کرسمس

دسمبر کا مہینہ پوری عیسائی دنیا میں بڑے جوش سے منایا جاتا ہے


جاوید چوہدر ی December 26, 2024
www.facebook.com/javed.chaudhry

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور پر منایا جاتا تھا‘ دسمبر میں راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہو جاتے تھے‘ روشنی اور آگ کا بندوبست ہوتا نہیں تھا لہٰذا یورپ سورج‘ روشنی اور حرارت کوترس جاتا تھا‘ اس زمانے میں 24 دسمبر طویل ترین رات ہوتی تھی‘ آج یہ اعزاز 22 دسمبر کو حاصل ہے‘ رومن سمجھتے تھے 25 دسمبر کے بعد راتیں چھوٹی اور دن لمبے ہونے لگتے ہیں‘ یہ دن سن ڈے (سورج کا دن) ہے لہٰذا یہ 25 دسمبر کو پورے ملک میں جشن مناتے تھے‘ ناچتے‘ گاتے اور کھاتے پیتے تھے اور یہ سوچ کر خوش ہوتے تھے کہ اب برفیں پگھل جائیں گی۔

 درختوں کے پتے‘ پھول اور پھل واپس آئیں گے‘ گرم کپڑے صندوقوں میں بند کر دیے جائیں گے‘ ہم لوگ چھوٹی قمیضیں اور جانگیے پہن کر باہر پھریں گے‘ فصلیں تیار ہوں گی اور جانوروں کا دودھ اور گوشت زیادہ صحت مند اور خوشبودار ہو جائے گا‘ یہ جشن ہزاروں سال سے منایا جا رہا تھا‘ عیسائیت آئی تو مسیحیوں کے پاس کوئی جشن نہیں تھا‘ یہ اہل یہود کے تہوار مناتے تھے یا مقامی خطوں کے جشن منا لیا کرتے تھے‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی رخصتی کے 221سال بعد پہلی کرسمس منائی گئی‘ اس کے لیے بھی 25دسمبر کا دن منتخب کیا گیا‘ اب سوال یہ ہے کیا حضرت عیسیٰ ؑ واقعی 25 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے؟ اس کا جواب ہے نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخ پیدائش کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

 عیسائیوں نے رومن کے 25 دسمبر کے جشن کو 221میں حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا دن قرار دے کر کرسمس منانی شروع کر دی‘ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے ہم اگر موجودہ کیلنڈر کے حساب سے بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخ پیدائش کا دن نکالیں تو وہ دو عیسوی بنے گا یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش عیسوی کیلنڈر کے دوسرے سال ہوئی تھی گویا کرسمس کا تعلق حضرت عیسیٰ ؑ کی اصل تاریخ پیدائش سے نہیں ہے۔

 یہ رومن کا دن تھا‘ رومن نے جب عیسائیت قبول کر لی تو مسیحیوں نے ان کے جشن کو حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخ پیدائش قرار دے کر اسے کرسمس بنا دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اسے پوری عیسائی دنیا تسلیم بھی کرتی رہی اور اس میں نئی نئی روایات بھی متعارف کراتی رہی‘ مثلاً کرسمس ٹری کی روایت فرانس کے شہر سٹراس برگ (Strasbourg) میں 1605میں شروع ہوئی‘ لوگوں نے شہر کے پرانے چرچ کے صحن میں فر (Fir) کا درخت لگایا اور اس پر رنگین کپڑوں کے ٹکڑے لٹکا دیے‘ 1611میں اس پر موم بتیاں لٹکا دی گئیں اور پھر ترکی میں اس پر بچوں کے لیے تحفے لگا دیے گئے اور یوں کرسمس ٹری پوری دنیا میں کرسمس کا حصہ بن گیا‘ اب کرسمس ٹری کے گرد 24 موم بتیاں لگائی یا جلائی جاتی ہیں‘ 24 موم بتیاں دسمبر کے 24 دنوں کی علامت ہیں‘ ہر دن کی ایک موم بتی اور 25 واں دن کرسمس ٹری ۔

