قائد اعظم بحیثیت قانون داں

وہ ایک جرأت مند، قابل، صاف گو اور دیانت دار وکیل تھے


خواجہ رضی حیدر December 25, 2024

بیسویں صدی عیسوی میں قائداعظم محمد علی جناح جہاں ایک بے بدل سیاست داں کے طور پر معروف اور مقبول رہے وہاں بحیثیت وکیل بھی ان کی شہرت اور عزت عام تھی۔ انھوں نے کراچی میں ابتدائی تعلیم کے بعد انگلینڈ جا کر لنکنز اِن میں 5 جون 1893 کو داخلہ لیا اور 29 اپریل 1896 کو بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

لنکنز اِن میں تعلیم کے دوران ان کے اساتذہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور یہ تصور کرتے تھے کہ وہ مستقبل میں ایک قابلِ ذکر بااعتماد وکیل کے طور پر نمایاں ہوں گے۔ قائد اعظم کے لنکنز اِن میں ایک استاد سر ہاورڈ الفنسٹن نے اپنے سرٹیفکیٹ میں لکھا،’’مسٹر ایم اے جناح نے 1894 اور 1895 کے دوران میرے لیکچرز میں شرکت کی۔

اس دوران مجھے ان کے نتائج دیکھنے کا موقع ملا اور میں ان نتائج کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک قابل شخصیت کے مالک ہیں اور جس کام کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں گے اسے بہتر طور پر انجام دیں گے۔‘‘

ایک اور استاد بیرسٹر ڈبلیوڈ گلس ایڈورڈز نے لکھا،’’مسٹر جناح جب میرے زیرتعلیم تھے تو انھوں نے امتحانات میں نہایت جاں فشانی، ذودفہمی اور ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ اس بنا پر میں ان کی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں ایک مثبت رائے قائم کرنے کی جانب راغب ہوا اور مجھے یہ یقین ہوگیا کہ وہ جس شعبۂ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے ان کو ممکنہ کام یابی حاصل ہوگی۔‘‘

 جناح نے لندن میں تقریباً تین سال قیام کے دوران عدالتوں میں وکلاء کو دلائل دیتے ہوئے بھی سنا تاکہ وہ اپنی عملی زندگی میں اس تجربے سے استفادہ کرسکیں۔ وہ 1896 میں لندن سے کراچی واپس آئے۔ انھوں نے بمبئی جانے کا فیصلہ کیا اور نہایت ناسازگار اقتصادی حالات میں بمبئی پہنچ گئے۔

18؍ اگست 1896 کو انھوں نے بمبئی ہائی کورٹ میں بحیثیت وکیل رجسٹریشن کی درخواست داخل کی اور 24؍اگست 1896کو ان کا رجسٹریشن ہوگیا۔ تین سال تک ان کو کوئی قابلِ ذکر مقدمہ نہیں ملا۔ اس عرصے میں انھوں نے بمبئی میں قائم مقام ایڈوکیٹ جنرل مسٹر میکفرسن کے چیمبر میں موجود لائبریری سے استفادے کے لیے وہاں جانا شروع کردیا۔ کانگریسی راہ نما مسز سروجنی نائیڈو، معروف قانون داں سر چمن لال سیتلواڈ اور سید شریف الدین پیرزادہ نے لکھا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ہندوستانی کو میکفرسن جیسے وکیل کے چیمبر میں یہ سہولت میسر آئی۔

جناح نے جہاں میکفرسن کی لائبریری سے استفادہ کیا وہاں ان کو میکفرسن کے اندازِوکالت، طرزِاستدلال، زباں دانی اور عدالت کے آداب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے اپنی ذہانت اور تہذیبی رویے سے میکفرسن سے اس قدر قربت حاصل کرلی کہ وہ اپنے مقدمات کے حوالے سے جناح سے مشورہ بھی کرنے لگے تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً تین سال تک جناح نے بمبئی ہائی کورٹ میں سیکڑوں مقدمات کی کارروائی دیکھی۔ نام ور وکلاء کو جرح کرتے اور دلائل دیتے سنا۔ عدالتی اہل کاروں کی نفسیات کو سمجھنے کا موقع ملا اور ان کے تجربات اور مشاہدے میں اضافہ ہوا۔

