دینی مدارس اسلام کے قلعے، علوم قرآن و سنت اور رشد و ہدایت کے سرچشمے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلامی علوم کے ماہر ایسے افراد تیار کرنا ہے جو ایک طرف بلند اخلاق و کردار کے مالک اور فکری اعتبار سے صراطِ مستقیم پر گامزن ہوں، دوسری طرف وہ مسلمانوں کی دینی و اجتماعی قیادت و رہبری کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔
ان مدارس میں تہذیب وثقافت، غیرت وحمیت، ایمانداری، وفاشعاری اور ان تمام اخلاقی و معاشرتی قدروں کی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے، جو کردار سازی کے لیے ضروری اور جن سے ہر مسلمان کو آراستہ ہونا چاہیے اور اگر مدارس اور عصری علوم کے اداروں کے طلباء کے کردار و اخلاق کا موازنہ کرکے دیکھا جائے تو کوئی تقابل ہی نہیں۔
کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں روز اول سے مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ اور ان کی آبیاری کے لیے اکابر علماء وشیوخ نے دینی مدارس کا جال ملک کے طول و ارض میں پھیلایا، جنھوں نے اپنے تاسیسی مقاصد کو کماحقہ پورا کیا۔ لیکن بلا تفریق و امتیاز ہماری ہر حکومت کی شاہ خرچیوں، بد عنوانیوں، عیاشیوں اور غلط پالیسیوں کی بنا پر ہمارا ملک اقتصادی اور معاشی طور پر کمزور ہوتا گیا تو بجائے ہوش کے ناخن لینے کے اپنی شاہ خرچیوں کے لیے ہر حکومت کا انحصار بیرونی قرضوں اور امداد پر بڑھتا گیا اور امداد دینے والے اداروں اور ممالک کی شرائط کے علاوہ مطالبات کی فہرست شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتی گئی۔
انھوں نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو اپنے جال میں جکڑنے کے لیے شرائط و مطالبات کا جال بنا، وہاں دینی مدارس اور مساجد کو کنٹرول کرنے کی شرطیں بھی لگانا شروع کردیں، جس کے نتیجہ میں حکمرانوں نے کبھی مدارس کی امداد کے نام پر، کبھی اسناد کو دنیاوی تعلیم کے مساوی قرار دینے، کبھی ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار دینے، کبھی ان مدارس کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے، کبھی ان مدارس کے مقابل ماڈل دینی مدارس بنانے کی باتیں کرکے وزارت تعلیم میں رجسٹریشن کرانے کی ترغیب دی۔
پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد میں دینی مدارس کے نظام کو زندہ وجاوید رکھنے کے لیے ہر دور میں اکابر علماء کرام میدان عمل میں نکلے اور انھوں نے علوم اسلامی کے ان مراکز کی حفاظت کی۔
میں کس کس کا نام لوں، یہ سلسلہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ سے شروع ہوکر شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مدنیؒ سے لے کر امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت سندھیؒ سے حضرت مولانا منصور انصاریؒ ،حضرت انصاریؒ سے مولانا حفظ الرحمانؒ، حضرت حفظ الرحمانؒ سے مولانا مفتی کفایت اللہؒ، حضرت مفتیؒ سے مولانا احمد سعیدؒ، حضرت احمد سعیدؒ سے قطب الاقطاب حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت لاہوریؒ سے حضرت دین پوریؒ، حضرت دین پوریؒ سے حضرت امروٹیؒ، حضرت امروٹی سے مولانا عبد الرحیم پوپلزئیؒ، حضرت پوپلزئی سے حضرت رائے پوریؒ، حضرت رائے پوری سے حضرت ہالیجویؒ، حضرت ہالیجویؒ سے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت بخاریؒ سے مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت جالندھریؒ سے قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، حضرت شجاع آبادیؒ سے مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، حضرت لدھیانویؒ سے حضرت مولانا عبدالحقؒ، حضرت عبدالحقؒ سے مفتی محمودؒ، مولانا مفتی محمودؒ سے مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت خیر محمد سے شیخ حمداللہ جان ڈاگئی بابا جیؒ ، حضرت ڈاگئی بابا جیؒ سے مولانا سمیع الحق شہیدؒ تک آتا ہے۔ سب علماء و شیوخ نے مدارس کی آزادی و حریت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا حق ادا کردیا۔
گزشتہ 40، 50 سال سے تحفظ مدارس دینیہ کی تحریک کا علم مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ میں ہے، مدارس کی سب سے بڑی تنظیم اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ پاکستان مولانا کی قیادت میں مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر سینہ سپر ہے۔ اس تنظیم میں پاکستان میں موجود تمام مکاتب فکر کے نمایندہ وفاق شامل ہیں۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک دوسرے فلاحی، خیراتی اور مفت تعلیم دینے والے اداروں کی طرح مدارس بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے چلے آرہے ہیں اور بلا روک ٹوک اپنا کام کر رہے ہیں۔
دور عمرانی میں 10 نئے بورڈ (وفاق) بنائے گئے اور سفید کاغذ پر لکھے گئے ایک معاہدے کے تحت ان کو سوسائٹیز ایکٹ کے بجائے مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کی اجازت دی گئی مگر حکومت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے اس فیصلے کو مسترد کردیا اور مطالبہ کیا کہ مدارس کو واپس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ہی رجسٹرڈ کیا جائے۔
پی ٹی آئی سرکار کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران بھی ٹال مٹول کا سلسلہ جاری رہا اور پی ڈی ایم حکومت کے دوران اعظم نذیر تارڑ کا پیش کیا گیا بل آخری وقت میں روک دیا گیا۔ لیکن 26 ویں آئینی ترمیم میں مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی گردن پر گھٹنا رکھ کر یہ مطالبہ منوایا اور اسے قانونی تحفظ دینے کے لیے وہی پرانا بل اس ترمیم میں شامل کرایا جو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے متفقہ طور پر پاس ہوئی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے دوبار اس پر اعتراض لگا کر اسے متنازع بنا دیا اور دوسری بار اعتراضات میں یہ بات کہی گئی کہ ہمیں بیرونی پابندیوں کا خدشہ ہے اس لیے اس پاس شدہ بل کو ایکٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ یاد رہے کہ یہ اعتراض صدر کے پاس کسی بھی بل پر دستخط کرنے کی آئینی مدت کے بعد لگایا گیا، آئین کہتا ہے کہ صدر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہوکر آنے والے بل پر اس کی آئینی مدت میں دستخط نہ کرے تو وہ خود بخود ایکٹ بن جاتاہے۔ مولانا فضل الرحمن اور اتحاد تنظیمات مدارس کی قیادت کا بھی اب یہی مطالبہ ہے کہ بل ایکٹ بن چکا ہے اسے فی الفور نافذ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
تبدیلی کے قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ مدارس اگر وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں توانھیں شاید کچھ فوائد سرکاری سطح پر ملیں گے جو اس سے پہلے کبھی مدارس نے آفر کے باوجود قبول نہیں کیے۔ پہلا فائدہ یہ کہ سرکاری فنڈ کا حصول آسان ہوجاتاہے، دوسرا فائدہ یہ کہ مدارس کی اسناد کی مقبولیت میں اضافہ متوقع ہے حالانکہ یہ دونوں فائدے فرضی ہیں۔
جس ملک میں سرکاری تعلیمی ادارے فنڈز کی کمی کا شکار ہوں، بھیک مانگ مانگ کر بجلی کے بل اور دیگر ضروریات پوری ہوتی ہوں وہاں حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مدارس کو فنڈز دے گی نہایت احمقانہ سوچ ہے، جو سرکاری وفاقوں کے قائدین اپنے ذہنوں میں پال رہے ہیں۔
جہاں تک اسناد کی سرکاری سطح پر قبولیت کی بات ہے، اس بارے میں بھی ہمارے معاشرے میں بے شمار مثالیں موجود ہیں، وہ سرکاری یونیورسٹیاں جنھیں حکومت اربوں روپے سالانہ گرانٹ دیتی ہے ان کے ڈگری ہولڈرز بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، پاکستان کے مدارس دنیا کے بہترین مدارس ہیں، پوری دنیا سے علوم اسلام سیکھنے کے لیے طلبا پاکستان کے دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں، جب کہ ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2025کی ٹاپ 500 یونیورسٹیوں میں صرف ایک پاکستانی یونیورسٹی شامل ہے۔
حکومتی امداد ایسے ہی نہیں ملے گی اپنے ساتھ پابندیاں لائے گی، جس سے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم دونوں میں مدارس کی خود مختاری ختم ہو جائے گی۔ مدارس کو رجسٹریشن رینیول اور آڈٹ کے ان مشکل ترین مراحل کا سامنا کرناہوگا جس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس لیے یہ معاملہ محض رجسٹریشن کا نہیں، مدارس کی آزادی و خود مختاری کا معاملہ ہے۔
اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان میں موجود تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء وشیوخ ایک طرف ہیں اور وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن کرانے کے حامی علماء دوسری طرف۔ قومی اسمبلی کے فلور پر مولانا کے ایوان نہیں تو پھر میدان کی دھمکی کے بعد مولانا کو وزیر اعظم نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے دعوت دی، اس ملاقات میں پیپلز پارٹی کے اہم رہنما بھی شریک تھے۔
ملاقات کے بعد مولانا بڑے پرعزم دکھائی دے رہے تھے اور انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ چند روز میں قوم اس حساس مسئلے پر خوشخبری سنے گی۔ پوری قوم اسی خوشخبری کی منتظر ہے۔ حکومت ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا اور ان کے چاہنے والوں کو یہ باور کروائے کہ میدان نہیں ایوان میں مسائل ہونگے ورنہ کھیل حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ انشاء اللہ، اللہ رب العزت ماضی کی طرح اس بار بھی ہمارے اکابرین کو متحد اور ایک رکھ کر کامیابی سے ہمکنار کرے۔ آمین