پاک بھارت یکطرفہ ٹریفک ختم

پاکستان نے بہت عمدگی سے اپنے تمام کارڈز شو کیے اور مسلسل بھارت پر دباؤ بڑھائے رکھا


سلیم خالق December 26, 2024

کراچی:

’’ مان لو یار میری عزت کا سوال ہے، ٹورنامنٹ نہیں ہوا تو ہمیں نقصان ہو جائے گا‘‘ چند برس قبل کی بات ہے جب پی سی بی کی ایک اعلیٰ شخصیت نے اس وقت کے بی سی سی آئی چیف جے شاہ سے یہ بات کہی، انھیں جواب ملا کہ ’’ٹھیک ہے میں اپنے بورڈ سے پوچھ کر بتاؤں گا‘‘۔

اس کے بعد بھارت مان گیا اور 2023 کا ایشیا کپ ہائبرڈ ماڈل کے تحت پاکستان و سری لنکا میں کھیلا گیا، اسے تاریخ کا سب سے بدترین ایونٹ قرار دیا جاتا ہے۔

ایک بورڈ آفیشل نے اپنے دوست اور فیملی کو چارٹرڈ فلائٹ سے ٹیم کے ساتھ کولمبو بھیجا، ’’ڈائٹ کوک‘‘ کے معاملے پر بیچارے بعض  آفیشلز کو بطور سزا پریذیڈنٹ باکس کے باہر کھڑے رہنا پڑا، اب تک بلنگ پر سری لنکا اور پاکستانی بورڈز کے اختلافات حل نہیں ہو سکے۔

موسم نے الگ مزا کرکرا کیا، میں بھی کولمبو گیا تھا جہاں ایک لمحے بھی محسوس نہیں ہوا کہ کسی بڑے ٹورنامنٹ کا انعقاد ہو رہا ہے، اسٹیڈیم میں بھی پاک بھارت میچ جیسا ماحول نہ تھا، بارش بھی درمیان میں آ گئی، البتہ بعض آفیشلز کو سیر کا موقع مل گیا۔ 

اسٹیڈیم کے ایک باکس میں ’’مشروب مغرب‘‘ کے ساتھ محفلیں بھی جمتیں، اس کے بعد جب ورلڈکپ کا وقت آیا تو ہماری ٹیم بھارت چلی گئی،بنگلور میں جب ایک مال میں میری ایک دکاندارسے بات چیت ہوئی تو اس کا طنزیہ لہجہ میں کہا گیا یہ جملہ میں اب بھی نہیں بھول سکتا کہ ’’ ہمارا دیش کرکٹ کا بگ باس ہے، انڈین ٹیم کبھی پاکستان نہیں جائے گی لیکن آپ لوگ ایسے ہی آتے رہیں گے‘‘۔

مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا لیکن موجودہ پی سی بی حکام بلکہ صرف چیئرمین محسن نقوی نے رائے تبدیل کر دی، کئی برس سے ہم لوگ ایک دوسرے سے یہی سوال کرتے تھے کہ  جب بھارتی ٹیم نہیں آ رہی تو ہماری ٹیم وہاں کیوں جاتی ہے، کیا کرکٹ ایونٹس کو بچانے کا ٹھیکا صرف ہم نے لیا ہوا ہے، محسن نقوی جب چیئرمین بنے تو لوگ بڑے حیران ہوئے کہ انھیں اتنی بڑی ذمہ داری کیسے سونپ دی گئی۔ 

پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے رضا راشد ان کے کلاس فیلو رہے ہیں اس وقت ان کا یہی کہنا تھا کہ ’’محسن نقوی میں انتظامی صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں وہ جس کام میں پڑیں اسے پورا کر کے دکھاتے ہیں، یہ ذمہ داری بھی بخوبی سنبھال لیں گے‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔

چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے نجانے کیوں اس بار پی سی بی کو یقین تھا کہ بھارتی ٹیم ضرور پاکستان آئے گی، البتہ ایسا ممکن نہیں لگتا تھا، کرکٹ کا مطلب عوامی سطح پر روابط کی بحالی ہے، ایسا دونوں ممالک کے باہمی تعلقات نارمل ہونے پر بالکل آخر میں ہوگا، بی سی سی آئی کو لگتا تھا کہ اس بار بھی پی سی بی آسانی سے ہائبرڈ ماڈل پر مان جائے گا۔ 

