لتا منگیشکر کی’ ڈپلیکیٹ‘۔۔۔۔ جن کے گائے ہوئےگیت لتا کے گیتوں کے طور پر جانے جاتے ہیں

ان کی آواز ہو بہو لتا منگیشکر کی آواز جیسی تھی، فلم سازوں کو ان کی شکل میں لتا کا نعم البدل میسرآگیا تھا

 

'' زندگی امتحان لیتی ہے، لوگوں کی جان لیتی ہے'' ، ہندی فلم ''نصیب '' کا یہ گیت برصغیر میں بے حد مقبول ہوا تھا۔ یہ نغمہ اس وقت کے صف اول کے اداکاروں امیتابھ بچن، شتروگھن سنہا اور رینا رائے پر فلمایا گیا تھا۔ امیتابھ بچن اور شتروگھن کے بول بالترتیب انور اور ڈاکٹر کملیش اوستھی نے گائے تھے جب کہ رینا رائے کے سرخ لبوں سے لتا منگیشکر۔۔۔۔۔ جی نہیں سمن کلیانپور کی آواز ادا ہورہی تھی۔

اس زمانے کی طرح آج بھی پرانی ہندی فلموں کے دل دادگان کی کثیرتعداد سمجھتی ہے کہ اس گیت میں انور اور ڈاکٹر کملیش کی ساتھی گلوکارہ لتا منگیشکر تھیں۔ اس مغالطے کا سبب یہ ہے کہ سمن کلیانپور کی آوازلتا منگیشکرکے لب و لہجے سے اس قدر مشابہ ہے کہ تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

سمن نے جب فلم نگری میں قدم رکھا تو اس وقت جہان موسیقی پر لتا منگیشکر کا طوطی بول رہا تھا۔ برصغیر میں شائقین فلم و موسیقی ان کی آواز کے سحر میں مبتلا تھے۔ ہر چند کہ سمن نے فلم نگری میں سخت محنت سے اپنا مقام اور شناخت بنانے کی کوشش کی مگر بدقسمتی سے ان پر لتا منگیشکر کی 'ڈپلیکیٹ' کی چھاپ لگ گئی۔ جو فلم ساز کسی بھی سبب سے لتا منگیشکر کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو پھر اس کا انتخاب سمن کلیانپور ہوتی تھیں۔ اگرچہ یہ بھی اس امر کا اعتراف تھا کہ سُر بکھیرنے میں سمن کسی بھی طرح لتامنگیشکر سے کم نہیں۔

ان کی پیشہ وارانہ زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب انھیں شہرۂ آفاق گلوکار محمد رفیع کے ساتھ فلم ''مس بومبے'' میں ایک دوگانہ گانے کا موقع ملا۔ اس گیت کے بول تھے،''دن ہو یا رات، ہم رہیں تیرے ساتھ۔'' یہ گیت عوام الناس میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ تاہم لتا منگیشکر کی آواز سے حیران کُن مشابہت کے باعث لوگوں نے اسے لتا جی ہی کی آواز سمجھا۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد سمن کلیانپور پر فلم نگری کے دَر وا ہوگئے۔

انھیں تسلسل کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانے کے مواقع ملنے لگے۔ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ اس وقت فلمی موسیقی پر لتا اور ان کی بہن آشا کا راج تھا۔ یہ وہ دور تھا جسے ہندی فلمی موسیقی کا سنہری دور کہا جاتا تھا۔ ہر فلم ساز اپنی فلم میں لتا کی آواز شامل کرنے کا خواہش مند ہوتا تھا۔ تاہم بے پناہ مصروفیت کے سبب لتا منگیشکر کے لیے ہر فلم ساز کی خواہش پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ دوسری جانب اپنی مقبولیت اور مانگ کی مناسبت سے ان کا معاوضہ بھی زیادہ (ایک سو روپیہ فی گیت) تھا۔ وقت کی کمیابی یا زائد معاوضے کی وجہ سے کئی فلم ساز لتاجی کی آواز میں گیت ریکارڈ کروانے سے محروم رہ جاتے تھے۔ انھیں سمن کلیانپور کی شکل میں لتاجی کا زبردست متبادل میسر آگیا۔ چنانچہ فلمی دنیا میں سمن کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

اسی دوران ہندوستانی فلمی دنیا کی مقبول ترین گلوکار جوڑی لتا اور محمد رفیع کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ لتا گیتوں کی رائلٹی لینے کے خواہش مند تھیں مگر محمد رفیع نے اس معاملے پر ان کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ لتا محمدرفیع سے ناراض ہوگئیں اور ان کے ہمراہ گیت ریکارڈ کروانے سے انکار کردیا۔ ناراضی کا یہ عرصہ دو سال پر محیط رہا۔ اس دوران سمن کلیانپور فلم سازوں کی منظور نظر بنی رہیں اور انھوں نے متعدد فلموں میں درجنوں گیت گائے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ شائقین سمن کی آواز کو لتا کی آواز سمجھتے تھے اور درحقیقت فلم ساز بھی یہی چاہتے تھے۔ اسی لیے اگر کوئی سوال کرتا کہ کیا فلم کے گیت لتا نے گائے ہیں تو بیشتر فلم ساز اور ہدایت کار اس کی تردید نہیں کرتے تھے۔

لتا اور محمد رفیع کی ناراضی سمن کلیانپور کے لیے یوں نعمت ثابت ہوئی کہ اس دوران محمد رفیع کے ساتھ ان کے کئی یادگار گیت سامنے آئے مثلاً ''آج کل تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر'' ( فلم: برہمچاری)،''اج ہُن نہ آئے بالما ساون بیتا جائے'' ( فلم: سانجھ اور سویرا)، ''تم سے او حسینہ محبت نہ میں نے کرنی تھی'' (فلم: فرض)، ''ٹھہریے ہوش میں آلوں تو چلے جائیے گا'' (فلم: محبت اس کو کہتے ہیں ) اور دوسرے متعدد گیت شامل ہیں۔ سمن کلیانپور نے مجموعی طور پر محمد رفیع کے ساتھ 140 گیت ریکارڈ کرائے۔

حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران جب سمن کلیانپور سے لتا منگیشکر کے ساتھ ان کی آواز کی حیرت انگیز مشابہت اور ان کے گائے ہوئے گیتوں کو لتا کے گیت سمجھے جانے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا،''میں ان سے بہت متأثر تھی۔ کالج کے زمانے میں ان کے گیت گایا کرتی تھی۔ میری آواز نازک اور پتلی تھی مگر میں کر بھی کیا سکتی تھی۔ ریڈیو سیلون سے جب گیت نشر ہوتے تھے تو نام نہیں لیے جاتے تھے۔ اس وجہ سے بھی میرے گیتوں پر لتا منگیشکر کی چھاپ لگ گئی۔ اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے اس وقت کوئی ایسے ذرائع بھی نہیں تھے۔ وہ زمانہ مختلف تھا۔ آج بھلا یہ ممکن ہے کہ کسی کے گائے ہوئے گیت دوسرے کے نام سے نشر ہونے لگیں؟''

سمن کو فلمی موسیقی سے ناتا توڑے کئی برس ہوگئے ہیں۔ اب وہ ممبئی میں واقع اپنے گھر میں مصوری اور کوکنگ سے دل بہلاتی ہیں۔

Load Next Story