اپریل 1900میں بمبئی کے تھرڈ پریزیڈنسی مجسٹریٹ پی ایچ دستور کے رخصت پر چلے جانے کی بنا پر عارضی طور پر پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی جب ایک آسامی تین ماہ کے لیے خالی ہوئی تو مسٹر میکفرسن کے مشورہ پر اس آسامی کے لیے جناح نے لا ممبر سر چارلس اولیونٹ سے ملاقات کی تاکہ اس نوکری کے حصول سے وہ اپنی مالی مشکلات پر قابو پاسکیں۔ مسٹر چارلس نے یکم مئی 1900 سے اس خالی آسامی پر جناح کا تقرر کردیا۔ بحیثیت تھرڈ پریزیڈنسی مجسٹریٹ جناح نے یکم مئی 1900 کو ہی چوری کے ایک مقدمے کی سماعت کی۔

تھرڈ پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی حیثیت سے جناح نے نہایت عمدگی سے تین ماہ خدمات انجام دیں اور ان کی شہرت عدالتی حلقوں میں عام ہوگئی۔ تین ماہ مکمل ہونے کے بعد جب پی ایچ دستور رخصت سے واپس آئے تو چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی آسامی پر ان کا تقرر ہوگیا لہٰذا جناح کی مدت میں مزید تین ماہ کی توسیع کردی گئی۔ اس طرح جناح نے چھے ماہ تک بحیثیت مجسٹریٹ خدمات انجام دیں۔ اس عرصے میں انھوں نے تقریباً 73 مقدمات سماعت کیے اور فیصلہ سنایا۔ ان میں زیادہ تر مقدمات چوری، جیب تراشی کے واقعات، شراب نوشی، بدعہدی، صحت عامہ کی خلاف ورزی، کاروباری تنازعات، اسمگلنگ، بے پرواہی وغیرہ کے تھے۔

تمام مقدمات کی کارروائی پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناح نے مقدمات کی سماعت کے دوران قانون کا پاس و لحاظ رکھا اور انصاف کی بالادستی کے لیے کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے جیساکہ 29؍جولائی 1900 کو ان کی عدالت میں پیش ہونے والے ایک مقدمے کی کارروائی اور فیصلے سے ظاہر ہے۔ ایک انگریز سیاح نے جو بمبئی کے ’پرنس ڈاک‘ کے علاقے کے قریب ایک گھوڑا گاڑی سے اترا تھا پہلے تو اس نے گھوڑا گاڑی والے کو کرایہ دینے سے انکار کیا اور پھر اسے زد وکوب کرنے کی دھمکی دی۔

جب گاڑی بان وہاں سے بھاگ گیا تو یہ سیاح وہاں پر موجود ایک پولیس سپاہی کے پاس گیا اور اس سے سلوٹ مارنے کو کہا۔ سپاہی نے جب ایسا کرنے سے منع کردیا تو انگریز سیاح نے اسے زدوکوب کیا۔

پولیس رپورٹ ہونے پر یہ مقدمہ جناح کی عدالت میں پہنچا۔ جناح نے مقدمے کو نمٹاتے ہوئے اپنے ریمارکس میں لکھا کہ پولیس کے سپاہی کو سلوٹ کرنے کا حکم دینے اور ایسا تخفیف کرتے ہوئے اس پر پندرہ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔‘ اس فیصلے کو ’بمبئی گزٹ‘ کے علاوہ مقامی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ کسی انگریز کو سزا دینا اس زمانے میں بہت حوصلے و ہمت کا اقدام تھا۔

مجسٹریٹ کی آسامی پر چھے ماہ خدمات انجام دینے کے دوران جناح نے متعدد ایسے مقدمات جو مشکوک یا مجسٹریٹ کے دائرۂ کار سے باہر تھے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو غور کرنے کے لیے ارسال کیے، جس پر ہائی کورٹ نے ان کے موقف کو اصولی قرار دیا۔ بمبئی پریزیڈنسی کے قائم مقام مجسٹریٹ کی حیثیت سے خدمات کی انجام دہی کے دوران انہیں بظاہر کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن چند افراد جن میں کچھ وکلاء بھی شامل تھے ان کے اس عہدے پر تقرر کو ناپسند کرتے تھے۔

