کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں۔لیکن اس سوچنے پر کچھ زیادہ سوچنے، موچنے اور نوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ ہم جانتے ہیں، مانتے ہیں اور پہچانتے بھی ہیں کہ پاکستانیوں کے لیے سوچنا ایک شجرممنوع جیسی چیز ہے۔کیونکہ کسی ڈاکٹر نے بہت پہلے پاکستانیوں کے لیے ’’سوچنا‘‘بد پرہیزی قرار دیا ہوا ہے۔
بلکہ اگر کسی پاکستانی کو ’’سوچتا‘‘ ہوا پایا جائے تو اس کے پاکستانی ہونے پر شبہ کیا جاسکتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ کبھی کبھی انسان کا دل’’بد پرہیزی‘‘کرنا بھی چاہتا ہے۔ بلکہ حضرت علامہ نے بھی فرمایا ہے کہ ؎
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اس لیے ہم بھی کبھی کبھی دل کو کھلا چھوڑ دینے یا سوچنے کی بدپرہیزی کرلیتے ہیں۔اور اس وقت ہم یہ سوچ رہے کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان کے ساتھ یا بعد میں’’آزاد‘‘ ہونے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم ابھی جوتے ہی ڈھونڈ رہے ہیں ؎
شوق کی دیوانگی طے کرگئی کتنے مقام
عقل جس منزل میں تھی اب تک اسی منزل میں ہے
جوتے ڈھونڈنے کا قصہ بھی دُم ہلا رہا ہے اس لیے پہلے اس کی دُم بھی تھوڑی سی مروڑ دیتے ہیں۔دو نوابوں کی دوستی تھی ایک نے دوسرے کو دعوت پر بلایا جب دسترخوان بچانے کی تیاری ہورہی تھی تو میزبان نواب نے اچانک اپنے نوکر سے عبدل، پودینے کی چٹنی ہے نا۔عبدل نے کہا حضور پودینے کی چٹنی تو نہیں ہے۔نواب نے کہا ترنت جاؤ اور بازار سے پودینہ لے کر آؤ۔
عبدل حکم کی تعمیل کرتے ہوئے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد میزبان نواب نے کمنٹری شروع کی عبدل دکان پر پہنچ گیا ہوگا۔دکاندار نے پودینہ دے دیا، عبدل چل پڑا۔اب گھر کے قریب آپہنچا ہوگا۔یہ گھر کے اندر آیا اب دروازے پر پہنچ گیا پھر پکارا۔عبدل پودینہ لے آئے؟دروازے کے باہر سے عبدل کی آواز آئی۔جی حضور۔مہمان نواب عبدل کی اس مستعدی،ٹائمنگ اور نواب صاحب کی تربیت سے بہت متاثر ہوگیا پھر کچھ دنوں بعد اپنے ہاں دعوت دی۔
سابق میزبان نواب ان کے گھر گیا۔تو سابق مہمان اور موجودہ میزبان نواب نے بھی اسے مرعوب کرنے کے لیے دہی کا ڈرامہ رچایا۔ نوکر سے بولا دہی تو ہے نا۔نوکر نے کہا نہیں حضور۔نواب نے کہا دوڑ کر جاؤ اور بازار سے دہی لے آو۔نوکر نکل گیا تو کچھ دیر بعد اس نواب نے کمنٹری شروع کی۔اب دکان پر پہنچ گیا ہوگا،دہی لے کر لوٹ رہا ہوگا۔گھر کے دروازے پر پہنچ گیا ہوگا، صحن عبور کرکے اب دروازے پر ہوگا پھر آواز دی پاکستان۔ باہر سے آواز آئی جی حضور۔دہی لے آئے؟باہر سے آواز آئی نہیں حضور۔ابھی جوتے ڈھونڈ رہا ہوں۔لیکن بعض لوگوں کی سوچ بالکل غلط ہے پاکستان بھی کافی ترقی کرچکا ہے۔
خاص طور پر سیاست میں۔کیونکہ یہ جو معاونین خصوصی ہوتے ہیں یہ صرف پاکستان کی ایجاد ہیں دوسرے ملک ابھی وزیروں،صدوروں چئیرمینوں اور سیکریٹریوں کے دور میں ہیں،کسی کے ہاں یہ نو ایجاد آئٹم۔یعنی معاونین خصوصی نہیں ہیں۔اور صرف اسی آئٹم کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے جب ایک بیرونی وفد آیا۔سرکاری طور پر جو گائیڈ یا ترجمان ان کے ساتھ کردیا گیا۔بیرونی وفد کے سربراہ نے ترجمان سے پوچھا۔یہ جو آپ کے ہاں معاون خصوصی ہوتے ہیں یہ کیا کام کرتے ہیں؟ترجمان نے ابھی دکھائے دیتا ہوں۔ پھر وہ مہمانوں کو باہر لان میں لایا۔اور کہا اب دیکھیے پہلے اس نے ایک وزیر کو بلایا۔اور آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر پوچھا وزیرصاحب۔وہ ستارہ آپ کو نظر آرہا ہے؟
اب دن کے گیارہ بجے آسمان میں ستارہ کہاں تھا اس لیے بولا۔نہیں جناب مجھے کوئی ستارہ دکھائی نہیں دیتا۔ترجمان نے کہا اب جاؤ اور سیکریٹری کو بھیجو۔ سیکریٹری آیا تو ا سے بھی کوئی ستارہ دکھائی نہ دیا۔اس کے بعد کچھ اور عہدہ دار بلوائے گئے۔اور ستارہ دکھایا جانے لگا۔لیکن سب نے انکار کیا کہ ہمیں کوئی ستارہ نہیں دکھائی دیتا۔ترجمان نے سب کو واپس بھیج دیا اور کہا معاون خصوصی کو بلاؤ۔معاون خصوصی آیا۔تو ترجمان نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔معاون خصوصی صاحب میری انگلی کی سیدھ میں دیکھیے وہ ستارہ دکھائی دے رہا ہے نا۔معاون خصوصی نے فوراً کہا جی ہاں جناب۔آپ کی انگلی کی سیدھ میں ستارہ صاف نظر آرہا ہے۔کافی چمک دار ستارہ ہے میرے خیال میں زہرہ ہے۔
ترجمان نے معاون خصوصی کو شاباشی دے کر رخصت کیا اور مہمان سے بولا۔دیکھا آپ نے اب تو سمجھ گئے ہوں گے کہ معاونین خصوصی کا کام کیا ہوتا ہے۔جو نہیں ہوتا وہ بھی نہ صرف ان کو نظر آتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی دکھا سکتے ہیں۔لیکن اس ترجمان نے بھی معاونین خصوصی کے بارے میں پورا نہیں بلکہ آدھا ادھورا بتایا تھا۔
معاونین خصوصی کی ایک اور بڑی افادیت انٹرٹینمنٹ بھی ہے۔بلکہ جس طرح’’ودیا بالن‘‘ نے فلم کے بارے میں بتایا تھا کہ فلم میں تین چیزیںلازمی ہیں انٹرٹینمنٹ،انٹرسٹمنٹ اور انٹرٹینٹ۔ اگر آپ نے دیکھا ہوگا تو اخبارات میں اکثر بڑی غمزدہ کردینے والی دکھی خبریں ہوتی ہیں، مرنے، مارنے، لوٹنے، لڑنے،دھماکے اور ان میں مرنے والوں کی جانکاہ خبریں بلکہ فلسطین، کشمیر اور شام ولبنان کی خونریزیوںکی خبریں۔ پہلے زمانوں میں اخبارات کی بے پناہ سوگواریت کو کم کرنے کے لیے فکاہی کالم اور مزاحیہ قطعات شامل کیے جاتے لیکن اب وہ کالم بھی دانا دانشوروں کے قبضے میں چلے گئے۔یہ لمبے لمبے فلسفے ،قصیدے،مدح سرائیاں اور نوحے کہ اخبارات کے صٖحفات پر دیوارگریہ یا گریومارٹ بلکہ مورگ کا گمان ہوتا ہے۔اب آپ ہی بتائے لوگوں کے اپنے دکھ حکومتوں کی مہربانیوں سے کیا کم ہیں کہ اخبارات بھی
اشک سے میرے فقط دامن صحرا نہیں تر
کوہ بھی سب ہیں کھڑے تابہ کمرپانی میں
اب خدا ہماری حکومتوں کو سلامت رکھے اور وزیروں مشیروں اور کمیٹیوں کے علاوہ کوئی نہ چلے۔ انھوں نے انٹرٹینمینٹ،انٹرٹینٹ کی اس کمی کو کم کرنے کے لیے یہ معاون خصوصی آئٹم ایجاد کرلیا۔چنانچہ لوگ جانکاہ خبروں، مضامین اور کالموں میں دب جاتے ہیں۔تو معاونین کرام اور مشیران عظام کے بیانات پڑھ لیتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے محظوظ ہولیتے ہیں۔یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح فلموں میں کامیڈین رکھے جاتے ہیں۔
اسی طرح میڈیا کی فلم میں بھی کامیڈین رکھے جاتے ہیں ورنہ جہاں تک’’کام‘‘ کا تعلق ہے تو جب ایک پورا محکمہ اپنے وزیروں سیکریٹریوں اور ڈائریکٹروں سمیت موجود ہوتا ہے بلکہ سرپلس جا رہا ہے جن میں ماہرین بھی ہوتے ہیں۔تو اوپر سے خواہ مخواہ یہ معاونین و مشیرین رکھنے کی کیا تک بنتی ہے۔وہ بھی صرف بولنے والے۔اس لیے ہم سوچتے ہیں کہ اگر اخبارات میں ان معاونین و مشیرین کے بیانات نہ ہوتے تو لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے کہاں جاتے۔کہیں پڑھا تھا کہ نواب بہادر دریاگنج یا اس طرح کسی نواب کا کہنا تھا کہ اگر دنیا میں بگھارے بینگن نہ ہوتے تو زندگی بڑی مشکل گزرتی۔