وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ میزائل پروگرام کے سبب ہم پر عائد امریکی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں، میزائل پروگرام پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا۔ جب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا ہمارے ترقی و خوشحالی کی کاوشوں کے اصل ثمرات قوم تک نہیں پہنچ سکیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر تمام وسائل استعمال کیے جارہے ہیں، دہشت گردوں کا سر دوبارہ کچلا نہیں جاتا اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
دوسری جانب ایک پاکستانی وفد نے کابل میں طالبان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کی ہے۔ فریقین نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
بلاشبہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اپنی دفاعی ضروریات کے عین مطابق اور پرامن مقاصد کے لیے ہے کیونکہ پاکستان قطعی طور پر توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا،لہٰذا ہمارے میزائل پروگرام پر امریکی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں بنتا، بھارت کے جنگی جنون کے مقابلے میںپاکستان میں صورت حال مختلف ہے۔
پاکستانی حکام نے بجا طور پر واضح کیا ہے کہ افغانستان کی جنگ ہماری سرزمین پر نہیں لڑی جاسکتی اور یہ عزم بھی دہرایا ہے کہ ہماری جانب سے کسی ہمسایہ ملک میں دراندازی نہیں ہوگی۔
د راصل امریکا کی پالیسیاں اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہیں اور اس میں داخلی سیاست کا عنصر بھی شامل ہے، کیونکہ امریکی صدر جوبائیڈن جاتے جاتے پاکستان کے میزائل پروگرام پر جو پابندیاں لگا رہے ہیں وہ اگلے ماہ حلف اٹھانے والے نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے لیے خارجی محاذ پر مشکلات کا سبب بنے سکتی ہیں ، آیا وہ پاکستان پر عائد پابندیاں جاری رکھیں یا انھیں اٹھا لیں گے، یہ ان کی بصیرت کا امتحان ہوگا۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک اس وقت نہ تو پاکستان امریکا کے کسی دشمن کا دشمن ہے اور نہ امریکا کو اپنے کسی مفاد کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔
ایسے میں پاکستان کی مدد کے بجائے امریکا اپنی تمام توجہ اور محبت اپنے مفادات کی خاطر بھارت میں ’’انوسٹ‘‘ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھے گا۔ ٹرمپ کے حکومتی عہدیداران اور کابینہ کے ابتک اعلان شدہ اور ممکنہ ممبران وہی ہیں جو چین کے خلاف اور چین کے دشمنوں کے دوست ہیں۔
خصوصی طور پر مائک والٹز (قومی سلامتی کے مشیر) کئی برسو ں سے اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ چین اور امریکا سرد جنگ لڑ رہے ہیں اور کئی برسوں سے ان کا مطالبہ رہا ہے کہ امریکا اور بھارت مل کر چین کے خلاف باقاعدہ اعلانیہ اتحاد قائم کریں۔ خیر ہوائیں کونسا رخ اختیار کرتی ہیں یہ تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد واضح ہوگا۔ پاک امریکا تعلقات بے حد اہم ہیں، ہمیں سوچ سمجھ کر آگے چلنا ہے یہ وقت جذباتیت کا نہیں۔ درمیانہ راستہ جو پاکستان نے اختیار کیا ہے، وہی بہترین راستہ ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ملکی استحکام کے لیے داخلی اور خارجی امن دونوں بہت ضروری ہیں۔داخلی امن کا انحصار ہمیشہ خارجی امن پر ہوتا ہے اورخارجی امن میں ملکی سرحدیں ا ور ہمسایہ ممالک مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کو ہمیشہ خارجی امن کے ان دوکرداروں سے نقصانات کا سامنا رہاہے۔
اس وقت پاکستان کا داخلی امن انھیں دوکرداروں کی وجہ سے متزلزل ہے۔چنانچہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ جڑی پاکستان کی سرحدوں ہی سے تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیاں ملک میں ہورہی ہیں،جس کا اظہار پاکستان کے خفیہ ادارے اور حکومت کرتی رہی ہے۔پاکستان کی سرحدیں چار ہمسایہ ممالک انڈیا،ایران افغانستان اور چین کے ساتھ ملتی ہیں۔
یہ سرحدیں 6974کلومیٹر طویل ہیں،جن میں انڈیا کے ساتھ 2912،ایران کے ساتھ 909،افغانستان کے ساتھ2430اور چین کے ساتھ 523کلومیڑ کی سرحدیں شامل ہیں۔بحیرہ عرب کے ساتھ جڑی پاکستان کی سرحدکی طوالت1046 کلومیٹر ہے۔