شاید اس کا ایک سبب جناح کا مسلمان ہونا اور دوسرا سبب دیگر سنیئر وکلاء کی موجودگی میں ان کا بہت جلد اس عہدے پر تقرر بھی تھا۔ ان وکلاء کو عدالتی تقاضوں کے مطابق جناح کی عدالت میں پیشی کے وقت ان تمام آداب کی پابندی کرنا پڑتی تھی جو ایک مجسٹریٹ کے احترام کے لیے لازمی تھے۔

 نومبر 1900 میں جب ممبر لا سر چارلس اولیونٹ نے جناح کو ان کی قانونی ذکاوت و مہارت اور بے باکی کے پیش نظر بحیثیت مجسٹریٹ مستقل نوکری کی پیش کش کی اور کہا کہ اس طرح وہ ہر ماہ پندرہ سو روپے تنخواہ حاصل کرسکیں گے لیکن جناح نے جن کی طبیعت محکمہ جاتی پابندیوں کی عادی نہ تھی اور نہ ہی وہ ملازمت کو پسند کرتے تھے، سرچارلس اولیونٹ کی پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اب وہ ہر روز پندرہ سو روپے کمانے کے لیے وکالت کریں گے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بحیثیت وکیل جناح کی عدالتی اور سیاسی کام یابیوں کا چرچا عام ہونے کے بعد موکلین کا رجوع ان کی طرف بہت بڑھ گیا تھا لیکن وہ اپنی سیاسی مصروفیات کی بنا پر محدود اور منتخب مقدمات اپنے ہاتھ میں لیتے تھے اور ان کی وکالت کی فیس بھی دو تین عشروں میں پندرہ سو روپے روزانہ ہوگئی تھی۔

نومبر1900 میں جناح نے بمبئی کے وسط میں واقع وکٹورین عہد کی ایک لق و دق عمارت میں ذاتی آفس حاصل کر لیا تاکہ باقاعدہ وکالت کا آغاز کرسکیں۔ انھوں نے اس آفس میں عمدہ فرنیچر ڈالا تھا جس کی بنا پر ان کا آفس دیگر وکلاء کے مقابلے میں زیادہ پروقار دکھائی دیتا تھا۔ وکالت کے باقاعدہ آغاز پر وہ کچھ عرصہ معاون وکیل کے طور پر بھی پیش ہوتے رہے۔ پھر ان کو ’مہتہ گروپ آف لائرز‘ کے مقدمات میں پیش ہونے کا موقع ملا جس کی بنا پر ان کی غیرمعمولی معاملہ فہمی اور قانونی لیاقت کا شہرہ بمبئی کے عدالتی حلقوں میں عام ہونے لگا۔

جناح کی سب سے بڑی خوبی جہاں قاعدے اور قوانین کی پابندی تھی وہاں وہ معاوضے کے لالچی نہیں تھے۔ انھوں نے مختلف قسم کے مقدمات کے سلسلے میں اپنا جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا اس سے وہ نہ ایک پیسہ کم اور نہ ایک پیسہ زیادہ لیتے تھے لیکن جہاں انسانی ہم دردی کا سوال آتا وہ سراپا عنایت ہوجاتے۔ ایک مرتبہ ایک موکل نے مقدمہ کی کام یابی کے بعد ان کو کچھ رقم بطور انعام دینا چاہی تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اپنا معاوضہ لے چکا ہوں اب کوئی اضافی رقم لینے کا مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جوکھم اولوا نے اپنی کتاب Leaders of India میں جناح کی عدالتی زندگی کے حوالے سے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے، جن سے ان کے کردار کی بلندی اور ارادے کی استقامت کی نشان دہی ہوتی ہے۔

ہیکٹر بولیتھو نے اپنی کتاب Jinnah: Creator of Pakistan میں لکھا ہے کہ 1903 میں عدالت میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے جہاں عدالتی حلقوں میں ایک نئی مثال قائم کی وہاں جناح کی بے باکی، جرأت اور اصول پسندی کو عام کیا۔ ہوا یوں کہ بمبئی میونسپل کارپوریشن کے صدر جیمزمیکڈانلڈ ایک مقدمے کی کارروائی سننے کے لیے ہائی کورٹ آئے اور وکلاء کے لیے مخصوص کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔

کچھ دیر بعد بحیثیت وکیل جناح کمرۂ عدالت میں آئے تو ان کے بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی خالی نہ تھی۔ انھوں نے جیمز مکیڈانلڈ سے وکلاء کی کرسی خالی کرنے کو کہا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ جناح نے عدالت کے منشی سے کہا کہ وہ کرسی خالی کروائے ورنہ میں جج سے شکایت کرتا ہوں۔ منشی نے جب میکڈانلڈ سے یہ بات کہی تو اس نے کرسی خالی کردی۔ میکڈانلڈ اس صورت حال پر قطعی ناراض نہ ہوا بلکہ اس نے عدالت کے منشی سے جناح کا نام دریافت کیا اور کچھ ہی دنوں کے بعد ان کو ایک ہزار روپے معاوضہ پر بمبئی میونسپل کارپوریشن کا قانونی مشیر مقرر کردیا۔

جناح کی بحیثیت وکیل شہرت خوشبو کی طرح پھیل رہی تھی۔ ان کی مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں انتھک محنت، ذہانت، متاثر کن طریقہ کار، لباس و رویہ میں نفاست، شرافت اور دیانت، قوتِ فیصلہ اور قانون کے وسیع مطالعے کا عدالتی حلقوں میں چرچا عام تھا۔ مقدمات فوجداری کے ہوں یا دیوانی نوعیت کے ہوں، ابتدائی عدالت ہو یا ہائی کورٹ، ہر جگہ ان کی قابلیت اور ذہانت ایک جیسی تھی۔ وہ بغیر کسی مرعوبیت کے ہر مقدمے کی پیروی کرتے اور دورانِ بحث ان کی آواز کا اتار چڑھاؤ اور جملوں کی ساخت ایسی ہوتی تھی کہ وہ عدالت پر حاوی آجاتے۔

معمولی معمولی استدلال سے مجسٹریٹ یا جج کو مقدمات کا فیصلہ اپنے موکل کے حق میں کرنے پر مجبور کردیتے تھے۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بلاوجہ مقدمات اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے تھے۔ پہلے وہ مقدمے کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیتے اور جب یقین ہوجاتا کہ وہ ایک جائز شکایت یا درخواست کی وکالت کر رہے ہیں تب ہی وہ موکل سے مقدمہ کی پیروی کرنے کا وعدہ کیا کرتے تھے۔

 سید شریف الدین پیرزادہ نے لکھا ہے کہ محمد علی جناح نے کچھ عرصہ تک سر جارج لانڈس کے چیمبر میں بھی مطالعہ کیا۔ سر جارج لانڈس بعد میں وائسرائے ہند کی ایگزیکٹیو کونسل میں لا ممبر (وزیر قانون) مقرر ہوا۔ وہ نہایت صاف و شفاف ذہن رکھتا تھا۔ اس کی وکالت کا انداز بہت پُر قوت اور متاثر کن ہوا کرتا تھا۔ اس نے ایک دن جناح سے کانگریسی راہ نما بال گنگادھر تلک کی اخبارات میں شایع ہونے والی حکومت کے خلاف ایک تقریر کے خلاف اپنے ایک مختصر بیان کے بارے میں رائے دریافت کی۔

جناح نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا،’’میں نے آپ کا وہ بیان نہ پڑھا اور نہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں حکومت کے اس فیصلے پر کہ وہ تلک جیسے ایک عظیم محب وطن راہ نما پر مقدمہ قائم کر رہی ہے خود کو تنقید کے لیے آزاد رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ مسٹر لانڈس نے اپنے ایک جونیئر نوجوان وکیل کی صاف گوئی اور برہمی کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔

 تلک کے خلاف حکومت نے جون 1908 میں بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے ان کو گرفتار کرلیا۔ بقول اسٹینلے والپرٹ اس مرحلے پر تلک نے ضمانت کے لیے جناح کی خدمات حاصل کیں اور وہ یکم جولائی 1908 کو بمبئی ہائی کورٹ میں جسٹس داور کے سامنے ضمانت کے لیے پیش ہوئے اور عدالت سے درخواست کی کہ تلک کی عبوری ضمانت منظور کی جائے۔

جناح نے دلیری سے دلائل بھی دیے لیکن اسٹینلے والپرٹ کے بقول تلک کے مقدمے کی سماعت سے قبل ہی برطانوی حکومت نے اپنا ذہن بنا لیا تھا، اس لیے جناح کی کی تمام کوششوں کے باوجود جسٹس داور نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

سید شریف الدین پیرزادہ نے اپنی کتاب Some Aspects of Quaid-I-Azam's Life میں ایک باب Jinnah as a Lawyer میں لکھا ہے کہ جب جسٹس داور نے تلک کو بغاوت کے الزام میں چھے سال قید بامشقت کی سزا سنا دی تو حکومت نے جسٹس داور کو ’سر‘ کے خطاب سے نواز دیا۔ اس سرفرازی کے نتیجے میں بار ایسوسی ایشن آف ہائی کورٹ بمبئی نے جسٹس داور کے لیے ایک تہنیتی عشائیہ کا اہتمام کیا اور ایک گشتی مراسلہ جاری کرکے وکلاء سے کہا کہ جو اس عشائیہ میں شرکت کا خواہش مند ہے اس مراسلہ پر دستخط کر دے۔

جب یہ مراسلہ جناح کے پاس پہنچا تو انھوں نے اس پر سخت تنقیدی نوٹ لکھا۔ جب اس نوٹ کا جسٹس داور کو علم ہوا تو اس نے جناح کو اپنے چیمبر میں بلا کر پوچھا،’آپ نے میرے خلاف اس نوعیت کا نوٹ کیوں لکھا ہے۔‘ جناح نے کہا، ’میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ نوٹ درست لکھا ہے کیوںکہ جس طرح سے آپ نے تلک کے کیس میں یک طرفہ فیصلہ کیا ہے اس سے میرے جذبات کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔‘ 1916 میں جب تلک پر بغاوت کا ایک اور مقدمہ قائم کیا گیا تو جناح اگست 1916 میں اس مقدمے کی پیروی کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ پونا میں پیش ہوئے۔ جناح کے دلائل کے بعد تلک کے خلاف مقدمہ خارج کردیا گیا۔

جوکھم اولوا نے Leaders of India میں کئی ایسے واقعات درج کیے ہیں جو جناح کے کردار کی بلندی اور ارادے کی پختگی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ جناح ایک جرأت مند، قابل اور صاف گو وکیل کے طور پر اتنے معروف ہوئے کہ وہ جب مقدمے کی پیروی کے لیے کمرۂ عدالت میں آتے تو وکلاء اور عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے سے جناح کی جرح کو سننے کے لیے وہاں موجود ہوتی۔ سید شریف الدین پیرزادہ نے لکھا ہے کہ پیر پگارا کی سزا کے خلاف کراچی میں ایک ڈویژن بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ یہ بینچ جسٹس اے سی وائلڈ اور جسٹس آر بی مائلنی پر مشتمل تھا۔

ایک نکتے پر جسٹس مائلنی نے جناح سے کہا کہ ’’وہ ذرا زور سے بولیں کیوںکہ وہ ان کی آواز سن نہیں پا رہے ہیں۔‘‘ جناح نے جواباً کہا،’’میں بیرسٹر ہوں اداکار نہیں۔‘‘ جج خاموش رہا لیکن اس نے جرح کے درمیان پھر جناح سے کہا،’’مسٹر جناح میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ آپ زور سے بولیں‘‘ اس مرتبہ جناح نے جواباً کہا،’’اگر آپ اپنے سامنے رکھی ہوئی کتابوں کا انبار ہٹا دیں تو شاید آپ مجھ کو بہتر طور پر سن سکیں گے۔‘‘ پیرزادہ نے لکھا ہے کہ 1941 میں جناح ایک کاروباری تنازعہ میں سندھ چیف کورٹ میں پیروی کے لیے پہنچے تو وہاں کمرۂ عدالت اور برآمدوں میں ہزاروں افراد ان کو دیکھنے اور سننے کے لیے جمع تھے۔

جب چیف جسٹس مسٹر ڈیوس اور جسٹس مسٹر ویسٹن پہنچے تو اس قدر ہجوم کو دیکھ کر جسٹس ڈیوس نے عدالت کے کلرک سے کہا کہ کمرۂ عدالت کے دروازے بند کردیے جائیں۔ جسٹس ڈیوس کی اس ہدایت پر جناح اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور انھوں نے مسکراتے ہوئے جسٹس ڈیوس سے کہا،’’انصاف کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنا چاہییں۔‘‘ جسٹس ڈیوس نے جناح کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بہرحال کمرۂ عدالت میں خاموشی رہنی چاہیے۔ جناح نے جواباً کہا ’’یقیناً‘‘ اور مقدمے کی سماعت پُرسکون ماحول میں شروع ہوگئی۔

رضوان احمد نے لکھا ہے کہ قائداعظم جھوٹے مقدمے اپنے ہاتھ میں لینا پسند نہیں کرتے تھے خواہ اس کے عوض ان کو کتنی ہی رقم کیوں نہ پیش کی جاتی۔ ایک مرتبہ پنجاب کی ریاست کے ایک حکم راں نے اپنے مقدمے کے کاغذات قائداعظم کو ایک لاکھ روپے فیس کے ساتھ پیش کیے اور خواہش ظاہر کی کہ آپ اس مقدمے کی پیروی کریں مگر جناح نے مقدمے کی نوعیت کا مطالعہ کرنے کے بعد کاغذات فیس کے ساتھ واپس کر دیے کیوںکہ ان کی نظر میں یہ مقدمہ سچا نہیں تھا۔

اسی طرح ایک مرتبہ اخبار ’’ریاست‘‘ نے ایک مسلم ریاست کے خلاف ایک مضمون شائع کیا جس کے نتیجے میں ریاست کی جانب سے اخبار کے ایڈیٹر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا گیا پیروی کے لیے قائداعظم سے درخواست کی گئی اور اس سلسلے میں ایک گراں قدر رقم بطور فیس قائداعظم کو پیش کی گئی مگر انہوں نے اس فیس کو ٹھکرادیا اور کہا کہ میں ہندوستان کے پریس کی آواز کو دبانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں تو پریس کی آزادی کے لیے لڑتا رہا ہوں۔

قائداعظم کی ایمان داری نے ان کے اندر اس قدر جرأت اور اعتماد پیدا کردیا تھا کہ بعض اوقات دورانِ جرح وہ ہائی کورٹ کے ججوں کو ٹوک دیتے تھے۔ پیرزادہ نے لکھا ہے کہ بمبئی کے ایک وکیل لیھی ولا نے اپنے ایک مضمون میں جسٹس کانیا کے ساتھ جناح کے ٹکراؤ اور تصادم کے واقعات درج کیے ہیں۔

ایک موقع پر جب جناح ایک مقدمے کے سلسلے میں جسٹس کانیا کے سامنے پرجوش انداز میں دلائل دے رہے تھے جسٹس کانیا نے جناح کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ شاید آپ سرکاری وکیل کے معروضات پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ جسٹس کانیا کی اس مداخلت پر جناح بھڑک اٹھے اور انھوں نے جسٹس کانیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’عزت مآب یہ آپ کا کام نہیں ہے کہ آپ وکیل کو یہ باور کرائیں کہ وہ سرکاری وکیل کے نکات کو سمجھے یا ان نکات کے مطابق دلائل پیش کرے۔‘‘ کچھ عرصے کے بعد ایک ہندو تاجر اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے جناح کے پاس آیا اور اصرار کیا کہ آپ میرے مقدمے میں عدالت عالیہ کے سامنے پیش ہوں۔

جناح نے اس سے دریافت کیا کہ مقدمہ کس کی عدالت میں ہے۔ اس نے بتایا جسٹس کانیا کی عدالت میں ہے۔ جناح نے اس سے کہا کہ تم کوئی اور وکیل کرلو کیوںکہ جسٹس کانیا سے میرے تعلقات اچھے نہیں ہیں اس لیے مقدمہ کا فیصلہ یقیناً تمہارے خلاف ہوگا۔ ہندو تاجر نے کہا کہ کوئی بات نہیں چناںچہ جناح اس کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور مقدمہ کا فیصلہ موکل کے خلاف ہوگیا۔

