مذاکرات اور حکومتی مذاکراتی ٹیم
تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کے جواب میں وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی ایک حکومتی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ۔ حکومتی کمیٹی میں حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے نمایندے شامل کیے گئے۔
اب دونوں جانب سے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف بانی تحریک انصاف کی جانب سے دی جانے والی سول نافرمانی کی کال بھی شروع ہو گئی ہے۔ بانی تحریک انصاف نے اتوار تک کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اتوار کے بعد اس سول نافرمانی نے خود بخود شروع ہو جانا تھا۔ اس لیے جب کال دے دی گئی ہے تو سول نافرمانی شروع ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کال میں ابھی تک اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں زرمبادلہ نہ بھیجنے کا کہا گیا ہے۔ اس طرح ایک طرف حکومت کی مذاکراتی کمیٹی بھی بن گئی اور دوسری طرف سول نافرمانی بھی شروع ہو گئی ہے۔
تحریک انصاف کے حامی سیاسی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے اپنی کمیٹی میں اتحاد کی سب سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو شامل کر کے بہت زیادتی کر دی ہے۔ اس طرح تو کچھ طے ہی نہیں ہو سکے گا۔
سب سیاسی جماعتوں کو ایک بات پر قائل کرنا بہت مشکل ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ صرف ن لیگ کے نمایندوں پر مشتمل مختصر کمیٹی بناتی تا کہ بات کچھ طے ہو سکتی۔ اب تو کچھ طے ہونا بہت مشکل ہے۔ اگر ایک بات ن لیگ مانے گی تو ایم کیو ایم نہیں مانے گی۔ ایم کیوایم مانے گی تو آئی پی پی نہیں مانے گی۔ اس طرح سب کو قائل کرنا تحریک انصاف کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔
دوسری طرف ن لیگ کا موقف ہے کہ ان مذاکرات کی ساری ذمے داری ہم کیوں لیں۔ یہ ایک اتحادی حکومت ہے اس لیے جو بھی طے ہوگا سارے اتحادی ہی طے کریں گے۔ ن لیگ کا موقف ہے کہ اگر ہم کچھ مان بھی جاتے اور بعد میں باقی اتحادی نہ مانتے تو ہم کیا کرتے۔ اس لیے حکومت کی کمیٹی زیادہ با اختیار ہے۔ وہاں سب موجود ہیں۔
جو طے ہوگا سب کے ساتھ ہوگا۔ ویسے بھی تحریک انصاف کوئی اکیلی ن لیگ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے حق میں تو نہیں تھی وہ تو حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے حکومت میں تو سب شامل ہیں۔ اگر وہ صرف ن لیگ کے ساتھ کوئی سیاسی مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پھر وہ مذاکرات دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونگے ۔ حکومت کے ساتھ نہیں ہونگے۔ ن لیگ کی اکیلی حکومت نہیں ہے۔
اگر ان مذاکرات کی وجہ سے کوئی ایک اتحادی بھی ناراض ہو جاتا ہے تو ن لیگ کی حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس لیے تحریک انصاف سے مذاکرات کے لیے ن لیگ اپنی حکومت خطرے میں کیوں ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک درست اور سیاسی حکمت سے بہترین فیصلہ کیا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تمام اتحادی سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل کمیٹی سے کچھ طے ہونا مشکل ہے تو ن لیگ کے ساتھ بھی کسی بات پر متفق ہونا مشکل تھا۔ صرف یہ ہوا ہے کہ کل کو جب تحریک انصاف نے بیانیہ بنانا تھا کہ ن لیگ نے ہماری بات نہیں مانی تو باقی حکومتی اتحادیوں نے تماشہ دیکھنا تھا۔ اب جب وہ ساتھ بیٹھے ہونگے تو ذمے داری بھی لیں گے۔ کوئی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ن لیگ تو ساری باتیں ماننے کے لیے تیار تھی باقی لوگ نہیں مانے۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب باقی سب مان جائیں گے تو ن لیگ کے لیے بھی ماننا مجبوری ہو گا۔
