شام میں عبوری حکومت کے کمانڈر انچیف نے کہا ہے کہ ہر قسم کا اسلحہ ریاست کے کنٹرول میں رہے گا، جلد ہی شام کے مسلح دھڑے خود کو تحلیل کرکے شامی فوج میں داخل ہونے کا اعلان شروع کردیں گے۔
دوسری جانب اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کا سلسلہ جاری ہے مزید 58 فلسطینی شہید کر دیے گئے۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے ایک ہی خاندان کے سات بچوں کو بمباری کر کے قتل کرنے کی اسرائیلی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری جنگ نہیں ظلم ہے۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کی جنرل کمان نے شام میں برسر پیکار مسلح دھڑوں کو غیر مسلح کرنے اور ان کی شامی فوج میں شمولیت کا اعلان کیا ہے، اس طرح کسی بھی قسم کی خانہ جنگی کے خطرات سے نمٹا جاسکے گا۔ البتہ عبوری سیٹ اپ نے چند روز بیشتر اس بات کا عندیہ بھی دیا تھا کہ تشدد میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
شام میں قیام امن کا بہت حد تک انحصار اس پر ہوگا کہ یہ کارروائی کس طرح کی ہوگی، کیونکہ انتقامی کارروائی کا سلسلہ اگر ایک بار شروع ہوگیا تو پھر شام میں امن قائم نہیں ہو پائے گا، وہاں خانہ جنگی کے نئے باب کا آغاز ہو جائے گا، اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ جو باغی افواج ہیں، دوسرے شامی عوام ہیں، وہ صبر و تحمل سے کام لیں۔ پچھلی رجیم سے جڑے لوگوں اور دوسری تنصیبات سے منفی رویہ نہ اپنائیں۔ توڑ پھوڑ اور انتقامی کارروائی سے گریز کریں۔ وہ شکایتیں جو انھیں اسد رجیم سے رہی ہیں، ان کا اعادہ نہ کریں اور اس صورتحال سے شامیوں کو نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
بشار الاسد شام چھوڑ کر روس چلے گئے ہیں۔ حافظ الاسد کے زمانے سے ہی شام کے روس سے مستحکم تعلقات رہے ہیں۔ ایران سے بھی شام کے تعلقات بہتر رہے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ ایران سے بغیر کوئی مدد مانگے بشارالاسد نے روس کی طرف کوچ کیا اور وہاں پناہ لی۔ اب ایران، ترکیہ اور سعودی عرب کو مل کر ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا جس سے اسرائیل گولان پہاڑیوں کو نشانہ نہ بنا سکے، اس کا اثر و رسوخ کم ہو۔ اس میں عرب لیگ اور خلیجی تعاون کونسل کو اہم اور کلیدی رول ادا کرنا ہوگا۔
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد پوری دنیا کی نظریں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ آنے والے دنوں میں شام میں اقتدار کی تصویرکیا ہوگی۔ شام میں نئی حکومت کیسے قائم ہوگی کیونکہ اسد حکومت کو گرانے والے باغی جنگجوؤں سمیت مختلف گروپ اقتدار میں زیادہ حصہ داری کا دعویٰ کریں گے؟ ان میں سے متعدد گروہ ہیں جو مختلف نظریات کے حامل ہیں اور وہ ملک کو اپنے نظریے کے مطابق چلانے پر اصرار کریں گے۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نئی حکومت کی طرز حکمرانی اور پالیسیوں کے حوالے سے ان سب میں اتفاق رائے ہو۔
جہاں تک شام کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سلامتی کا تعلق ہے ترکیہ، ایران، سعودی عرب، روس اور اقوام متحدہ کی طرف سے شام کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے، البتہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات جن میں دمشق اور مشرقی شام کے علاقوں پر بمباری اور گولان کی مقبوضہ سطح مرتفع کے ساتھ واقع بفرزون میں اسرائیلی قبضہ شامل ہے، یوں شام کی نہ صرف آزادی بلکہ علاقائی سلامتی اور اندرونی استحکام کے لیے شدید خطرات ہیں۔
اس کے ساتھ امریکی سینٹرل کمانڈ کی طرف سے دمشق میں مبینہ طور پر داعش کے ٹھکانوں پر 75 فضائی حملے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔ داعش کی آڑ میں شام کے خلاف اسرائیل اور امریکی فوجی اقدامات کا مقصد شام کے سیاسی حالات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ شام تین کروڑ سے بھی کم آبادی اور تیل کی دولت سے محروم عرب دنیا کا ایک چھوٹا اور محدود آمدنی والا ملک ہے مگر اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب اسرائیل تنازع میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
