کرنٹ سے بچے کی ہلاکت، والد کا کے الیکٹرک پر 48 لاکھ جرمانہ الخدمت کو دینے کا اعلان

آٹھ سالہ اذہان بارشوں میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا تھا،عدالت نے کے الیکٹرک کو 48 لاکھ ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے

فوٹو: ایکسپریس نیوز

کراچی:

کراچی میں بجلی کے کھمبے سے کرنٹ لگنے سے جان کی بازی ہارنےوالے کمسن اذہان کے والدین کو 6 سال بعد انصاف مل گیا، والد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہرجانے میں ملنے والی رقم جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت کو عطیہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے منفرد روایت قائم کردی۔ آٹھ سالہ مرحوم اذہان کے والد نے تمام مظلومین کو پیغام دیا ہے کہ وہ ظلم و ظالم کے خلاف ہتھیار ڈالنے یا گھبرانے کے بجائے آخری حد تک جنگ لڑیں۔  

تفصیلات کے مطابق کراچی ماڈل کالونی میں 2017 کی 23 اگست کو تیز بارشوں کے دوران کرنٹ والے پول نے آٹھ سالہ معصوم بچے اذہان کی جان لے لی تھی۔ اذہان کے والد خلیق الدین صدیقی نے کراچی کی مقامی عدالت میں دو کیسز دائر کیے تھے، 2018 والے کیس میں منگل 24 دسمبر کو 6 سال بعد کمسن بچے کو انصاف مل گیا، عدالت نے کے الیکٹرک حکام کو جرمانے کے طور پر لواحقین کو ہرجانہ ادا کرنے پر پابند کردیا ہے۔

جج عنبرین جمال کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں کے الیکٹرک کو حکم دیا گیا ہے کہ لواحقین کو 48 لاکھ 19 ہزار روپے کا ہرجانہ ادا کیا جائے، ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے دلائل میں کہا کہ 2017 میں بارش میں کمسن اذہان جان کی بازی ہار گیا تھا، جس پر کے الیکٹرک کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا۔

گلشن عثمان میں مقیم اذہان کے والد خلیق الدین صدیقی نے اپنے گھر میں ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 21 سال سے دبئی میں رہائش پذیر تھا، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی وہیں تھا، 2017 میں عید منانے کیلئے ماڈل کالونی میں اپنے والدین کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہ رہے تھے، بچوں کو پاکستان میں عید منانے کا شوق تھا بکرا عید منانے کیلیے خاص آئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اگست کی تیز بارشوں میں اذہان کو پول سے کرنٹ لگ گیا، تقریباً عید سے دس دن قبل ہی میرا بچہ دنیا سے چلا گیا۔ حادثہ سے کچھ دن قبل دبئی چلا گیا تھا، اس واقعے کے دو کیسز کیے تھے 2018 میں معاوضے کا کیا جو کہ جیت گیا واقعے کو تقریباً ساڑھے سات سال بیت گئے ۔

 والد نے کہا بہت خوش ہوں کہ عدلیہ نے انصاف کیا میں چاہتا ہوں، یہ اعلان مجھے تحریری صورت میں بھی دیا جائے، والد خلیق الدین نے کہا دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اذہان دوسرے نمبر پر تھا ،پول کی تقریباً 44 کمپلینس کے باوجود کوئی کے الیکٹرک حکام سے نہیں آیا تھا میرے بچے کی موت کے آدھے گھنٹے میں گاڑی پہنچ گئی اور صحیح کر دیا، کیا کسی کی جان چلی جائے تب ہی کام کیا جائے گا؟کوئی کام کروانے کیلئے کسی کا مرنا ضروری ہے ؟

خلیق الدین نے کہا ڈیڑھ سال تک میں اپنے دوسرے بچوں کی دیکھ بھال کرتا رہا کیوں کہ میری بیوی شدید صدمے میں تھی۔ اذہان ہونہار طالب علم تھا کبھی فیل نہیں ہوا والد نے اذہان کے آخری الفاظ یاد کرتے ہوئے آب دیدہ ہوگئے، والد نے روتے ہوئے کہا اذہان نے آخری مرتبہ میرے دبئی جانے پر کہا "بابا مجھے چھوڑ کر مت جائیں، آپ مجھے سوٹ کیس میں چھپا کر لے جائیں اگر مجھے پتہ ہوتا کہ شہید ہوجائےگا میں اس کو اپنے ساتھ ضرور لے جاتا لیکن میں سمجھ نہیں پایا یہ میں اب مر کر ہی بھول سکتا ہوں"۔

خلیق الدین صدیقی نے کہا میری اہلیہ کو سب سے زیادہ میری ضرورت تھی مگر میں اس وقت ساتھ نہیں تھا، ڈیڑھ سال کے ڈپریشن میں مبتلا تھیں تب میں بچوں کی دیکھ بھال کرتا تھا جن کے سہارے کی وجہ سے آج زندگی میں جینے کی امنگ ہے۔

اذہان کے بڑے بھائی دانیال صدیقی نے بھی یادیں تازہ کیں اور کہا کہ اذہان کو جانوروں سے بہت محبت تھی اس لیے خاص عید منانے ائے تھے ان اگست کی تیز بارشوں کے بعد سے اب کبھی بھی بارش ہوتی ہے والدہ باہر نہیں جانے دیتیں۔

Load Next Story