جناح نے عدالت میں موجود اپنے موکل سے کہا کہ ’’میں نے تم سے منع کیا تھا کہ اس بدبخت عدالت میں مجھے مت لے جاؤ مگر تم نہیں مانے اب نتیجہ سامنے ہے۔‘‘ اتفاق سے جسٹس کانیا نے جناح کے یہ الفاظ سن لیے اور جناح سے پوچھا کہ ابھی تم نے اپنے موکل سے کچھ کہا تھا۔ جناح نے جسٹس کانیا سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو اس گفتگو سے دل چسپی ہے جو ایک وکیل اپنے موکل سے کرتا ہے۔ جسٹس کانیا نے اثبات میں جواب دیا تو جناح نے وہی الفاظ دہرا دیے۔ جسٹس کانیا نے فوری طور پر ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا ان الفاظ سے عدالت کی توہین ہوتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے جواب دینے سے پہلے ہی جناح عدالت سے باہر آگئے۔

 26؍ جولائی 1943 کو جب محمد علی جناح مسلمانوں کے قائداعظم کے طور پر تحریک پاکستان کی قیادت کر رہے تھے کہ بمبئی میں ایک خاکسار نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ قائد کے معمولی زخم آئے اور حملہ آور کو پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو جناح کے ایک وکیل دوست مسٹر سوم جی مقدمہ میں سرکاری وکیل تھے۔

سوم جی نے مقدمہ کے حوالے سے جناح سے ان کے گھر آ کر بات کرنا چاہی تو انھوں نے کہا کہ مقدمہ کے حوالے سے تمام باتیں عدالت میں ہوں گی۔ سیدشریف الدین پیرزادہ نے ایک ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا کہ اسی مقدمے کی جب بمبئی ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو جناح کے احترام میں مقدمے کی سماعت کرنے والے جسٹس بلیک ڈین چاہتے تھے کہ جناح عدالت میں اس دروازے سے آئیں جہاں سے وکلاء اور جج آتے ہیں لیکن جناح نے کہا کہ میں ایک گواہ کی حیثیت سے عدالت میں آ رہا ہوں اس لیے اسی دروازے سے عدالت میں آؤں گا جس سے عام گواہ آتے ہیں۔ بقول پیرزادہ اس صورت حال کو دیکھ کر جسٹس بلیک ڈین نے کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں قانون کا ایسا پاس دار اور سچا گواہ نہیں دیکھا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے رپورٹڈ مقدمات کی تعداد تقریباً 170 ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ بہت سے مقدمات میں پیروی کے لیے عدالت میں پیش ہوئے۔ بڑے مقدمات جن کی اخبارات میں تشہیر ہوئی وہ بھی بہت ہیں لیکن ان کی تفصیلات میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں، مثلاً غازی علم الدین کے مقدمے کی تفصیلات مختلف کتابوں میں موجود ہیں۔

ایک معروف وکیل ظہیر احمد میر کی ایک ضخیم کتاب قائداعظم کے مقدمات کے بارے میں The Genius Jurist کے عنوان سے شایع ہوئی ہے جو بہت اہم ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ریاض احمد کی کتابQuaid-i-Azam: As an Advocate بھی قابل ذکر ہے۔ اس کتاب سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ قائداعظم جہاں ایک بہت عظیم سیاست داں تھے وہاں وہ ایک ایسے قانون داں بھی تھے جن کا متحدہ ہندوستان میں کوئی ثانی نہیں تھا۔

بقول سید شریف الدین پیرزادہ ’’آزادی کے لیے جناح کی جدوجہد جہاں یاد رکھی جائے گی وہاں عدالتوں میں ان کے اندازِوکالت کو بھی کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ داں وکیل تھے اور مقدمات میں کام یابی ان کی ذات سے مشروط ہوگئی تھی۔ وہ نہایت ایمان دار، ناانصافی سے دور اور بے مثال دلائل سے لیس تھے۔ ان کے ہم عصر وکلاء ان جیسا بننے کی آرزو و حسرت رکھتے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں