خلیفۃ الرسول کریمؐ سیّدنا صدیق اکبرؓ

رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کسی نے بھی ہم پر احسان کیا ہم نے اس کا بدلہ اسے دے دیا



 سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے نبوت عطا ہوئی تو سب نے جھٹلایا مگر ابوبکر صدیقؓ نے مانا اور دوسروں سے منوایا، جب میرے پاس کچھ نہیں رہا تو ابوبکر کا مال راہِ خدا میں کام آیا، جب ابوبکر صدیق ؓ نے مجھے تکلیف میں دیکھا تو سب لوگوں سے زیادہ میری غم خواری کی۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضورؐ نے کئی مرتبہ جنت کی بشارت و خوش خبری دی اور عشرۂ مبشرہ صحابہ کرامؓ میں بھی آپؓ کا نام سرفہرست ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے کئی آیات حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شان میں نازل فرمائیں، یہ سعادت و خوش نصیبی بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حاصل ہے کہ آپؓ کے والدؓ، والدہؓ، اولاد، پوتے اور نواسے بھی حضورؐ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرتے ہوئے صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔

آپؓ کی بیٹی صدیقہ کائنات حضرت سیدہ عائشہؓ کو حضور ﷺ کی زوجۂ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روشن زندگی، فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور سنہرے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں جس کی ضوفشانی سے قیامت تک آنے والے مسلمان و حکم ران ہدایت و راہ نمائی حاصل کرتے رہیں گے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ علم انساب میں بے مثال اور خوابوں کی تعبیر بتانے میں ماہر تھے۔ آپؓ کپڑے کے بڑے تاجر تھے، ایک مرتبہ آپؓ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے تو وہاں ایک سابقہ آسمانی کتب کے یہودی عالم ’’بحیرا راھب‘‘ سے ملاقات ہوئی جس نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ تو اس نبی کی تابعداری کرے گا جس کا زمانے کو انتظار ہے اور اس کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آچکا ہے، اور اس نبی کے قرب کی سعادت دوسرے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ پائے گا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حضور ﷺ کے ساتھ اس سے قبل ہی دوستی و محبت کا بہت گہرا تعلق تھا اور آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار سے بہت متاثر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ آسمانی کتب کے علماء کی طرف سے آخری نبی ﷺ کی آمد کی بشارت و خوش خبری سننے کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ و ہ حضور ﷺ ہی کی ذات بابرکات ہے، اور میں اسی وقت ہی ان پر ایمان لے آیا تھا اور میں اس انتظار میں تھا کہ کب آپؐ اعلان نبوت فرمائیں اور میں اپنے ایمان لانے کا اظہار کروں اور پھر جب حضورؐ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو میں نے فورًا آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا شروع کر دی اور آپ ؓ کی ہی دعوتِ اسلام پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبید بن زیدؓ اور حضرت طلحہؓ ایمان لائے۔ ابھی تک دعوت اسلام کو خفیہ رکھا گیا تھا، اعلانیہ کسی کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچ گئی تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اصرار پر حضور ﷺ اپنے ساتھیوں کو لے کر بیت اﷲ میں اعلانیہ دعوت اسلام دینے اور اظہار نبوت کے لیے تشریف لے گئے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت اﷲ میں توحید و رسالت ﷺ پر خطبہ شروع کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت اﷲ میں خطبہ شروع کرتے ہوئے ابھی دعوتِ اسلام دی ہی تھی کہ کفار و مشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے آپؐ کی شرافت و عزت اور عظمت کے باوجود ان کو اس قدر مارا کہ آپؓ لہولہان اور بے ہوش ہوگئے۔

آپؓ کے قبیلے کے لوگ آپؓ کو اٹھا کر گھر لائے شام تک آپؓ بے ہوش رہے جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلے اپنے محبوب ﷺ کے حال کے بارے میں دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا کہ اب بھی اس کا نام لیتے ہو جس کی وجہ سے یہ سب کچھ تمہارے ساتھ ہوا، آپؓ کی والدہ ’’ام الخیر‘‘ نے آپؓ سے کھانے پینے پر اصرار کیا۔ لیکن آپؓ مسلسل انکار کرتے ہوئے یہی اصرار کرتے کہ پہلے مجھے حضور ﷺ کا حال بتاؤ، آپؓ نے اس موقع پر حضورؐ کے عشق و محبت میں قسم کھا کر کہا کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کھاؤں گا جب تک میں حضورؐ کی زیارت نہ کر لوں۔

آپؓ کی والدہ ام الخیر سے آپؓ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی اور وہ اس بات کا انتظار کرنے لگیں کہ اندھیرا بڑھ جائے اور لوگوں کی آمد و رفت بھی بند ہوجائے تو میں آپؓ کو حضور اقدسؐ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوجاؤں کہیں لوگ آپ کو دوبارہ نہ ماریں۔ اس وقت حضور اقدسؐ دارارقم میں تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی والدہ آپؓ کو سہارا دیتے ہوئے وہاں پہنچیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضورؐ کو دیکھتے ہی فرطِ محبت میں آپؐ سے لپٹ گئے۔ آپؓ کی حالت دیکھ کر رحمتِ کائناتؐ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضور ؐسے درخواست کی یہ میری والدہ ہیں ان کی ہدایت و ایمان کے لیے دعا کریں۔

