کھلے آسمان تلے سرد موسم کی سختیوں کو برداشت کرتے شہری

شہر قائد میں ایک طبقہ ایسا بھی یے جن کے پاس چھت یا شیلٹر نہیں یے، ان کے گھر فٹ پاتھ ہیں

کراچی:

کراچی میں اس وقت موسم سرد ہے جہاں رات کے اوقات میں سڑکوں اور محلوں میں سناٹا نظر آتایے، جن شہریوں کے پاس رہائش کی سہولت  ہے، وہ تو سرد موسم میں رات گزارنے کے لیے گرم بستر، گدے، لحاف، کمبل اور تکیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

لیکن ان سہولیات کے حامل شہریوں کے علاوہ شہر قائد میں ایک طبقہ ایسا بھی یے جن کے پاس چھت یا شیلٹر نہیں یے، ان کے گھر فٹ پاتھ ہیں، کھلے آسمان تلے سرد موسم کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے یہ  طبقہ اپنی رہائش کو " فٹ پاتھ گھر " کہتا ہے، ان بے گھر افراد کا اوڑھنا اور بچھونا ہی فٹ پاتھ  ہے، ان کا بستر گتے کے ٹکڑے اور اوڑھنا،  بوریاں یا ناکارہ  پینا فلیکس ہیں۔

شہر کی شاہراہوں اور مارکیٹوں کے فٹ پاتھ  دن میں لوگوں کے گزرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور رات میں بے گھر افراد کی عارضی رہائش گاہوں میں تبدیل ہوجاتے ییں جہاں رات کو ان بے گھر افراد کی اپنی دنیا ہوتی یے۔

یہ بے گھر افراد منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی مخیر شخص آکر ان کو سردی سے بچالے، کوئی کمبل، گدا یا لحاف فراہم کردے تاکہ وہ سردی کی سختی برداشت کرکے اپنی زندگی کو محفوظ بناسکیں۔

ایکسپریس نے کراچی کے سرد موسم میں بےگھر اور فٹ پاتھ کے مکینوں پر رپورٹ مرتب کی ۔
بوہرا پیر میں ایک ریسکو ادارے کے انچارچ نثار احمد نے بتایا کہ کراچی میں  بڑھتی مہنگائی .گھریلو۔معاشی ۔خاندانی سمیت مختلف مسائل کی وجہ سے بےگھر افراد کی تعداد میں گذشتہ چند برسوں کی نسبت اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ بے گھر افراد بزرگ ۔مردوخواتین ۔بچے شامل ہیں۔ان میں کئی افراد ایسے ہیں جو نشہ کے عادی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر بےگھر افراد کیماڑی۔اولڈ سٹی ایریا۔سول اسپتال۔صدر ۔لائنزایریا۔کالا پل ۔کورنگی ۔لانڈھی ۔ملیر ۔قائد آباد ۔پرانی سبزی منڈی۔لیاقت آباد۔اورنگی ٹاوٴن۔لسبیلہ ۔پاک کالونی۔لیاری۔نیوکراچی ۔سرجانی ٹاون۔گلستان جوہر ۔شاہ فیصل ۔سہراب گوٹھ سمیت دیگر علاقوں میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ان کی رہائش فٹ پاتھ یا پلوں کے نیچے حصہ میں ہوتی ہیں۔یہ بے گھرلوگ فٹ ہاتھ کے مکین کہلاتے ہیں۔دن میں ان میں کئی بے گھر افراد محنت مزدوری کرتے ییں کئی بھیک مانگتے ہیں۔ان کے لیے رات بسر کرنے کا مقام فٹ پاتھ ہوتا ہے۔یہ ہر موسم کی سختی برداشت کرتے ہیں۔ان بے گھر افراد کے حوالے سے کوئی مستند ڈیٹا نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ شہر کی شاہرائوں اور مارکیٹوں کے یی فٹ پاتھ دن میں لوگوں کے گزارنے روزگار اور رات میں بے گھر افراد کی عارضی رہائش گاہوں میں تبدیل ہوجاتی ییں۔جہاں رات کو ان گھر افراد کی اپنی دنیا ہوتی یے۔

جامع کلاتھ پر مزار کے قریب بے گھر افراد کو رات گئے کھانا تقسیم کرنے والے ایک فلائی ادارے کے رکن محمد نعیم نے بتایا کہ آج کل کراچی میں سرد موسم یے ۔جن شہریوں کے پاس رہائش کی سہولت ہے وہ تو اپنے آپ کو سردی کی شدت سے بچانے کے لیے گرم کپڑے ۔بستر ۔گدے ۔لحاف ۔کمبل اور تکیے استعمال کرکے نیند کے مزے لیتے ہیں۔اصل تکالیف تو ان بے گھر افراد کو ہے جو فٹ پاتھ کے مکین ہیں۔یہ سرد موسم میں کھلے آسمان تلے رات گزارتے ہیں ۔ان کا بستر گتے کے ٹکڑے ۔اوڑھنے کے لیے اونی یا پلاسٹک بوریاں یا پرانی  شیٹ یا پرانے پینا فیکس ہوتے ہیں۔کچھ افراد کو مخیر حضرات کمبل۔گدے ۔لحاف یا گرم کپڑے عطیہ کرتے ہیں۔لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے۔اس برس سردی میں  گرم کپڑے لحاف اور بستر دینے والے مخیر حضرات نے امداد کا سلسلہ کم کردیا ہے۔

رات کے اوقات میں اولڈ سٹی ایریا میں رکشہ چلانے والے لیاری کے رہائشی بشیر احمد نے بتایا کہ سردی میں بے گھر افراد امداد کے منتظر ہیں۔سردی کی وجہ سے فٹ پاتھ پر رات بسر کرنے والے بزرگ افراد ۔بچوں اور خواتین کو بہت پریشانی یے ۔یہ بے گھر افراد سردی سے کانپتے ہیں۔

رنچھور لائن میں فٹ ہاتھ پر اپنی زندگی بسر کرنے والی 60 سالہ  لیلی خاتون نے بتایا کہ ان کو گھر چھوڑے کئی برس ہوگئے ہیں وہ اس ہی فٹ پاتھ کو اپنا گھر سمجھتی ہیں ۔دن میں لوگ مدد کردیتے ہیں۔رات کو زندگی فٹ ہاتھ پر گذارتے ہیں۔یہ ہی ہمارا گھر ہے ۔میرے پاس گدا نہیں یے۔گتے کے ٹکڑوں کوجوڑا یے اس سے بستر بنایا یے ایک مخیر شخص نے گرم شال دی وہی لحاف کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔بس اس ہی فٹ ہاتھ کے مکین ہی ہمارا خاندان ہیں ۔ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ آجکل سردی بہت ہے ۔حکومت یا مخیر حضرات ہمیں لحاف یا کمبل دے دیں یہ ہی ہماری درخواست ہے۔

صدر کے فٹ ہاتھ پر 70 سالہ بزرگ احمد جو ایک پرانی چادر اور بوری اوڑھ کر آرام کررہے تھے انہوں نے بتایا کہ ہر بے گھرشخص کی اپنی کہانی یے۔دن میں ہوٹل پر برتن دھوتا ہوں کھانا مل جاتایے۔میرا مکان یہ ہی فٹ پاتھ ہے۔انہوں نے بتایا کہ سردی سے بچنے کے لیے پرانے کاغذ ۔لکڑی کے ٹکڑوں کی مدد سے آگ سے گرمائش حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ آگ کی گرمی سے کچھ سکون اور سردی کم لگتی ہے۔

ریسکو ادارے  کے ترجمان چوہدری شاہد نے بتایا کہ بے گھر کو سردی کے موسم لحاف کمبل ۔گدوں سمیت گرم کپڑوں کی ضرورت یے۔سردی کی وجہ سے کئی بے گھر انتقال کرجاتے ہیں۔ان کی تدفین ہمارا ادارہ کرتا یے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کو چاہے کہ وہ کئی مقامات پر بے گھر افراد کے لیے پناہ گائیں یا عارضی شیلٹر قائم کردے۔مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ کراچی سردی کے اس موسم میں بے گھر افراد کی امداد کریں۔کیونکہ وہ فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کے منتظر ہیں کہ وہ کب سردی کی شدت سے ان گھر افراد کو بچانے کے لیے آئیں گے ؟۔ ایک گدا اور ایک کمبل ایک بے گھر فرد کی زندگی کو بچاسکتا یے۔زیادہ سے زیادہ یہ دونوں اشیاء  2 ہزار روہے یا اس سے زائد کا ہوگا۔

Load Next Story