جب بھی چار عورتیں جمع ہوتی ہیں، ان کے پاس لے دے کے یا توبیگ، جوتوں، زیورات اور کپڑوں کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں یاپھر فلاں نے کہاں سے بال ڈائی کروائے، کہاں سے میک اپ کروایا، اس محفل میں ہر کوئی بنا ٹھنا تھا مگر اس کی بات ہی نرالی تھی۔
شاید اس کا چہرہ بغیر میک اپ کے چمک رہا تھا، اگر ایسا نہیں تھا تو اس کا میک اپ اس قدر مہارت سے کیا گیا تھا کہ وہ اپنی عمر سے کئی برس چھوٹی لگ رہی تھی۔ ہر کوئی اس سے اس خوب صورت جلد کا راز پوچھ رہا تھااور وہ ہنس ہنس کر مذاق سے کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ کہہ رہی تھی۔
’’ میرے چہرے پر میک اپ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ اس نے بالآخر کہا، ’’ چاہو تو چیک کر لو۔ اگر کسی کے پرس میں کوئی گیلا ٹشو پیپر ہے یا پھر چاہو تو میک اپ اتارنے کا کوئی لوشن آزما کر دیکھ لو۔‘‘
’’ ارے نہیں نہیں … ‘‘ کسی ایک نے خوشامدی لہجے میں کہا۔ ’’ کسی کو شک نہیں، بس ذرا راز بتا دو اپنی خوبصورتی کا؟‘‘
’’ میں ہر روز موسمی پھلوں کا تازہ جوس پیتی ہوں۔‘‘…’’ وہ تو ہم سب بھی پیتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب کو استطاعت ہے، پھل بھی کھاتے ہیں اور جوس بھی پیتے ہیں۔‘‘ کسی نے جواباً کہا۔
’’ میں ان پھلوں کا جوس پیتی ہوں، جو ریڑھیوں پر سے ہم نہیں خریدتے۔‘‘ اس نے کہا، ’’ میں بات سمجھاتی ہوں ۔ ‘‘ سڑک کے کنارے ایک آدمی ریڑھی لگا کر کھڑا تھا، میںنے سوچا کہ اتنی آبادی تو ہے نہیں، یہ تو بالکل غلط جگہ پر ریڑھی لگا کر کھڑا ہے، چلو اس سے کچھ پھل لے لیتی ہوں، ا س کی کچھ بکری ہو جائے گی۔ اس کے پاس کنوؤں کی تین چار قسم کی ورائٹی تھی۔میں نے کہا پھل میں اپنی مرضی کا لوں گی۔ اسے کوئی اعتراض نہ ہوا، ممکن ہے کہ اس نے دس بیس روپے زیادہ بتائے ہوں گے ۔
میں نے اپنی مرضی کے کنو چنے اور جو کنو ذرا سے نرم تھے وہ علیحدہ کر دیے، وہ کہتا رہا کہ وہ خراب نہ تھے بلکہ ذرا سے بوجھ سے دب گئے تھے، اس سے ان کے ذائقے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تاہم میں نے اسے کہا کہ وہ خاموش رہے، وہ ان کنوؤں کوریڑھی پر ہی رکھے ایک خالی کریٹ میں ڈالتا جا رہا تھا۔ ’’ ان کنوؤں کا کیا کرو گے، کسی جوس والے کو بیچ دو گے؟‘‘ میںنے اس سے سوال کیا۔
’’ جوس والے تو جی گلے سڑے اور باسی پھل خریدتے ہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول۔ یہ تو میں رکھتا ہوں کہ کوئی غریب گاہک آ جاتا ہے تو اسے سستے داموں دے دیتا ہوں، اس کے بال بچے بھی موسمی پھل چکھ لیتے ہیں۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔میں ابھی کنو منتخب کر کے ایک طرف رکھ رہی تھی کہ اس کی ریڑھی کے پاس ایک قدرے بزرگ سائیکل سوار رکا اور اس نے کنوؤں کا بھاؤ دریافت کیا۔
اس نے اسے وہی نرخ بتایا جو کہ اس نے مجھے بتایا تھا۔ وہ ذرا دیر کو خاموش ہوا اور پھر پوچھا کہ اس سے سستے ہیں کوئی تو دکھا دے ۔ میں اپنے لفافے میں ایک درجن سے تین کنو اوپر ڈال چکی تھی، اس نے اس سائیکل سوار کو وہ کنو دکھائے جو اس کریٹ میں تھے جہاں وہ میرے رد کیے ہوئے کنو بھی ڈال رہا تھا۔ ذرا سا بھاؤ تاؤ کر کے اس نے کہا کہ ایک درجن کنو ڈال دے۔
میں نے اسے کہا کہ اچھے اچھے کنوں غریبوں کو دے دیا کرو سستے داموں میں تمہیں ان کی ادائیگی بھی کروں گی اور ہلکے والے کنوں مجھے دے دیا کرو۔ تم اچھے کنو کل خریدو گے اور اسی طرح کم داموں پر دو گے۔ ’’ جب بھی کبھی وہاں سے گزر ہوتا ہے اور رک کر اس سے نرم پھل خریدتی ہوں تو وہ دعائیں بھی دیتاہے، بتاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے کاروبار میں اتنی برکت دی ہے۔
ایساسودا میں نے صرف اس ایک ریڑھی والے کے ساتھ نہیں بلکہ کئی اور پھلوں اور سبزیوں والوں کے ساتھ کر رکھا ہے، کہیں آٹے کی چکی میں نیکی کا حصہ ڈال رکھا ہے۔ کئی تنور والی روٹی کے لیے نیکی کی ٹوکری کی ترکی کی روایت کو قائم کیے ہوئے ہیں مگر نیکی روٹی سے بڑھ کر بھی کی جا سکتی ہے … بس اتنا سا راز ہے۔