حضورؐ نے دعا فرمائی اور اسلام کی ترغیب دی تو آپؓ کی والدہ ام الخیر اسی وقت اسلام قبول کرتے ہوئے دولتِ ایمان سے مالا مال ہوگئیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد عثمان ابوقحافہؓ مکہ کے باعزت لوگوں میں سے تھے، شروع میں اسلام نہ لائے۔ ایک روز حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے والد ابوقحافہ ؓ کو لے کر بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اس وقت حضورؐ مسجد میں تشریف فرما تھے ان پر نگاہ پڑی تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کم زوری و مجبوری میں ان کو کیوں تکلیف دی مجھے کہا ہوتا۔ ابوقحافہؓ کے پاس مجھے خود جانا چاہیے تھا۔ جب ابوقحافہؓ آپؐ کے قریب آئے تو حضورؐ احتراماً کھڑے ہوگئے اور اپنے پہلو میں بٹھا کر بڑی محبت سے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے ہوئے نورِ ایمان سے منور کردیا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے مال و دولت کو اسلام کے لیے وقف کردیا۔ حضرت بلال حبشیؓ، عامر بن فہیرہؓ وغیرہ مسلمان تھے لیکن کافروں کے غلام ہونے کی وجہ سے ظلم و تشدد اور مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان سب کو بھاری قیمت کے بدلے آزاد کروا کے حضور ﷺ کی بارگاہ میں لے آئے۔

اﷲ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو معراج کی رات آسمانوں کی سیر کرائی جنت و دوزخ کو دکھایا، واپس آنے کے بعد جب حضور ﷺ نے یہ عجیب سفر بیان فرمایا تو لوگ اس کو جھٹلاتے ہوئے مختلف سوالات کے ذریعے مذاق کرنے لگے۔ لیکن ابوبکر صدیقؓ نے اس واقعہ کو سنتے ہی اس کی تصدیق کی تو حضور ﷺ کی زبان مبارک سے آپؓ کو صدیق کا لافانی لقب عطا ہوا، اور آسمانوں سے خدا نے قرآن کی صورت میں وحی نازل کر کے اس کی تائید کی۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس کسی نے بھی ہم پر احسان کیا ہم نے اس کا بدلہ اسے دے دیا، سوائے ابوبکرؓ کے کہ اس کے احسانات کا بدلہ قیامت کے دِن اسے اﷲ دے گا، کسی کے مال نے مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا نفع مجھے ابوبکر کے مال نے دیا ہے۔‘‘

حضورؐ کی دنیا سے رخصتی کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفۃ الرسولؐؐ اور جانشین بنایا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنایا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں نیک کام کروں تو اس میں میری مدد کرو اور اگر میں بُرا کروں تو مجھے ٹوکو! صدق امانت ہے اور کذب خیانت، تمہارا کم زور شخص میرے نزدیک قوی ہے، جب تک میں اسے اپنا حق نہ دلا دوں۔ اور تمہارا قوی آدمی میرے نزدیک کم زور ہے جب اس کے ذمے جو حق ہے وہ اس سے نہ لے لوں! جو قوم اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد ترک کردیتی ہے اس پر اﷲ تعالیٰ ذلت و خواری مسلط کردیتا ہے اور اگر کسی قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر بلائیں اور عذاب عام کر دیتا ہے۔ تم میری اطاعت کرو جب تک میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں! لیکن اگر مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جس سے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا پہلو نکلتا ہو تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے۔‘‘

سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انتہائی مشکل حالات میں نظامِ خلافت کو سنبھالا۔ اس وقت مصائب و مشکلات نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ فتنہ ارتداد، جھوٹے مدعیان نبوت، مانعین و منکرین زکوٰۃ کے فتنے نے طوفان کی صورت اختیار کر لی تھی، اسلام اور مرکز اسلام خطرے میں دکھائی دینے لگے ان حالات میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بڑی جرأت و بہادری کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے ان تمام فتنوں کا خاتمہ کیا اور اس کے ساتھ اس وقت کفر کی دو بڑی طاقتیں روم اور فارس کو بھی شکست فاش دی۔ اسلام کی حدود پھیلتی چلی گئیں، ہر طرف امن و سکون اور خلافت راشدہ کے مقدس نظام کے ثمرات و برکات نظر آنے لگے۔ جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حفاظِ قرآن کی شہادت کے بعد آپؓ نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے مشورے سے قرآن کی جمع و تدوین کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دو سال، تین ماہ اور گیارہ دن نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضۂ رسولؐ میں اپنے محبوب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت رسول کریم ﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں