افغانستان سے متصل خیبر پختون خوا کے ضلع کرم میں صورتحال تشویش ناک ہے۔ کرم ضلع کے شہر پارا چنارکا پشاور سے رابطہ منقطع ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں، پارا چنار میں زندگی سسک رہی ہے۔ معروف سماجی کارکن فیصل ایدھی اپنے امدادی طیارے کے ذریعے ایک ہفتے پہلے پشاورگئے تھے، وہ ایدھی میڈیکل سروس کے ہیلی کاپٹر پر ہنگامی پروازکے ذریعے پارا چنار میں ضروری اشیاء اور ادویات پہنچانے کے خواہش مند تھے مگر ایدھی ہیلی کاپٹرکی شہر پارا چنار پرواز کے لیے رکاوٹیں سامنے آئیں۔
فیصل ایدھی کی ایئر ایمبولینس کو اسلام آباد سے اجازت مل گئی تھی مگر جب فیصل ایدھی امداد کارکن اور صحافی طیارے میں سوار ہوئے تو طیارے کے پائلٹ کو پرواز کی اجازت کے لیے پندرہ گھنٹے انتظارکرنا پڑا۔ جب کچھ صحافیوں نے ایئرپورٹ حکام سے استفسار کیا کہ جب اسلام آباد سے اجازت آگئی ہے تو پھر طیارے کو کیوں روکا گیا ہے تو بتایا گیا کہ فیصل ایدھی کے پارا چنار جانے کے لیے صوبائی حکومت سے بھی اجازت درکار تھی۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہاڑیوں میں گھرے پارا چنارکی خوبصورتی فرقہ وارانہ کشیدگی کی بناء پر ماند پڑگئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پارا چنار کے مرکزی بازار میں ایک شخص بچوں کے فیڈر اٹھائے دکانوں پر گھوم رہا ہے تاکہ اس پر لگے نیپل کو خرید سکے مگر کسی دکان پر فیڈر اور اس کی نیپل دستیاب نہیں تھی۔ پاراچنار جانے والی صحافیوں کی ایک ٹیم نے بتایا ہے کہ انھیں پارا چنار میں آزادی سے رپورٹنگ کی اجازت نہیں ملی اور عام آدمی سے حالات پوچھنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
ایک رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پارا چنار کے مکینوں کو سیکیورٹی مہیا نہیں کی گئی ہے جس کی بناء پر عام آدمی خوفزدہ ہے اور اشیاء کی نایابی کی وجہ سے پریشان ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف تو موجود ہیں لیکن وہ ادویات کی قلت کے سبب مریضوں کی مدد سے قاصر ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ادویات کی کمی کی بناء پر خاصے مریض جاں بحق ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ دو ماہ میں 29 بچوں کی اموات ہوگئی ہیں۔ اگرچہ آزاد ذرایع سے ان اموات کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال پارا چنارکے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے برطانوی ریڈیو کے رپورٹ کے سامنے اس خبرکی تصدیق کی کہ گزشتہ دو ماہ میں 29 بچوں کی اموات ہوچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سڑک بند ہوجاتی ہے تو بہت سے مسائل سر اٹھاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر سڑک مسلسل بند رہتی ہے تو سب سے پہلے ہماری سپلائی لائن کٹ جاتی ہے۔ خاص طور پر ادویات اور آکسیجن کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ ان مریضوں کا ہوتا ہے جن کی حالت نازک ہوتی ہے اور جنھیں فوری طور پر بڑے اسپتالوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پارا چنار میں رپورٹروں کے مطابق پاراچنار اسپتال سے تقریباً 50کلومیٹر دور رہنے والے گردوں کے عارضے میں مبتلا مریضوں کو اسپتال پہنچنے کے لیے طویل کچے راستے کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔مریضوں کو کوشش کے باوجود کچھ دوائیاں نہیں مل پاتیں۔
پاراچنار کے رہائشیوں نے بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا ذکرکیا۔ ایک مریض نے بتایا کہ ان کے دونوں گردے ناکارہ ہوچکے ہیں اور انھیں فوری طور پر پشاور منتقل کیا جائے اور سستی ادویات مل جائیں مگر راستہ بند ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے۔ پارا چنار کے بازار میں دکانیں خالی ہیں۔
ایک کاروباری شخص نے شکوہ کیا کہ ہول سیلر ہوتے ہوئے ان کی دکان خالی ہے تو باقی دکانوں میں کیا بچا ہوگا؟ انھوں نے بتایا کہ پور ے شہر میں انسولین ختم ہوچکی ہے۔ اینٹی بائیوٹکس ادویات موجود نہیں ہیں۔ بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے مریض اب صرف اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر زندہ ہیں۔ فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ ہم تو صرف زندگی بچانے والی ادویات لے کر آئے تھے مگر یہاں ہر قسم کی ادویات اور ضروری اشیاء تقریباً نایاب ہیں۔ پارا چنار گزشتہ تین ماہ سے حصار میں ہے اور متحارب قبائل کی لڑائی میں گزشتہ تین ماہ میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
ایوانِ بالا سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹروں نے خیبر پختون خوا کی حکومت کو پارا چنارکی صورتحال کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ مذہبی امورکے وزیر چوہدری سالک حسین کا مؤقف ہے کہ امن و امان کی ذمے دار صوبائی حکومت ہے مگر صوبائی حکومت پارا چنار کے مسئلے پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔
خیبر پختون خوا میں برسرِ اقتدار تحریک انصاف کی اتحادی تنظیم مجلس وحدتِ مسلمین (MWM) کے سربراہ راجہ ناصر عباس نے توجہ دلاؤ نوٹس پر تقریرکرتے ہوئے صوبائی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ صوبے میں امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے بانی نے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کو پیغام دیا تھا کہ ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر کو ان کی نااہلی پر فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے مگر صوبائی حکومت نے اپنے قائد کی اس ہدایت کو نظراندازکردیا ۔
راجہ ناصر عباس نے تحریک انصاف کے ایوان میں موجود سینیٹروں سے کہا کہ وہ اپنے قائدکو آگاہ کریں کہ صوبائی حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ناصر عباس نے اس الزام کو دہرایا کہ پارا چنار میں ادویات ناپید ہوگئی ہیں اور بچے مر رہے ہیں۔ ناصر عباس نے وضاحت کی دو متحارب قبائل میں زمین کا تنازع طے ہوگیا تھا مگر پھر بسوں کے قافلے پر حملہ ہوا اور بے گناہ افراد کا خون بہایا گیا۔
ناصر عباس نے یہ مؤقف اختیارکیا کہ حکومت کے افسروں کا کہنا ہے کہ پارا چنار کے لوگ ہتھیار واپس کردیں تو سڑکیں کھولی جاسکتی ہیں مگر لوگ اس خوف کی بناء پر ہتھیار دینے کو تیار نہیں کہ کرم ضلع تین اطراف سے افغانستان کے صوبوں سے جڑا ہوا ہے اور افغانستان کے ان صوبوں میں انتہا پسند طالبان کی اکثریت ہے، یوں پارا چنارکے عوام سوچتے ہیں کہ ہتھیاروں کی واپسی کے بعد ان کے پاس تحفظ کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔
دوسری طرف ریاست ان کے دفاع کی یقین دہانی پر تیار نہیں ہے، یوں اس علاقے میں صورتحال کو معمول پر لانے کی کوششیں غیر مؤثر ثابت ہوچکی ہیں۔ اسلام آباد کی سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پارا چنار کے معاملے پر عدم دلچسپی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ گورنر خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے سخت تنقید کے بعد ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ ایپکس کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمام فریقین اسلحہ جمع کروا دیں اور بنکر بند کردیے جائیں۔
اس اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور صوبائی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ زمینی راستہ وقفے وقفے سے کھولا جائے گا مگر فوری طور پر ہتھیار لینے کا معاملہ علاقے میں ایک نیا تضاد پیدا کرے گا۔ پارا چنار کے لوگ گزشتہ دو سال کے واقعات سے سخت خوفزدہ ہیں۔ جب تک دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوتا وہ ہتھیار واپس نہیں کریں گے۔
پارا چنار خیبر پختون خوا کا انتہائی حساس مقام ہے۔ ماضی میں بھی پارا چنار میں ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم سے پہلے صوبہ خیبر پختون خوا اور پھر پورا ملک متاثر ہوا تھا۔ پارا چنار کے رونما ہونے والے واقعات میں افغانستان، ایران، بھارت، روس اور وسطیٰ ایشیائی ممالک کے علاوہ امریکا کو خصوصی دلچسپی ہے، اگر وفاق اور صوبائی حکومتوں نے کرم ضلع میں پائیدار امن کے لیے خصوصی اقدامات نہیں کیے اور اس مسئلے کا مستقل حل تلاش نہ کیا تو پھر یہ آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