2018 کا مینڈیٹ واپس ہوا تھا؟

2018 میں اگر پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت بن جاتی تو بانی پی ٹی آئی اسے چلنے نہیں دیتے


محمد سعید آرائیں December 24, 2024
[email protected]

فروری 2024 کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی نے ایک کامیاب بیانیہ بنایا کہ ہمارا عوامی مینڈیٹ چوری کرکے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنوائی گئی تھی، اس لیے ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ پی ٹی آئی نے جس طرح مینڈیٹ چوری کا ملک بھر میں شور مچایا اس طرح کا شور 2018 میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی اور دوسری پارٹیوں نے بھی کیا تھا اوراسی انداز میں مینڈیٹ چوری کا الزام لگایا تھا جس طرح پی ٹی آئی لگا رہی ہے۔

اس وقت بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے 2013 میں پی ٹی آئی جیسی اکثریت حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی کے پاس تنہا حکومت بنانے کی مطلوبہ نشستیں نہیں تھیں اور جے یو آئی اور مسلم لیگ مل کر کے پی میں حکومت بنا سکتی تھیں جس کی تجویز مولانا فضل الرحمن نے نواز شریف کو دی تھی مگر نواز شریف نے کہا تھا کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی نشستیں زیادہ ہیں اور وہاں حکومت بنانے کا حق پی ٹی آئی کا ہے۔

 یہ ظرف نواز شریف کا تھا جس کی سزا انھوں نے وزیر اعظم بن کر 5 سال کے پی حکومت کے ہاتھوں بھگتی بھی کیونکہ پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کے پی بھی آئے دن بانی پی ٹی آئی کے کہنے پر موجودہ کے پی حکومت کی طرح سرکاری وسائل کے ساتھ وفاق پر حملے کیا کرتے تھے۔

نواز شریف کے مقابلے میں بانی پی ٹی آئی کا ظرف یہ تھا کہ انھیں مداخلت کے باوجود وفاق اور پنجاب میں مطلوبہ نشستیں 2018 میں نہیںملی تھی لہٰذا ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور (ف) کو پی ٹی آئی سے ملوایا گیا تو وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلانے میں کامیابی ہوئی تھی اور بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم بنوائے گئے تھے جنھیں اپوزیشن سلیکٹڈ وزیر اعظم کہتی تھی۔ اپوزیشن نے سلیکٹڈ کے لفظ کو بانی پی ٹی آئی کی چڑ بنا دیا تھا۔

جب بانی پی ٹی آئی ایوان میں آتے تو ایوان اپوزیشن کے لگائے جانے والے سلیکٹڈ کے نعروں سے گونج اٹھتا تھا جس پر بانی پی ٹی آئی نے ایوان میں آنا ہی چھوڑ دیا تھا اور انتقامی طور پر مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے تمام اہم رہنماؤں پر نیب سے جھوٹے مقدمے بنوا کر انھیں گرفتار کرا دیا تھا اور وہ دونوں پارٹیوں کی قیادت اور رہنماؤں کی گرفتاری پر بڑا فخر کرتے تھے مگر تمام اسیر رہنما ضمانتوں پر عدالتوں سے بری یا ضمانتوں پر رہا ہوتے گئے کیونکہ مقدمات جھوٹے تھے جن کے ثبوت تھے ہی نہیں کہ عدالتوں میں پیش کیے جاتے مگر ججز نے کئی سال بعد انھیں رہائی یا ضمانت دی تھی اور متعدد مقدمات اب تک عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

ان جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرائے جانے والے نیب مقدمات میں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز اور آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور اور دونوں پارٹیوں کے تمام اہم رہنما شامل تھے جو عدالتوں سے رہا ہوئے تھے اور جیلوں میں بانی پی ٹی آئی کے حکم پر ان کے ساتھ ناروا رویے اور زیادتیوں کی بانی پی ٹی آئی کی طرح دہائیاں نہیں دی تھیں جیسی شاہانہ قید کاٹنے والے بانی پی ٹی آئی ان کی اہلیہ اور بہنیں دے رہی ہیں حالانکہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں وہ تمام سہولیات مل رہی ہیں جو اپوزیشن کو نہیں ملی تھیں اور اب خواہ مخواہ کا واویلا کیا جا رہا ہے۔

2018 میں بانی پی ٹی آئی نے 2013 میں نواز شریف جیسے ظرف کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اور نہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے دی تھی بلکہ بالاتروں سے کہا تھا کہ مجھے پنجاب میں بھی اپنی حکومت چاہیے۔ بالاتر پنجاب میں عثمان بزدار جیسے نااہل وزیر اعلیٰ کو برداشت کرتے رہے اور بانی پی ٹی آئی نے خود اعتراف کیا ہے کہ بالاتر ہی ان کے بجٹ منظور کراتے اور ارکان کو ایوان میں لایا کرتے تھے۔

2018 میں اگر پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت بن جاتی تو بانی پی ٹی آئی اسے چلنے نہیں دیتے، اس لیے (ن) لیگ نے خود حکومت بنانے میں دلچسپی ہی نہیں لی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت تھی اس کے باوجود پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر سندھ میں گورنر راج لگانے یا پی ٹی آئی حکومت بنانے کے بیانات اکثر دیتے اور جھوٹے دعوے کیا کرتے تھے مگر کچھ نہ کر سکے تھے۔

پی ٹی آئی کے پی کے علاوہ باقی صوبوں میں اپنے خود ساختہ مینڈیٹ چوری کا بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہی ہے اگر ایسا ہی ہے تو کے پی میں پی ٹی آئی کا مینڈیٹ کیوں چوری نہیں ہوا؟ وہاں بھی تو موجودہ الیکشن کمیشن نے ہی 8 فروری کو الیکشن کرایا تھا۔ وفاق اور پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کو اتنی نشستیں ملی تھیں کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی کے ہیں جب کہ 2018 میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ اور پنجاب میں (ن) لیگ کے اپوزیشن لیڈر تھے اور ان دونوں کو بھی پی ٹی آئی حکومت میں گرفتار کرا کر طویل عرصے جیل میں رکھا گیا تھا اور گرفتار ارکان اسمبلی کو اسمبلیوں میں اجلاس میں بھی نہیں لایا جاتا تھا مگر 2024 کے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ایوان میں حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہیں بلکہ گمراہ کن اور جھوٹے الزامات بھی عائد کرتے آ رہے ہیں۔

جس طرح دیگر پارٹیوں کو پی ٹی آئی سے ملوایا گیا تھا اسی طرح وہ حلیف پارٹیاں من مانیوں، غلط فیصلوں اور انتقامی اقدامات کے باعث ناراض ہو کر پی ٹی آئی کی حمایت چھوڑ کر اپوزیشن سے مل گئی تھیں اور بانی پی ٹی آئی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا جو سراسر آئینی اقدام تھا۔ پی ٹی آئی کا 2018 کا مینڈیٹ جعلی تھا جب کہ بلاول بھٹو کے لاہور سے ہارنے، گیلانیوں کے ملتان سے جیتنے اور پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں کے ہارنے کی وجہ پی ٹی آئی کی مقبولیت نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی، جے یو آئی و دیگر پارٹیوں کے امیدواروں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کرکے اپوزیشن کا ووٹ تقسیم ہوا تھا اور پی ٹی آئی مخالفین کے باہمی ٹکراؤ کے باعث جیت گئی تھی۔

وزیر خارجہ کا یہ کہنا درست ہے کہ 2018 میں اپوزیشن کا جو مینڈیٹ چھینا گیا تھا کیا وہ ہمیں واپس ملا تھا جو پی ٹی آئی اپنے بے بنیاد ہمارا مینڈیٹ واپس کرنے کا مطالبہ کس منہ سے کر رہی ہے۔

2018 کا مینڈیٹ واپس ہوا تھا نہ 2024 کا مینڈیٹ واپس ہوگا۔ ہر الیکشن میں دھاندلی کا شور مچتا ہے مگر ہوتا کچھ نہیں اور ہار جیت کا فیصلہ الیکشن ٹریبونل قانون کے مطابق یا اس کے بعد الیکشن کا فیصلہ عدالتوں میں چیلنج ہوتا ہے جہاں تاخیر ضرور ہوتی ہے اور اسمبلیوں کی مدت پوری ہو جاتی ہے اور شور مچانے والے شور مچاتے رہ جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں