قائد اعظم محمد علی جناح ؒ… دنیا کی نظر میں

قائداعظمؒ کی سیاسی زندگی کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔

25 دسمبر کوبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔ قائداعظم کے بارے تدریسی کتابوں،سیاسی قائدین کی تقریروں اور ذرایع ابلاغ میں لکھے جانے والے مضامین ہم سب پڑھتے رہتے ہیں لیکن ان کے ہم عصر سیاستدان، دانشور اور تاریخ دان ان کی شخصیت، کردار اور صلاحیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، اس کا مختصر سا جائزہ پیش خدمت ہے۔

سر آغا خان کہتے ہیں کہ چرچل، کرزن، مسولینی اورمہاتما گاندھی ان کے مقابلے میںقائداعظم کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے عظیم ہیں۔ قائداعظمؒ کی سیاسی زندگی کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔قائداعظمؒ عزم و عمل، دیانت، خطابت، اور خود داری کا مرقع تھے۔

کراچی کے ایک پارسی مئیرجمشید نو شیرواں نے قائداعظم کے لیے کہا،’’قائداعظم کو اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا۔جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتے تھے۔ وہ کم آمیز اور با وقار تھے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح بڑے انسان دوست تھے۔

ہیکٹر بولا ئیتھو اپنی کتاب ’’جناح دا فاؤنڈر آف پاکستان‘‘میں لکھتے ہیں۔ ’’سیاسی نا کامی اور ذاتی صدمے کے با وجود ان کی ذہنی صلاحتیوںمیں کوئی فرق نہ آیا۔لارڈ جووٹ جو چھ سال برطانیہ کے وزیر قانون رہے، کے الفاظ ہیں،’’جناح قانونی معاملات میں بڑے ہوشیار تھے۔ان کی ان صلاحیتوں کے باعث ہم سب ان کا بڑا احترام کرتے تھے‘‘۔جناح کی شخصیت پر مونیٹگو کہتا ہے کہ ’’جناح استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں۔انھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق ن کا منصوبہ کلیتاً منظور کیا جائے۔‘‘

گاندھی نے کہا کہ میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی طاقت مسٹر جناح کو نہیں خرید سکتی۔بی جے پی کے لیڈر جسونت سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں محمدعلی جناح کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے رہنماء تھے۔جن دنوں جناح لندن میں وکالت کرتے تھے ۔

ان کے دفتر کے متصل ایک انگریز وکیل مسٹر ٹی ڈبلیو ریمزکا دفتر تھا۔یہ صاحب بھی وہاں وکالت کرتے ہیں۔ انھوں نے جناح کی لندن سے مراجعت کا حال یوں بیان کیا:مجھے وہ دن یاد ہے جب جناح نے میرے دفتر ا ٓ کر مجھے بتایا کہ وہ وطن واپس جا رہے ہیں۔ان کے خوبصورت اور شاندار فرنیچر پر بہت سے وکیلوں کی نظر تھی۔وہ اسے خریدنا چاہتے تھے۔فرنیچر میں مہاگنی کی چند بڑی خوبصورت چیزیں تھیں اور ایک وکیل نے جناح سے کہا۔ وہ انھیں خریدنا چاہتا ہے۔جناح نے جواب دیا۔’’مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔تم یہ سب لے لو۔میں ایک بہت بڑے مقصد کے لیے ہندوستان واپس جا رہا ہوں‘‘۔

واپس آتے ہی محمد علیؒ جناح نے ہندوستان کی سیاست میں نئی روح پھونک دی۔ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو متحد کیا ۔ ان کے تحت الشعور میں یہ فکر تھی کہ ہندو ، مسلم اب ایک مملکت میں باہم متحد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی اسلام سے محبت، اس بیان سے صاف ظاہر ہے جو انھوں نے مسلم لیگ کراچی کے 1943کے اجلاس میں دیا:’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے؟ جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ چٹان، لنگر، خدا کی کتاب قرآن کریم ہے،مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ اتحاد ہو گا، ایک خدا۔ ایک رسولﷺ، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔

تقسیم ہندکے نتیجے میں قائم ہونے والی دونوں ریاستوں بھارت اورپاکستان میں خطے کی سیاست کی نئی راہیں متعین ہوئیں، جنوبی ایشیا میں طاقت کا نیا توازن سامنے آیا ۔آج کا ایٹمی پاکستان دنیاکے نقشے پر ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری طاقت کی پہچان رکھتاہے۔معاشی میدان کے بدلتے تقاضوں میں پاکستان کی اہمیت دنیاتسلیم کررہی ہے اورپاکستان، پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میں خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی سرگرمی کامحو ربن چکا ہے۔

قائداعظم نے نظریہ پاکستان کے بارے میں کہا تھا،’’یہ زندگی اور موت کا معرکہ ہے۔ مسلمانوں کو اس حقیقت کا پورا احساس ہو چکا ہے اگر ہم شکست کھائیں گے تو سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔ آئیے اس ولندیزی ضرب المثل کو اپنا دستور العمل بنائیں۔’’جب انسان دولت کھو دے تو کچھ نہیں کھوتا۔ اگر حوصلہ کھو دے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے لیکن روح مر جائے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا‘‘۔ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو انتقال کے 76 سال برس بعد بھی زندہ باد کہلاتا ہے اور کیوں نہ ہو؟

Load Next Story