دسمبر کا مہینہ پوری عیسائی دنیا میں بڑے جوش سے منایا جاتا ہے‘ شہروں میں بڑے بڑے کرسمس ٹری لگائے جاتے ہیں‘ کرسمس کی خصوصی مارکیٹیں (بازار) بھی آباد کیے جاتے ہیں‘ یہ بازار ’’کرسمس مارکیٹس‘‘ کہلاتے ہیں‘ کرسمس مارکیٹس میں چھوٹی چھوٹی ہٹس ٹائپ دکانیں بنائی جاتی ہیں اور ان میں دکان دار ہر قسم کی اشیاء فروخت کرتے ہیں‘ ان میں کھانے پینے کے اسٹال بھی ہوتے ہیں‘ میں تقریباً ہر سال کسی نہ کسی یورپی ملک میں کرسمس دیکھنے جاتا ہوں‘ اس سال نیویارک‘ پیرس اور غرناطہ گیا‘ اپنی بیٹیوں کو بھی ساتھ لے گیا تاکہ یہ بھی کرسمس کا تہوار دیکھ سکیں۔

 ہم نے نیویارک سے اسٹارٹ لیا‘ نیویارک میں ٹائم اسکوائر سے لے کر راک فیلر کے ہیڈکوارٹر تک کرسمس کی ایکٹوٹیز ہوتی ہیں‘ راک فیلر فاؤنڈیشن ہر سال دنیا کا سب سے بڑا اور بلند کرسمس ٹری لگاتی ہے‘ ہم نے 33 اسٹریٹ سے چلنا شروع کیا‘ 40 ویں اسٹریٹ سے ٹائم اسکوائر شروع ہوا‘ وہاں بے تحاشا رش تھا‘ بلندوبالا عمارتوں پر بڑی بڑی اسکرینیں لگی تھیں اور یہ اسکرینیں دن کے وقت بھی فضا میں رنگ اڑا رہی تھیں‘ اسکرینیں اور رنگ ٹائم اسکوائر کی خاص نشانیاں ہیں‘ ہم وہاں سے چلتے ہوئے 48 اسٹریٹ پر راک فیلر کے ہیڈکوارٹر پہنچے وہاں واقعی دیوہیکل کرسمس ٹری لگا تھا اور اس پر روشنیاں‘ مصنوعی سیب اور تحفے لٹکے تھے‘ کرسمس ٹری 16 منزلہ تھا اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے لوہے کی تاروں سے باندھا گیا تھا۔

 اس کے ساتھ کرسمس مارکیٹ بھی تھی اور عمارتوں کے درمیان مصنوعی برف بچھا کر اس پر سکیئنگ بھی ہو رہی تھی‘ بچے‘ جوان‘ مرد اور عورتیں سکیئنگ شوز پہن کر گراؤنڈ میں باقاعدہ سکیئنگ کر رہے تھے‘ وہاں بھی ٹھیک ٹھاک رش تھا‘ لگ بھگ تیس چالیس ہزار لوگ ہوں گے لیکن اس کے باوجود صفائی اور نظم و نسق مثالی تھا‘ مجال ہے کوئی شخص قطار توڑ رہا ہو یا فٹ پاتھ یا سڑک پر کوئی کاغذ یا ریپر پھینک رہا ہو‘ نیویارک کی سب سے بڑی کرسمس مارکیٹ 46 ویںا سٹریٹ پر لگتی ہے۔

 یہ بھی دیکھنے لائق ہے‘ اس میں بھی سکیئنگ گراؤنڈ تھا اور دائیں بائیں عارضی ریستوران‘ کافی شاپس اور آئس کریم پارلر۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کرسمس مارکیٹس میں شراب خانے یا شراب کی دکانیں نہیں تھیں‘ امریکی شاید کرسمس کو شراب سے دور رکھتے ہیں تاہم میں اس کے بارے میں معلومات حاصل نہ کر سکا‘ ہم راک فیلر ہیڈکوارٹر سے چلتے ہوئے 58 نمبر اسٹریٹ پر نیویارک میں ایپل کے سب سے بڑے اسٹور پر آگئے‘ یہ عمارت واقعی دیکھنے لائق ہے‘ پورا اسٹور زیر زمین ہے بس اس کی انٹرینس زمین پر ہے اور یہ مکمل طور پر شیشے کی بنی ہے‘ یہ دور سے شیشے کا کیوب دکھائی دیتی ہے‘ ہم شیشے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو دونوں سائیڈز سے سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں جب کہ درمیان میں لفٹ تھی‘ نیچے وسیع ہال میں ایپل کی پراڈکٹس رکھی تھیں اور سرخ شرٹس میں سیلز مین اور سیلز گرلز گاہکوں کو گائیڈ کر رہی تھیں‘ ایک کونے میں نئی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کے بارے میں لیکچر دیا جاتا ہے۔

 ہم جب وہاں پہنچے تو ایپل کمپنی کا کوئی ڈائریکٹر آئی فون 16 کے نئے فیچرز بتا رہا تھا‘ تہہ خانے کے باوجود وہاں سورج کی روشنی کا بندوبست بھی تھا اور ہال کے درمیان اور سائیڈز پر پودے اور پھول بھی لگے تھے‘ فون چارجنگ اور فری وائی فائی بھی دستیاب تھا جس سے 90 فیصد لوگ فائدہ اٹھا رہے تھے‘ لوگ سائیڈز کے بنچز اور کانفرنس روم میں نیند کے مزے بھی لوٹ رہے تھے‘ ہمیں سیل بوائے نے بتایا یہ سینٹر 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے‘ آپ کسی بھی وقت یہاں آ سکتے ہیں۔

ایپل سینٹر کے ساتھ نیویارک کا سینٹرل پارک شروع ہو جاتا ہے‘ یہ 840ایکڑز پر مشتمل ایک خوب صورت پارک ہے جس میں صدیوں پرانے درخت بھی ہیں اور چھوٹی سی جھیل بھی جب کہ چاروں سائیڈز پر واکنگ ٹریکس اور جوگنگ پاتھ بنے ہوئے ہیں‘ سینٹرل پارک کے اطراف مہنگے فلیٹس اور ولاز ہیں‘ ہم ایک دن قبل میٹ (میٹرو پولیٹن میوزیم) دیکھنے کے لیے سینٹرل پارک سے گزر کر گئے‘ ہمیں اس دن پارک میں کوئی دل چسپی محسوس نہیں ہوئی لہٰذا ہم واپس چل پڑے‘ واپسی کے سفر میں بھی کرسمس کے جشن دکھائی دے رہے تھے‘ اس دن پورا نیویارک سڑکوں پر تھا‘ لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پرامز میں بٹھا کر فٹ پاتھوں پر چل رہے تھے‘ شاپنگ بھی فرما رہے تھے مگر کسی جگہ کوئی ہڑبونگ یا افراتفری دکھائی نہیں دیتی تھی‘ لوگ سلیقے اور شائستگی کے ساتھ چل رہے تھے۔

نیوجرسی نیویارک کی ہمشیرہ ریاست ہے‘ دریائے ہڈسن دونوں کو الگ کرتا ہے‘ میں نے جرسی ریاست کے علاقے نیوپورٹ میں ہوٹل لے رکھا تھا‘ میرے ہوٹل کے بالکل سامنے سے پاتھ ٹرین مین ہیٹن جاتی تھی‘ میں ٹرین لیتا تھا اور دس منٹ میں بیٹی کے ہاسٹل کے سامنے پہنچ جاتا تھا‘ امریکا میں ہاسٹل کو ڈوم کہا جاتا ہے‘ ڈومز بہت مہنگے ہوتے ہیں لیکن ان میں تمام سہولتیں بھی ہوتی ہیں اور یہ طالب علموں بالخصوص بچیوں کے لیے بہت محفوظ ہوتے ہیں‘ چوبیس گھنٹے سیکیورٹی ہوتی ہے۔

 کوئی شخص وہ خواہ والد‘ والدہ یا بہن بھائی ہی کیوں نہ ہو وہ طالبہ کے کمرے میں نہیں جا سکتا‘ یونیورسٹی جانے اور واپس آنے کے اوقات بھی طے ہیں بس ان میں ایک خرابی ہے اور وہ حلال کھانا ہے‘ مسلمان بچوں اور بچیوں کو اس کے لیے بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے باقی یہ ہر لحاظ سے سیف اور زبردست ہوتے ہیں‘ ہم روزانہ بیٹی کے پاس چلے جاتے تھے اور اسے ساتھ لے کر نیویارک کے کسی نہ کسی علاقے کی طرف نکل جاتے تھے‘ نیویارک کی کرسمس واقعی دیکھنے لائق ہے‘ ہم چھ دن نیویارک میں گھومتے رہے اور اس کے بعد پیرس آ گئے‘ پیرس کی کرسمس بھی جوبن پر تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں