غزل
ایسا منظر بھی بارہا دیکھا
پاس رہ کر بھی فاصلہ دیکھا
میں نے امکان سے بھی آگے تک
تیری یادوں کا سلسلہ دیکھا
میری ہستی کہاں رہی باقی
اُس نے جب غور سے ذرا دیکھا
گھوم آئے ہیں ساری دنیا میں
تیرے جیسا نہ دوسرا دیکھا
جو غنی کو بھی بھیک دیتا ہو
تُو نے ایسا کوئی گدا دیکھا
پہلے ٹپکی تھیں یاد کی بوندیں
پھر تو بارش کا سلسلہ دیکھا
کام مشکل تھا عشق میں یارو
اس لیے میں نے راستہ دیکھا
لال آنکھیں شفق کی تھیں ساجدؔ
جب بھی خورشید ڈوبتا دیکھا
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)
غزل
اب یہی سوچ رہا ہوں کہ میں کیا لے جاؤں
دل سے اچھا ہے تری یاد چرا لے جاؤں
اپنی مرضی سے اگر آنا ہے آجا ورنہ
اتنا کم ظرف نہیں تجھ کو اٹھا لے جاؤں
میں نے جانا ہے افق پار کسی سے ملنے
تم نے جانا ہے اگر ساتھ تو آ، لے جاؤں
میرے اپنے ہیں یہاں میری ہوا کے جھونکے
میں جسے چاہوں اسے ساتھ اڑا لے جاؤں
تم نہیں جانتے خلوت میں روانی میری
میں وہ دریا کہ سمندر بھی بہا لے جاؤں
کوئی بھی چیز نہیں تیرے علاوہ صائم
کوئی بھی چیز نہیں جس کو چھپا لے جاؤں
(عابد حسین صائم۔بورے والا)
غزل
کسی نے چاند جلایا تو میری آنکھ کھلی
چراغ سامنے آیا تو میری آنکھ کھلی
میں تین چار بجے تک تو جاگتا ہی رہا
پھر اس نے آ کے سُلایا تو میری آنکھ کھلی
میں اپنا آپ بہت دیر کھٹکھٹاتا رہا
کوئی جواب نہ آیا تو میری آنکھ کھلی
قدیم خواب پڑا رہ گیا تھا بستر میں
کسی نے یاد دلایا تو میری آنکھ کھلی
وہ میری نیند بھی ایسے لپیٹ کر سویا
ذرا جو اُس کو جگایا تو میری آنکھ کھلی
وہ لوگ دائرے میں کھینچتے رہے مجھ کو
پھر اُس نے ہاتھ بڑھایا تو میری آنکھ کھلی
نحیف شام کی اُنگلی پہ اٹکے سورج نے
نگل لیا کوئی سایہ تو میری آنکھ کھلی
طلسم پھونکتا وہ بڑھ رہا تھا میری طرف
درود پڑھ کے گرایا تو میری آنکھ کھلی
(آصف انجم۔رحیم یار خان)
غزل
میں جی رہا ہوں اسے اور مجھے پتا ہی نہ ہو
یہ زندگی کہیں رب سے ملی سزا ہی نہ ہو
میں جس کے ظاہری پن پر اداس رہتا ہوں
وہ پھول کیا پتا اندر کہیں ہرا ہی نہ ہو
ہر اک عروج جڑا ہے کہیں زوال کے ساتھ
میں انتہا جسے سمجھا ہوں ابتدا ہی نہ ہو
شریک تو بھی مکمل تھا میرے گرنے میں
یہ اور بات ہے میں نے تجھے گنا ہی نہ ہو
کسی کے بارے میں وہ تو نہ کوئی بات کرے
کسی کے بارے میں جس نے کبھی سنا ہی نہ ہو
مٹا رہا ہوں جسے میں لرزتے ہاتھوں سے
اس ایک نام پہ سانسوں کا سلسلہ ہی نہ ہو
یہ لو لگانے سے پہلے خیال رکھتے ہیں
چراغ شام سے پہلے کہیں جلا ہی نہ ہو
(اسامہ ابرار۔ ملتان)
غزل
شکل جیسی بھی بنے بس تو بناتا چلا جا
کوزہ گر چاک گھما اور گھماتا چلا جا
یہ ترے حسن پہ جچتا ہے پریشان نہ ہو
مجھ کو جی بھر کے ستا اور ستاتا چلا جا
رونے دھونے میں اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہجر کو خاک سمجھ اور اڑاتا چلا جا
پھر شجر کاٹ کے کر لینا ضرورت پوری
پہلے پنچھی کا کوئی گھر تو بناتا چلا جا
روشنی سمت اگر بدلے ہوا کے ڈر سے
پھر چراغوں کو بجھا اور بجھاتا چلا جا
(عمار ناطق۔ کبیر والا)
غزل
اوّل اوّل کی طغیانیوں کے نشے یاد آنے لگے شام ٹھہری رہی
آخر آخر پہ نظریں بھی دھندلی ہوئیں، ڈگمگانے لگے شام ٹھہری رہی
زندگی بھی عجب بے بسی ہے کہ ہم سانس در سانس جینے سے مرنے لگے
سو ٹھکانے بدلتے ہوئے ہم نفس اک ٹھکانے لگے شام ٹھہری رہی
وسعتِ وہم کی سب حدوں سے پرے فہم الفت میں دنیا بسائی گئی
رنگ بے رنگ کیے اور اک رنگ سے گھر سجانے لگے شام ٹھہری رہی
اک اذیت سہی جو حقیقت بھی ہے ہم ترے پاس رہنے کے قابل نہیں
سوچتے ہیں تجھے دیکھ سکتے نہیں دل جلانے لگے شام ٹھہری رہی
پاس کے لوگ بھی دور بیں جان کر اپنے ادراک سے بھی پرے رکھ دیے
دن عداوت کا آنکھوں پہ یوں رک گیا نم چھپانے لگے شام ٹھہری رہی
یونہی الفت میں ہم شدتِ لمس کی روز کرنوں سے روشن دیے بن گئے
ہونٹ بجھنے لگے ہاتھ جلنے لگے دن ستانے لگے شام ٹھہری رہی
ہجر کا فاصلہ طے بھی ہوتا رہا دل کی لے پہ کوئی گیت گایا گیا
"تشنگی اور میں ریت کی دھن پہ کچھ گنگنانے لگے، شام ٹھہری رہی"
رقص میں ہے زمیں لے میں ہے کہکشاں چاند سورج ستارے مکاں لا مکاں
ایک دلکش جبیں ایسے روشن ہوئی کہ عناصر سبھی جھلملانے لگے شام ٹھہری رہی
(علی اعجاز سحر- کراچی )
غزل
کسے گلہ ہے بتائے جنون سے میرے
ہُوا ہے دشت گلستاں تو خون سے میرے
جو شوقِ پارچہ دوزی ہی ہے تو خنجر لے
نہیں بنیں گے یہ ملبوس اون سے میرے
کوئی نہیں ہے اگر محوِ خامہ فرسائی
تو کیوں یہ آتے ہیں نغمے درون سے میرے
وگرنہ آ مری وحشت میں ہم نفس ہو کر
یا چھیڑ چھاڑ لگا مت سکون سے میرے
ترے گلے پہ معلق رہے گا میرا عشق
تُو جاں چھڑا نہیں سکتا فسون سے میرے
(حماد مہر حماد۔منڈی بہاء الدین)
غزل
نشاطِ زیست کو ہم بے مزہ نہیں کرتے
کوئی بھی کام ہو ہم بے وجہ نہیں کرتے
وفورِشوق سے دامن کیا ہے چاک اتنا
رفوگرانِ جہاں حوصلہ نہیں کرتے
ہزاروں عیب ہیں تجھ میں اے بے وفا لیکن
’’یہ اور بات ہے تجھ سے گلہ نہیں کرتے ‘‘
جو دیکھ لیتے ہیں اُن مدھ بھری نگاہوں کو
تمام عمر وہ کوئی نشہ نہیں کرتے
اے عشق تجھ سے یہی آخری مکالمہ ہے
ختم وفاؤں کا ہم سلسلہ نہیں کرتے
شبِ فراق میں اشکوں نے یہ صدا دی عمیرؔ
حضورِ عشق میں عاشق گلہ نہیں کرتے
(عمیر عزیز۔ فیصل آباد)
غزل
تری زلفوں سے ٹانکا پھول ہوتا
تو میں بھی آج کچھ مقبول ہوتا
کوئی فرصت سے مجھ کو دیکھتا اور
میں اپنے کام میں مشغول ہوتا
محبت کی اگر کچھ بات ہوتی
تمہارا خط مجھے موصول ہوتا
جواباً وہ مجھے کچھ کہہ نہ سکتے
سوال ایسا مرا معقول ہوتا
وہ ساتھ اپنے مجھے شب بھر جگانا
ترا ہر روز کا معمول ہوتا
(احمد معاذ۔کہوٹہ، راولپنڈی)
غزل
بھر ہی جائیں گے اک دن، زخم میرے اندر کے
ٹوٹ تو نہیں جاتے حوصلے سمندر کے
یونہی بیٹھے رہنے سے، کب نصیب بدلے ہیں
ٹاس سے نہیں ہوتے فیصلے مقدر کے
اک عجب تماشہ تھا، آج میں نے جو دیکھا
لوگ پاؤں چھوتے تھے، جھومتے قلندر کے
دشمنوں میں سے اکثر، دوستوں کے جیسے ہیں
اور مزاج دشمن سے، دوستوں میں اکثر کے
اُس کو اپنے جیسا ہی نیک چاہیے کوئی
ذائقے چکھے گا کون؟ اُس وجودِ اطہر کے
(محمد عمر۔چارسدہ)
غزل
بکھرا نکھرا ہے زندگی کا رنگ
پھول جیسا ہے زندگی کا رنگ
آسماں،کہکشاں ستاروں تک
کتنا پھیلا ہے زندگی کا رنگ
چہرہ تیرا بہت ہی دلکش ہے
تجھ پہ سجتا ہے زندگی کا رنگ
ساٹھ ستّر برس بہت کم ہیں
جب سے دیکھا ہے زندگی کا رنگ
جھیل، دریا، شجر، پرندے،گیت
کتنا پیارا ہے زندگی کا رنگ
ہجر کے ہی دنوں میں کہتا تھا
یار پھیکا ہے زندگی کا رنگ
گو کہ دنیا بہت ہی رنگیں ہے
صرف پیسہ ہے زندگی کا رنگ
چار دن کی یہ زندگانی ہے
صرف دھوکا ہے زندگی کا رنگ
زندگی جی کے جانا ہے یہ نزیرؔ
غم کا سایہ ہے زندگی کا رنگ
(نزیر حجازی۔ نوشکی)
غزل
جو چہرے سے تیرے ہٹا لیں گے آنکھیں
خدا کی قسم ہم جلا لیں گے آنکھیں
اگر جو تمہی کو نہیں دیکھ سکتے
بصیرت سے ہم کر خفا لیں گے آنکھیں
اگر چاپ تیرے جو قدموں کی آئی
تو سجدے میں اپنی گرا لیں گے آنکھیں
جو اک بار ہم کو بھی دیدار دے دو
یہ ہے جھوٹ مکھ سے ہٹا لیں گے آنکھیں
ہمارے یہ شکوے گلے دور کر دو
زمانے سے ہم پھر ملا لیں گے آنکھیں
ہمیں تو نہ تھا علم کچھ بھی سروہیؔ
نئی چہرے پر وہ سجا لیں گے آنکھیں
یہ سوچا نہ تھا وقت ایسا آئے گا
مرے بچے مجھ پر اٹھا لیں گے آنکھیں
(خالد سروہی ۔جدہ، سعودی عرب)
غزل
دنیا کے مظالم سے سبک دوش نہیں ہوں
پر فخر اسی کا ہے کہ خاموش نہیں ہوں
بے جرم سزائیں میں بھلا کیسے بھلا دوں؟
جو بھی ہوں مگر زود فراموش نہیں ہوں
غم اتنے زیادہ ہیں کہ گننے کے نہیں ہیں
اب تک یہ غنیمت ہے کہ بے ہوش نہیں ہوں
حالت کے بدلنے کا نیا عزم کیا ہے
زندہ ہوں میں تاحال کفن پوش نہیں ہوں
ایمان کے نشّے میں ہوں سر شار ہر اک پل
صد شکر اسی پر ہے کہ مے نوش نہیں ہوں
کرتا ہوں برائی سے ہر اک وقت کنارا
نیکی سے کسی لمحہ بھی روپوش نہیں ہوں
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)
چھن گئی میری محبت بڑی آسانی سے
میں الجھتا ہی رہا بے سروسامانی سے
میں محافظ تھا مگر وہ مجھے دشمن سمجھا
میں نے کھویا ہے کوئی اپنا نگہبانی سے
میں نے دریا کو سنائی تھی کہانی اپنی
بوجھ کافی تھا مگر بانٹ لیا پانی سے
ہنستے ہنستے مری آنکھوں میں بھر آئے آنسو
خوف آنے لگا اندر کی بیابانی سے
میں نے وہ بات دوبارہ نہیں سوچی ورنہ
کتنے مطلب نکل آنے تھے نظر ثانی سے
پارسائی کا یہ دعویٰ تو نہیں ہے لیکن
مجھ کو مطلب ہی نہیں جسم کی عریانی سے
(احسن سلیمان۔ پنڈی)
چلتے چلتے جو اک گلی آئی
بند کھڑکی سے روشنی آئی
اس کو دیکھا تو میرے چہرے پر
بعد مدت کے تازگی آئی
جس کے جانے پہ رونے والے کو
آج بچھڑا تو بس ہنسی آئی
آج کیمپس میں جی نہیں لگنا
آج کیمپس جو وہ نہیں آئی
وقت پلٹا ہے جب سے پھر اپنا
جانے والوں میں کچھ کمی آئی
(انعام شاہ۔ جھنگ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ترتیب و تدوین : عارف عزیز