میں پہلے دن سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ تحریک انصاف نے جو مطالبات رکھے ہیں حکومت ان میں سے ایک بھی ماننے کی طاقت اور اختیار ہی نہیں رکھتی۔ اس لیے ان کی کامیابی کے امکانات کم ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہی ہیں۔ حکومت ان مطالبات کو یکسر مسترد بھی کر سکتی تھی۔ کسی حد تک تحریک انصاف کے مطالبات مسترد کیے بھی گئے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب مسترد کر دیے گئے ہیں تو کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ میں سمجھتا ہوں حکومت نے تحریک انصاف کی سیاسی چال کا جواب بھی سیاسی ہی دیا ہے۔ جو کمیٹی بنا دی گئی ہے وہ مطالبات مسترد کر دینے کی ہی مصداق ہے۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا تحریک انصاف کو حکومت کی اس کمیٹی سے اکیلے ہی مذاکرات کرنے چاہیے یا تحریک انصاف کو بھی اپوزیشن کی باقی سیاسی جماعتوں کو شامل کر لینا چاہیے؟ کیا تحریک انصاف کو اپنی کمیٹی کو دوبارہ نئی شکل نہیں دینی چاہیے؟ اس میں مولانا کے لوگوں کو ساتھ شامل نہیں کرنا چاہیے۔ مینگل کے لوگوں اور محمود خان اچکزئی کو ساتھ شامل نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح ان مذاکرات کی ایک نئی شکل نکل آئے گی۔
یہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات بن جائیں گے۔ جس میں ملک کی سیاست اور دیگر معاملات پر کھل کر بات ہو سکے گی۔ سب سیاسی جماعتیں ایک وسیع تر ملکی قومی اتفاق رائے کے لیے اس کمیٹی کو استعما ل کر سکیں گے۔ ابھی تک تو تحریک انصاف صرف اپنے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے۔ وہ ساری اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات میں شامل نہیں کرنا چاہتی۔ وہ یہ تو چاہتی ہے کہ اس کی احتجاجی تحریک میں اپوزیشن کی ساری سیاسی جماعتیں شامل ہو جائیں۔ لیکن مذاکرات میں ان کو شامل نہیں کرنا چاہتی۔
اب کیا یہ مذاکرات کامیاب ہونگے؟ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں جو شرائط اور مطالبات ابھی تحریک انصاف نے سامنے رکھے ہیں ان پر تو کامیابی مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ ان لوگوں کو رہا کیا جائے۔ آپ بتائیں رہا کرنے کا حکومت کے پاس کونسا اختیار ہے؟ مقدمات ختم کرنے کا حکومت کے پاس کونسا اختیار ہے؟ ایسا ایک اختیار سابق صدر مشرف نے استعمال کیا تھا۔ جب انھوں نے ایک این آر او نامی آرڈیننس سے پیپلزپارٹی بالخصوص محترمہ بے نظیر بھٹو کے تمام مقدمات ختم کر دیے تھے۔ لیکن پاکستان کی عدالتوں نے نہ صرف اس آرڈیننس کو اٹھا کر رد کی ٹوکری میں پھینک دیا بلکہ مقدمات بھی بحال کر دیے تھے۔اور این آر او کو گالی بنا دیا۔ اب حکومت کونسے اختیار کے ساتھ تحریک انصاف کے لوگوں کے مقدمات ختم کرے۔
اور انھیں رہا کرے۔ پاکستان کے آئین وقانون کے تحت حکومت کے پاس مقدمہ بنانے کا اختیار تو ہے ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ مقدمہ ختم عدالت ہی کر سکتی ہے۔ یہ اختیار عدالت کے پاس ہے کہ سزا دے یا بری کر دے۔ جہاں تک رہائی کا تعلق ہے تو حکومت کے پاس پکڑنے کا اختیار ہے۔ چھوڑنے کا نہیں۔ چھوڑنے کا اختیار پھر عدالت کے پاس ہی ہے۔ وہ ضمانت لے کر چھوڑ سکتی ہے۔ حکومت کے پاس ضمانت لینے کا کوئی اختیار نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے تمام قیدیوں کی فہرست بنائی ہے۔ لیکن حکومت کیا کرے گی۔ وہ کہے گی عدالت جائیں، وہاں سے ضمانتیں لیں۔ اپنے مقدمات ختم کروائیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
اسی طرح جہاں تک جیوڈیشل کمیشن بنانے کی بات ہے ۔ فرض کر لیں اگر حکومت عدلیہ کو اب جیوڈیشل کمیشن کے لیے خط لکھ بھی دیتی ہے کہ آپ کمیشن بنا دیں اور عدلیہ کا جواب یہی ہوگا کہ جن معاملات پر آپ کمیشن بنانے کا کہہ رہے ہیں وہ اب عدالت میں ہیں۔ آپ عدالت جائیں۔ مجھے نہیں لگتا زیر سماعت مقدمات پر کوئی تحقیقاتی جیوڈیشل کمیشن بن سکتا ہے۔
جب مقدمات کے چالان عدالت میں جمع ہو جائیں ان کی دوبارہ تفتیش کی اجازت نہیں ہوتی۔ حکومت بھی دوبارہ تفتیش نہیں کر سکتی۔ آپ چالان جمع ہونے سے پہلے کوئی تحقیقاتی کمیشن بنا سکتے ہیں، اب نہیں۔ اس لیے قانونی طور پر یہ بھی ممکن نہیں۔باقی محرکات اپنی جگہ موجود ہیں۔وہ بھی بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ میں تو قانونی بات کر رہا ہوں۔ تحریک انصاف کو خیال کرنا چاہیے کہ مطالبات کم از کم قانون کے دائرے میں تو ہوں۔