اس کے علاوہ ایران کی چاہ بہار پورٹ پاکستان کی گوادر پورٹ سے صرف ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ جڑی ان سرحدوں میں سب سے زیادہ افغان سرحد پھر انڈیا اورایران کی سرحد سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیاں ریکارڈ کی جاتی رہی ہیں۔جس کا جواب پاکستان وقتاًفوقتاً ان کارروائیوں کے بعد دیتا رہا ہے۔حال ہی میں پاکستان میں پے درپے دہشت گردی کے المناک سانحات رونما ہوئے۔دہشت گردی کے ان واقعات کا اصل مرکز افغانستان کی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقے بتائے گئے،جہاں پاک فوج نے دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیا، دہشت گردی کے واقعات روکنے کے لیے ان مراکز کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ’’پڑوسی ممالک کو ناراض نہیں کرسکتے‘‘ایسے فلسفے سے باہر نہیں نکلتے۔بھلے پڑوسی ممالک ہمارا خون بہاتے رہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا کسی بھی ملک کے مستحکم رہنے کے لیے ضروری ہوتاہے،لیکن جب پڑوسی ممالک سے ملک عدم استحکام کا شکار ہورہاہو تب ان تعلقات پر غور کرنا اور اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کو نئے خطوط پراستوار کرنا بہت ضروری ہوتاہے۔
اچھاہوا کہ پاک فوج نے افغانستان اور انڈیا کی سرحدوں پر مانیٹرنگ اور سیکیورٹی کی طرح ایران کے ساتھ جڑی پاکستان کی سرحد پر بھی مانیٹرنگ اورسیکیورٹی سخت کرنے اور آپریشن کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے،تاکہ بلوچستان کے امن سمیت ملکی امن وامان پراثرانداز ہونے والے عناصر پرقابوپایاجاسکے۔
ہمارا ایک پڑوسی ملک ہے جہاں سے علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو کندھا دیا جاتا رہا ہے اور طالبان و القاعدہ کے اسی پڑوسی ملک میں ٹھکانوں پر عالمی میڈیا میں ہمیشہ شور برپا ہوتا رہا ہے،بلوچستان میں را کی تخریب کاری پر پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں بھی اسی پڑوسی ملک کو دوش دیتی رہی ہیں۔اسی طرح بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان میں تخریبی کارروائیاں اور دہشت گردوں کو بھار ت کا سپورٹ کرنا بھی سب کے سامنے ہے۔
تحریک طالبان کے حملوں کے سبب پاکستان اور افغانستان کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے، تاہم اس کے باوجود دونوں ممالک نے حال ہی میں سفارتی بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ درحقیقت افغانستان کی بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال کے خطے اور عالمی استحکام کے لیے اہم اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
پڑوسی ممالک جیسے پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں خاص طور پر عسکریت پسند سرگرمیوں کے اضافے کے اثرات سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ مزید برآں، افغانستان میں دہشت گردی کا دوبارہ ابھرنا بین الاقوامی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے، جو عالمی جہادی تحریکوں کے لیے ایک افزائش گاہ بن سکتی ہیں۔
جاری تنازع اور عدم استحکام نے افغانستان میں انسانی بحران کو مزید خراب کر دیا ہے، لاکھوں افراد سنگین حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات تک رسائی محدود ہے۔ عسکریت پسند سرگرمیوں کے دوبارہ ابھرنے سے بے دخلی میں بھی اضافہ ہوا ہے، کیونکہ بے شمار خاندان تنازعہ زدہ علاقوں سے محفوظ پناہ کی تلاش میں نکل گئے ہیں۔
امریکا کے انخلا نے افغانستان کے دہشت گردی کے خلاف چیلنجوں کو یقینی طور پر مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ عسکریت پسند سرگرمیوں کے دوبارہ ابھرنے اور طالبان کی ان خطرات کو موثر طریقے سے سنبھالنے میں ناکامی نے ملک کو ایک نئے دور کے عدم استحکام میں دھکیل دیا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے افغان قیادت اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے ایک مشترکہ کوشش کی ضرورت ہوگی تاکہ امن اور سلامتی بحال ہو سکے۔
افسوس ہمارے ہاں ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمارے کم،اوروں کے زیادہ ہمدرد ہیں۔یہی وجہ کہ پڑوسی ممالک کی طرف سے ملک میں ہونے والی تخریب کاری اوردہشت گردی پر دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت گزشتہ بائیس برسوں سے قابو نہیں پاسکی۔اس لیے سب سے پہلا کام ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور پھر پڑوسی ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی سطح پراز سرنو تعلقات قائم کرنا ہوں گے اور جو کوئی ان تعلقات سے ناجائز فائدہ اٹھائے تو اسے سمجھانے کے لیے بغیر کسی تامل کے بھرپورجواب دینا ہوگا۔
پاکستان کو ان بیرونی حملوں سے پیدا ہونے والے حفاظتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور کثیر الجہتی جواب کی ضرورت ہے۔ اپنی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں کا جائزہ لے کر اور انھیں اپ ڈیٹ کر کے، پاکستان اپنے قومی مفادات کا بہتر تحفظ کر سکتا ہے اور دیرپا استحکام کو یقینی بنا سکتا ہے۔
علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون، اندرونی اصلاحات اور سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ مل کر، اس ابھرتے ہوئے خطرے کے منظر نامے کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