں کریں گے، سوائے اس کے کہ اکثریتی کمیشن کی اجازت یا قانون کے مطابق اس کی ضرورت ہو،کمیشن اپنی کل رکنیت کی اکثریت سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ مخصوص کارروائیاں یا ان کا کچھ حصہ عوامی دلچسپی کے پیش نظر عوام کے سامنے کیا جائے،چیئرپرسن جوڈیشل کمیشن کے اراکین میں سے ایک یا زیادہ کمیٹیاں تشکیل دے سکتا ہے،کمیٹیاں تشکیل دینے کا مقصد کمیشن کے فرائض سے متعلق مخصوص کاموں کو انجام دیا جا سکے یا خاص مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے،ہر کمیٹی کے لیے اختیارات کی وضاحت ہوگی جس میں اس کے کام کا مقصد، دائرہ کار، اور مکمل کرنے کا وقت شامل ہوگا،کسی کمیٹی کے فیصلے یا سفارشات کمیشن کی منظوری سے مشروط ہوں گی، جب تک کہ انہیں واضح طور پر تفویض نہ کیا گیا ہو۔

اگر ان قواعد پر عمل درآمد کے دوران کوئی شبہ پیدا ہو تو اسے آئین کے آرٹیکل 175A کی شق (2) کے تحت کمیشن کے خصوصی یا عمومی حکم کے ذریعے حل کیا جائے گا،اگر ان قواعد پر عمل درآمد کے دوران کوئی مشکل پیش آئے تو آئین کے آرٹیکل 175A کی شق (2) کے تحت کمیشن، عوامی مفاد میں اور وجوہات بیان کرتے ہوئے، کسی خاص معاملے میں اس دفعہ کی سختی سے اطلاق کو نرم کر سکتا ہے،اگر ان قواعد میں کوئی ایسی دفعہ نہ ہو جو کمیشن کے فرائض یا اس سے متعلقہ معاملات سے نمٹ سکے، تو ایسے معاملے کو آئین کے آرٹیکل 175A کی شق (2) کے تحت کمیشن کے خصوصی یا عمومی حکم کے مطابق حل کیا جائے گا،اس کیلئے احکامات کمیشن کے کم از کم دو تہائی اراکین کی منظوری سے جاری کیے جائیں گے،کمیشن کے خصوصی یا عمومی احکامات کا ریکارڈ سیکریٹریٹ میں محفوظ کیا جائے گا،جوڈیشل کمیشن رولز 2010 کو منسوخ کیا جاتا ہے، منسوخ شدہ قواعد کے تحت کیا گیا کوئی کام، لیا گیا کوئی اقدام، یا دیا گیا کوئی فیصلہ قابل قبول ہوگا اور ان قواعد کے تحت کیا گیا تصور کیا جائے گا۔

منسوخ شدہ رولز 2010 کے تحت زیر التواء کوئی بھی معاملہ ان قواعد کے تحت زیر التواء تصور کیا جائے گا اور جہاں تک ممکن ہو ان قواعد کے مطابق نمٹایا جائے گا. دوسری جانب ملک بھر کی پانچویں ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتیوں کے معاملے پرجوڈیشل کمیشن نے پانچوں ہائی کورٹس میں 38 ایڈیشنل ججز کی نامزدگیاں طلب کر لیں،سندھ ہائی کورٹ میں 12 ایڈیشنل ججز،اسلام آباد ہائی کورٹ میں 4 ایڈیشنل ججز،لاہور ہائیکورٹ میں 10 ایڈیشنل ججز،پشاور ہائی کورٹ میں 9 ایڈیشنل ججز،بلوچستان ہائیکورٹ میں 3 ایڈیشنل ججز کیلئے نامزدگیاں طلب کی گئی ہیں۔ 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں