کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹنٹ جنرل راحت نسیم خان کے ساتھ کوئٹہ میں ملاقات ہوئی۔ وہ کوئٹہ میں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات کے ساتھ سوال و جواب کی ایک نشست میں شریک تھے۔ کوئٹہ کا زہری آڈیٹوریم شرکاء سے مکمل بھرا ہو اتھا۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیو ں کے طلبا و طلابات موجود تھے۔
مجھے سوال و جواب کی نشست اپنے ایک پروگرام کے لیے شوٹ کرنی تھی۔ بلوچستان میں یونیورسٹیز کے طلباو طالبات اور کور کمانڈر ر کے درمیان مکالمہ میری لیے کافی دلچسپی کا موضوع تھا۔ کیا سوالات ہوں گے اور کور کمانڈر لیفٹنٹ جنرل راحت نسیم احمد خان ان سوالات کا کیسے جواب دیتے ہیں؟ یہ دلچسپ پہلو تھا۔
بلوچستان میں دہشت گردی ہے، حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ بلوچ نوجوان بھی ناراض ہیں ۔ سوال و جواب کی نشست سے قبل لیفٹنٹ جنرل راحت نسیم احمد خان نے مجھے بتاتا کہ پاک فوج میں اب تمام کمانڈنگ افسران کو کہا گیا ہے کہ وہ مختلف یونیورسٹیوں میں جائیں۔ وہاں پڑھے لکھے نوجوانوں سے بات کریں اور ان کے ذہن میں جو بھی باتیں ہیں، ان کا جواب دیں۔ اسی سلسلے میں کور کمانڈر کوئٹہ بلوچستان میں مختلف یونیورسٹیزمیں طلبا سے نہ صرف مل رہے ہیں۔ بلکہ ان کے سوالات کے جوابات بھی دے رہے ہیں۔
بلوچستان کی پڑھی لکھی لڑکیوں میں خود کش بمباربننے کے ایک دو واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس ضمن میں جب طالبات نے سوال کیے تو ہوشربا حقائق سامنے آئے کور کمانڈر نے طالبہ و طالبات کو کھل کر حقائق بھی بتائے اور اس ضمن میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، ان کے بارے میں بھی بتایا کہ کس طرح دہشت گرد تنظیمیں بچیوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہیں۔پھر ان انھیں خود کش بمبار بننے پر مجبور کردیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چوائس نہیں رہتی ۔ ایسے ایک واقعہ میں ایک اعلیٰ افسر کی بہن کو پکڑا گیا تو دوران تفتیش اس نے بھی ایسی ہی کہانی بتائی ہے،اب وہ اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہے۔
اس پر ایک لڑکی نے کور کمانڈر سے سوال کیا کہ اگر کوئی لڑکی ان تنظیموں کے ٹریپ میں پھنس جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس سوال کے جواب میں کو رکمانڈر نے کہا کہ ایسی صورت میں فورا ہم سے رابطہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کئی لڑکیوں کہ نہ صرف زندگی بچائی ہے بلکہ ان کی شناخت بھی بچائی ہے ۔ انھیں محفوظ بھی کیا ہے۔ ان کے گھر والوں کو بھی محفوظ کیا ہے۔ ایسی صورت میں فورا ریاست سے مدد لینی چاہیے۔
ملک میں احتجاج کی اجازت کے حوالے سے سوال کے جواب میں کور کمانڈر نے مدلل موقف اختیار کیا اور واضع کیا کہ ملک میں آئین وقانون کے دائرے میں پر امن احتجاج کی مکمل اجازت ہے، البتہ آئین سے ماورا اور پر تشدد احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا، آپ بلوچستا ن میں ماما قدیر کو دیکھیں وہ کتنے عرصہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کو تو کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔ لیکن بندوق کے زور پر احتجاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
آپ پر تشدد کاروائیوں کو احتجاج نہیں کہہ سکتے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ آپ کی رائے میری رائے سے مختلف ہو سکتی ہے، آپ کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن ہماری پاکستان سے محبت یکساں ہے۔
ایک نوجوان نے تجویز دی کہ فوج اور نوجوانوں کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے مسلسل رابطوں اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تا کہ دونوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کا موقع مل سکے۔ جس پر کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹنٹ جنرل راحت نسیم نے کہا کہ اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے ہی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تمام کمانڈنگ افسران کو نوجوانوں سے ڈائیلاگ کرنے اور بات چیت کرنے کی ہدایت کی ہے اور میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں ۔ آپ مجھ سے سوال کر رہے ہیں اور میں جواب دے رہا ہوں۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ہمارے نوجوان سوشل میڈیا سے گمراہ ہو رہے ہیں۔ فیک نیوز اور فیک بیانیہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو کسی بھی چیز پر یقین کرنے سے پہلے اس کی مکمل تحقیق کرنی چاہیے۔ فیک نیوز ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جھوٹے پراپیگنڈے نے ملک کو بہت نقصان پہنچایاہے۔ اس موقع پر کور کمانڈر کوئٹہ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا تعلق میڈیا سے ہے۔ آپ فیک نیوز کے مسائل کا حل بتائیں۔
یہ کہہ کر انھوں نے مجھے طلبہ کی عدالت میں کھڑ اکر دیا تھا۔ اس سے پہلے میں طلبہ کے سخت سوالات اور کور کمانڈر کے درمیان مکالمہ کو انجوائے کر رہا تھا ۔ بہر حال میری رائے میں فیک نیوز پاکستان کا ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں جھوٹی خبر دینا کوئی جرم نہیں۔ پاکستان کی عدالتوں نے آج تک جھوٹی خبر پر کسی کو کوئی سزا نہیں دی ہے۔ دنیا میں ہتک عزت کے مقدمات پر مثالی سزائیں دی گئی ہیں۔ پاکستان کی عدالتوں کی کارکردگی اس حوالے سے ٹھیک نہیں ہے۔ فیک نیوز ختم کرنا حکومت یا فوج کا اختیار یا ذمے داری نہیں ہے۔ یہ کام عدالتوں اور نظام انصاف نے کرنا ہے۔ دنیا بھر میں یہ کام عدالتوں نے ہی کیا ہے اور کررہی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کو عدلیہ کے فیصلوں سے ہی روکا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں کرپشن کے حوالے سے سوالات کے جواب میں کور کمانڈر نے تسلیم کیا کہ کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہ آپ سڑک کو دیکھیں۔ اگر سڑک بننے میں بیس فیصد کرپشن ہوتی ہے تو اس کا اثر اسی فیصد ہوگا۔ کیونکہ سڑک بری بنے گی اور لوگ متاثر ہوںگے۔ اس طرح بیس فیصد کرپشن کا معاشرے پر اثر اسی فیصد سے زائد ہوتا ہے۔ یہ اہم مسئلہ ہے لیکن اس پر سول حکومت نے قابوپانا ہے۔ ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
کور کمانڈر کوئٹہ نے طلبہ و طالبات سے کہا کہ یہ بات بھی سامنے رکھیں کہ پنجاب، سندھ اور کے پی کے مقابلے میں بلوچستان کا بطور صوبہ قیام 1971میں ہوا۔ یوں بلوچستان نے بطور گورننگ یونٹ باقی صوبوں کے مقابلے میں 130سال بعد سفر شروع کیا ہے۔ یہ ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ یہاں گورننس بہتر کرنے میں وقت لگ رہا ہے۔لیکن بلوچستان کی رفتار اگر دیکھی جائے تو باقی صوبوں کے مقابلے میں تیز ہے۔ آج یہاں فی بچے کے حساب سے اسکولوں کی تعداد زیادہ ہے۔ پنجاب میں 2500بچوں کے لیے ایک اسکول ہے۔ بلوچستان میں 900بچوں کے لیے ایک اسکول ہے۔ ہم نے زیادہ تعلیمی ادارے بنا لیے ہیں، اب مسئلہ ان اسکولوں کو چلانے میں آرہا ہے۔
مختلف سوالوں کے جواب میں کور کمانڈر نے واضع کیا کہ بلوچستان میں کوئی غدار نہیں ہے۔ جیسے باقی صوبوں میں لوگ محب وطن ہیں، ایسے ہی بلوچستان بھی محب وطن ہیں۔لوگ سوال کرتے ہیں، کس سے ڈائیلاگ ہو سکتا ہے، کس سے نہیں۔ میں بطو ر فوجی ڈائیلاگ کے حق میں ہوں۔ لیکن بات صرف اس سے ہو سکتی ہے جو پاکستان کے آئین کو مانتا ہے۔ بات چیت آئین کے اندر ہو سکتی ہے۔ باقی جب کوئی غدار نہیں تو سوچ کا اختلاف ہے، سوچ کے اختلاف پر ڈائیلاگ بہترین حل ہے۔