آئی سی سی کے ذریعے پیغام بھیجا گیا کہ ٹیم پاکستان نہیں آ سکتی، پھر دباؤ بڑھانے کیلیے خاموشی اختیار کر لی گئی، پی سی بی نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا سوچا اور کسی گھبراہٹ کا شکار نہ ہوا، وقت گذرنے لگا تو آئی سی سی کی پریشانی بڑھ گئی، جے شاہ بھی چیئرمین بننے سے قبل اس مسئلے کا حل چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا۔ 

پھر انھیں معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہونے لگا تو مذاکرات شروع کیے، پاکستان نے بہت عمدگی سے اپنے تمام کارڈز شو کیے اور مسلسل بھارت پر دباؤ بڑھائے رکھا، بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہائبرڈ ماڈل تو اب بھی اپنا لیا گیا فائدہ کیا ہوا؟

شاید ایسا محسن نقوی کے بغض میں کہا جا رہا ہے کیونکہ اگر حقیقت دیکھیں تو اس میں پی سی بی فاتح نظر آتا ہے، سب سے پہلے آپ ٹھنڈے دل سے یہ سوچیں کہ حالات میں ایسی کیا بہتری آ گئی کہ نریندر مودی اپنی ٹیم کو پاکستان جانے کی اجازت دے دیتے، کسی بچے سے بھی پوچھیں وہ بتا دے گا کہ بی جے پی کے دور میں اس کا کوئی امکان نہیں ہے، ایسے میں کوئی بھی چیئرمین ہوتا اسے ہائبرڈ ماڈل پر ہی جانا پڑتا۔ 

البتہ نئی بات یہ ہے کہ پاکستان نے ایک ایسا معاہدہ کر لیا جس سے دونوں ممالک کی ٹیمیں تین سال تک ایک دوسرے کے ملک میں کسی بھی ایونٹ کے میچز کہیں اور کھیلیں گی،اس سے قبل تویکطرفہ ٹریفک چلتا تھا، پھر ایک ویمن ٹورنامنٹ کی میزبانی پی سی بی کو مل گئی جس سے بہت زیادہ تو نہیں البتہ کسی حد تک آمدنی بھی ممکن ہو گی، ساتھ ایک سہ ملکی یا چار ملکی ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی ہوسکتا ہے۔ 

بھارتی بورڈ کو تو اپنے ملک میں بْرا بھلا کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، ہمیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ سر وقار سے بلند ہی رہا، پہلی بار پی سی بی نے اپنی طاقت کا احساس کیا اور آئی سی سی و بھارت دونوں کو بتایا کہ اسے ہلکا نہیں لیا جا سکتا، بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے۔ 

وہ اگر چاہتی کہ پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں تو ٹیم کو جانے دیتی مگر اسے ایسا کرنا ہی نہیں ہے، جب ہماری ٹیم وہاں گئی تو بھی آپ کو یاد ہوگا کہ ویزے سے لے کر کئی دیگر معاملات میں کتنے مسائل ہوئے،کسی ایک شائق کو بھی ویزا نہیں دیا گیا، جو صحافی بھارت جا سکے ان کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ 

جب میں نے سرحد پار کی تو پہلے پاکستان اور پھر بھارتی سائیڈ کے واہگہ بارڈر کا دروازہ صرف میرے لیے کھلا، یہ خوشی نہیں افسوس کا لمحہ تھا کہ پڑوسی ملکوں کی سرحدیں تو ملی ہوئی ہیں مگر دل دور ہو گئے ہیں۔

خیر اب 2026 کے ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم سری لنکا میں اپنے میچز کھیلے گی لہٰذا ویزے وغیرہ کا مسئلہ  ہی نہیں ہوگا،اب پاکستان اور بھارت کے ایونٹس سے قبل غیریقینی بھی کم ہوگی، بھارت خوش کہ ٹیم پاکستان نہیں بھیج رہے، پی سی بی بھی خوش کہ اس بار ٹکر کا مقابلہ ہوا اور ہمارے مطالبات مان لیے گئے۔ 

البتہ اس میں نقصان دونوں ممالک کے شائقین کا ہوا جو کرکٹ کے ذریعے جڑ سکتے تھے لیکن اب خلیج مزید وسیع ہو جائے گی، کوہلی اور روہت کو سامنے ایکشن میں دیکھنے کے بجائے پھر ٹی وی پر دیکھنا ہوگا، بھارتی شائقین بھی بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے کھیل کو اپنے سامنے نہیں بلکہ ٹی وی اسکرین پر دیکھیں گے، یہ کرکٹ کے لیے شرمناک ہوگا لیکن جب تک بھارتی حکومت کے رویے میں کوئی لچک نہیں آتی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں