تین پارٹیوں کی طرف دیکھتا کراچی
سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا ہے کہ کراچی شہر کو تباہ ایم کیو ایم نے کیا ہے، ان ہی کے دور میں ملازمین کی پنشن کے لیے رکھے گئے پیسے خرچ کیے گئے۔ ایم کیو ایم کو تو کراچی کے مسائل پر بات ہی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس شہر اور شہر کے اداروں کو برباد ایم کیو ایم نے کیا ہے۔
ایم کیو ایم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کراچی کے سرکاری اداروں میں گریڈ 15 تک کی مقامی ملازمتوں پر بھی پی پی حکومت میں غیر مقامی لوگوں کی ناجائز بھرتیاں کیں اور ان غیر مقامی افراد نے سرکاری سرپرستی میں کراچی کے اداروں کو تباہ کر دیا جن کا مقصد ہی کراچی سے پیسہ کمانا ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی کے لیے کوئی بھی میگا پروجیکٹ نہیں دیا اور نہ ہی پورے سندھ میں کوئی کام کیا۔
پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے کراچی سمیت سندھ کے شہری وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے جب کہ کراچی پاکستان کے کل محصولات کا 70 فی صد اور سندھ کو برائے راست نوے فیصد کما کر دیتا ہے مگر کراچی کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
ایم کیو ایم نے سندھ حکومت سے یہ بھی سوال کیا کہ ورلڈ بینک سے قرضہ لے کر ترقیاتی کام کرانے والے کریڈٹ تو لیتے ہیں مگر ان کا لیا گیا یہ قرضہ کراچی والوں نے خود کو بیچ کر ادا کرنا ہے اور شہر تباہ حال ہے۔ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی اپنی کرپشن کا بھی جواب دیں۔
جماعت اسلامی بھی کراچی کی تیسری اسٹیک ہولڈر ہے جس کے کراچی میں نو ٹاؤن چیئرمین ہیں جب کہ پہلی بار کراچی کی میئر شپ سندھ حکومت نے ایک منصوبے کے تحت حاصل کی تھی جس پر جماعت اسلامی میئر کراچی کو قبضہ میئر قرار دیتی ہے۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے کراچی میں اپنا میئر لانے کی تیاریاں کر رکھی تھیں اور ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری تھی یا شکست کے خوف سے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے نتیجے میں کراچی کا بلدیاتی مینڈیٹ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ملا تھا۔
پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ختم ہو چکی تھی اور سندھ میں برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس نے کراچی میں نیا ضلع کیماڑی بنایا تھا اور یوسیز غیر منصفانہ طور بنوائی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے زیر اثر اور مضافاتی علاقوں میں کم آبادی پر اور شہری علاقوں میں زیادہ آبادی پر یوسیز بنوائی تھیں جن کی تعداد زیادہ تھی۔
کراچی سے ضلع کونسل ختم کر کے 26 ٹاؤن میونسپل کارپوریشن بنائی گئی تھیں جب کہ مشرف دور میں سٹی حکومت کی 178 یوسیز اور اٹھارہ ٹاؤن تھے اور ایم کیو ایم نے 2001 میں بھی بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس پر جماعت اسلامی نے (ق) لیگ سے مل کر کراچی میں اپنا سٹی ناظم منتخب کرا لیا تھا اور نائب سٹی ناظم کا عہدہ مسلم لیگ (ق) کو دیا تھا جو اقتدار میں تھی۔
2005 میں ایم کیو ایم نے اپنا سٹی ناظم منتخب کرایا تھا اور سٹی حکومت بااختیار تھی۔ 2008 میں اقتدار میں آ کر پیپلز پارٹی نے ضلعی نظام ختم کرکے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو مکمل بے اختیار کردیا تھا اور 2015 کے بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم نے اپنا میئر منتخب کرایا تھا جو چار سال تک اپنی بے اختیاری کا رونا روتا رہا کیونکہ سندھ حکومت نے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے تھے جس کی وجہ سے کراچی میں سٹی حکومتوں جیسا کام نہیں ہو سکا تھا۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات کا بھی ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا مگر پیپلز پارٹی اکثریت نہ لے سکی اور جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی مل کر اپنے میئر باآسانی لا سکتی تھیں مگر سندھ حکومت نے انھیں کامیاب نہ ہونے دیا اور پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین اندرونی طور پر سندھ حکومت سے مل گئے اور میئر کا ووٹ ڈالنے نہیں آئے اور سندھ حکومت نے کراچی کی تاریخ میں پہلی بار اپنا میئر مرتضیٰ وہاب کو منتخب کرا لیا تھا۔
جماعت اسلامی کو اپنے میئر منتخب کرا لینے کی قوی امید تھی مگر سندھ حکومت اپنا میئر لانے میں کامیاب تو ہوگئی مگر میئر کراچی سندھ حکومت کے بعد بلاول بھٹو کے ترجمان بن گئے اور انھیں یہ ذمے داری بھی ملی ہوئی ہے۔
فروری کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو اس کی توقع کے خلاف کراچی سے سب سے زیادہ قومی اور صوبائی نشستیں ملیں یا اسی طرح دلائی گئیں جس طرح 2018 میں پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کی نشستیں دلائی گئی تھیں جس کے بعد کراچی کے بلدیاتی ادارے پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے پاس ہیں مگر پی ٹی آئی حکومت سے باہر اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اس طرح کراچی تین پارٹیوں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا محکوم ہے۔ ا
گر جماعت اسلامی پی ٹی آئی سے مل کر اپنا میئر لے بھی آتی تو بھی سندھ حکومت اسے فنڈز دیتی نہ اختیارات مگر یہ ضرور ہے کہ کراچی کا پی پی کا میئر ایم کیو ایم کے سابق میئر کی طرح ماضی کی بلدیہ عظمیٰ کی طرح بے اختیار نہیں ہے اور سٹی ناظمین جیسی سربراہی نہ ملنے پر میئر کراچی اپنی بے اختیاری کی بات تو کرتے ہیں مگر سندھ حکومت ان کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے وہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم جیسی بیان بازی نہیں کرسکتے۔
ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی بلدیہ عظمیٰ کی کرپشن کی باتیں بھی کرتی ہیں اور سندھ حکومت پر بھی الزام تراشی کرتی ہیں جس کے جواب میں صوبائی وزیر سعید غنی اور شرجیل میمن ایم کیو ایم اور جماعت پر الزامات لگاتے ہیں اور جماعت اسلامی پی پی کی طرح ایم کیو ایم کو کراچی کی تباہی کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