امریکا کے سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ مشرق وسطیٰ میں مصرکے بغیر جنگ نہیں ہو سکتی اور شام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا‘‘ کیونکہ پوری عرب دنیا میں مصر سب سے زیادہ آبادی اور عسکری طاقت والا ملک ہے، لیکن شام نے عالم عرب کو انٹلیکچوئل لیڈر شپ فراہم کی ہے، جس کی سب سے نمایاں مثال عرب بعث پارٹی (1947ء) کا قیام ہے۔
سابق صدر بشار الاسد اور عراق کے صدر صدام حسین کی حکومتوں کا تعلق اسی پارٹی سے تھا جس نے عالم عرب میں ایک عرصے تک سیکولر سوشلسٹ، عرب قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر رکھا تھا۔ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس میں شام کے کردار کی بنیاد بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کی اس پٹی پر واقع ہونا ہے۔ بحیرہ روم ترکیہ کے جنوبی حصے سے شروع ہو کر لبنان، شام، فلسطین، مصر، لیبیا اور تیونس سے گزرتا ہوا الجزائر اور مراکش تک یورپ کے دفاع کے لیے مشرقی ڈھال کا کام کرتا ہے اور بحر اوقیانوس امریکا اورکینیڈا کی دفاعی حکمت عملی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے امریکا کی عالمی دفاعی حکمت عملی میں مشرق وسطیٰ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ملک شام اسی حکمت عملی کی ایک کڑی ہے۔
شام کی ایک اور خاصیت (خوش قسمتی یا بدقسمتی) یہ ہے کہ اس کی سرحدیں پانچ اہم ممالک یعنی ترکیہ، عراق، لبنان، اردن اور اسرائیل سے ملتی ہیں۔ اس جغرافیائی محل وقوع کے نتیجے میں شام کے اندرونی اور بیرونی معاملات ان سب ملکوں کی دلچسپی کا باعث بن کر شام میں مداخلت کا جواز بن جاتے ہیں۔ اس وقت اسرائیل نے شام کے علاقے سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر کے اسے اپنا حصہ بنا لیا ہے، اس کے مشرقی حصے میں امریکی افواج موجود ہیں جب کہ ترکیہ کے ساتھ اس کے سرحد ی علاقے کے ایک وسیع حصے پر ترک افواج موجود ہیں۔ اس طرح نہ صرف شام کی آزادی اور خود مختاری بلکہ علاقائی سالمیت کو بھی خطرہ ہے۔
نئی حکومت کو حالات معمول پر لانے میں نہ صرف محنت کرنا پڑے گی بلکہ خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اس میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس طویل خانہ جنگی میں تین لاکھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور 56 لاکھ شامی باشندوں کو ہمسایہ ملک میں پناہ لینا پڑی ہے۔ ملک کے انفرا اسٹرکچر، شہروں کی عمارتوں، سڑکوں، پلوں اور سرکاری عمارتوں کی تباہی سے جو نقصان پہنچا وہ اس کے علاوہ ہے۔ شام اپنے وسائل سے ان نقصانات کی تلافی نہیں کر سکتا، اسے بین الاقوامی امداد پر انحصار کرنا پڑے گا۔
سابق صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے اور حیات التحریر الشام کے دمشق پر قابض ہونے سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا ہے مگرکیا یہ امن مستقل طور پر برقرار رہے گا؟ اس سلسلے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ سابق حکومت کی اپوزیشن میں متعدد مسلح گروپ شامل ہیں۔ اس لیے شام میں امن کا بہت حد تک انحصار حیات التحریر کے رہنما ابو محمد الجولانی پر ہوگا کہ وہ کس حد تک دیگر گروپوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
انھوں نے اعلان کیا ہے کہ انتخابات ہوں گے مگر انتخابات کے لیے پُرامن اور محفوظ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروپوں کو نیا آئین بھی تشکیل دینا پڑے گا جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ شام میں کون سا طرزِ حکومت (پارلیمانی، صدارتی یا ملا جلا) رائج کیا جائے گا۔ اس کے لیے نہ صرف وقت بلکہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے مصالحتی جذبہ اور طرزِ عمل بھی درکار ہوگا۔ شام میں امن، استحکام اور تعمیر نو کا انحصار اس کے ہمسایہ ممالک کے علاوہ ایران، سعودی عرب، روس، امریکا اور اسرائیل کے رویے پر بھی ہوگا۔
ادھر سات اکتوبر کو حماس کے حملے کی آڑ میں اسرائیل اب تک 45ہزار فلسطینی مسلمانوں کا بے دردی سے قتلِ عام کیے جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
پاکستان روز اول سے اسرائیل کے قیام کو فلسطین پر قابض قوت سمجھتا ہے اور فلسطین کی مکمل آزادی کے مؤقف کے ساتھ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر آزادی کے ساتھ رہنے کا پورا حق ہے۔