دنیا بھر میں جیسے ہی کرسمس سیزن شروع ہوتا ہے مسیحی عوام کی خوشی دیدنی ہوجاتی ہے۔ مغرب میں تو کرسمس کی تقریبات دسمبر شروع ہوتے ہی شروع ہوجاتی ہیں اور نئے سال کی آمد تک یہ تقریبات جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہیں۔
مسیحیوں کا ماننا ہے کہ ہر انسان جب کرسمس کی خوشی اپنے اندر محسوس کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے اندر سے گویا بدامنی، برے خیالات، نفرت، تشدد، دوسروں کو حقیر اور کمتر سمجھنے کا رویہ ختم ہورہا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر جیسے ہی کرسمس اور نیا سال ختم ہوتا ہے انسان جیسے اپنی پرانی روش پر لوٹ آتا ہے اور اُس کے اندر وہی بد امنی، دوسروں کےلیے حقارت اور تحقیر، کمزوروں پر ظلم و جبر اور اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا رویہ گویا پر لگا کر واپس آجاتا ہے اور اُس میں ’’میں‘‘ کا واضح اثر دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے امن پسند مسیحی معصوم سی خواہش کرتے ہیں کہ کرسمس کا سیزن سال بھر چلتا رہے اور کبھی ختم ہی نہ ہو۔
کرسمس کے معنی خوشی، اُمید، امن اور سلامتی ہے، مسیحی خوشی اور سلامتی کے اس تہوار کو دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ منانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مغرب میں آپ کو روزمرہ کی اشیاء، ملبوسات، گروسری، سیروتفریح کےلیے تفریحی مقامات پر فری انٹری وغیرہ کی مثالیں واضح طور پر نظر آئیں گی اور یہ تمام رعایتیں صرف مسیحیوں کےلیے نہیں بلکہ اُن ملکوں میں رہنے والا ہر انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب، فرقے، رنگ، نسل یا جنس سے ہو، فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ کرسمس کو مذہبی تہوار کے ساتھ ساتھ ثقافتی تہوار کی حیثیت بھی حاصل ہوچکی ہے، جس کا انتظار ہر سال ہر شخص کو ہوتا ہے۔
خداوند یسوع مسیح کی پیدائش خدا تعالیٰ کے اس عظیم منصوبے کے مطابق تھی جس کے مطابق وہ دنیا میں نجات دہندہ کو بھیجنا چاہتے تھے کہ وہ انسانوں کو ان کے گناہوں سے مخلصی دے، وہ کچلے ہوؤں کو کھڑا کرے، وہ لوگو ں کو اُن کے گناہوں سے آزاد کرے۔ اس کی بادشاہی اس فانی دنیا کی، بلکہ آسمان کی بادشاہی تھی جسے اُس وقت کے حاکم سمجھ نہیں سکے اور حیرت انگیز طور آج تک انہی حکمرانوں کی نسلیں ’’مسیح‘‘ کو ماننے سے انکاری ہیں۔ میں جو مذہب کا محدود علم رکھتا ہوں میرا ماننا ہے کہ ’’مسیح‘‘ کی آمد ثانی بھی ایک بھید کی مانند ہے جسے سمجھنا خداوند کی دی گئی حکمت کے بغیر ممکن نہیں۔
مسیح کا غریب گھر میں پیدا ہونا اس بات کی علامت تھی کہ خدا غریبوں کو بہت پسند کرتا ہے اور ’’مسیح‘‘ نے واضح طور پر کہا کہ ’’غریب خدا کی بادشاہی کے وارث ہیں‘‘۔ لیکن اگر دنیاوی طور پر دیکھا جائے تو ہر غریب کی تمام عمر دوڑ دھوپ امیر بننے کی ہوتی ہے جس میں وہ کسی نہ کسی شکل میں اپنے سے کمزوروں کا استحصال کر رہا ہے۔ آپ اس کا بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ آپ نچلی سطح سے اوپر یا اوپر سے نچلی سطح پر دیکھیں تو آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ ہر طاقتور دوسروں کا استحصال کرتا نظر آئے گا، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر، یا کوئی ملک ہو، استحصال کسی نہ کسی شکل میں کمزوروں کے ساتھ ضرور کیا جارہا ہوگا۔ ہر طاقتور ملک دوسروں کو دباتا نظر آئے گا۔ گھروں میں مالی طور پر تگڑا بہن بھائی کمزور کی ہر بات کو غیر اہم سمجھے گا۔ پنچایتوں میں غریب بندے کی بات چاہے وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو، اُسے پھٹکار ہی ملے گی۔ جو مسیح کی تعلیم کے بالکل برعکس ہے۔
آپ بغور مشاہدہ کیجیے، آپ دیکھیں گے کہ ’’مسیح‘‘ کی ساری زندگی اُمید، امن اور سلامتی کے گرد ہی گھومتی ہے جس میں کسی سے نفرت کی کوئی گنجائش نہیں اور اُنہوں نے ہمیشہ معاف کرنے کی ترغیب دی، جس کی مثالیں دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی دیتے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کے فلسفے کی بنیاد بھی مسیح کی معاف کرنے کی تعلیم سے لی، جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے رہے۔
یسوع کی ولادت کے بعد آپ دنیا میں واضح تبدیلیاں ملاحظہ کیجیے۔ مسیح کی آمد کے بعد دنیا کو قبل از مسیح اور بعد از مسیح کہا جانے لگا۔ عیسوی کیلنڈر شروع کیا گیا۔ مسیح کی دشمنوں کو معاف کردینے کی تعلیم سے دنیا حیران ہوگئی اور آج بھی مسیحیت کو اسی تعلیم کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ دنیا میں عدم تشدد کے فلسفے کو نئے زاویے سے دیکھا جانے لگا۔ دنیا مسیح کی ایسی تعلیم سے چونکنے پر مجبور ہوگئی جس میں صرف غریبوں کےلیے خوشخبری کی بات کی گئی تھی۔
کرسمس سوال کرتا ہے کہ موجودہ دور میں مسیحی پوری دنیا میں تعداد میں سب سے زیادہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مسیح کے طرز عمل پر چلنے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن کیا عملاً اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں؟ حالانکہ بائبل مقدس میں ایک واقعے میں واضح طور پر درج ہے کہ مسیح نے اُس عورت کو جسے فقہی فریسی بدکاری کے باعث سنگسار کرنے کو تھے، سوال کیا کہ جو خود بے گناہ ہو وہی اُس عورت کو پتھر مارے اور حیرت انگیز طور پر کوئی بھی اُس عورت کو پتھر نہیں مار سکا۔ لیکن آج کے اس دور میں گناہوں سے لبریز ہوتے ہوئے ہم تمام وہی کام کررہے ہیں جن سے مسیح نے ممانعت فرمائی تھی۔ ہم انسان گناہوں میں گھرے ہوئے، عیش و عشرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے ہی جیسے کمزور انسان کو کمتر، حقیر اور اُس کا تمسخر اڑانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی عبادات کے دوران اپنی ہی کلیسیا کو غلط ثابت کرنا، انہیں ڈرانا، انہیں جہنم کا خوف دلانا اور انہیں کسی بھی حالت میں ’’دہ یکی‘‘ دینے کےلیے مجبور کرنا اب معمول بن چکا ہے۔ ہم ہر بات میں کہتے ہیں کہ ’’میں‘‘ ٹھیک ہوں باقی سب انسان غلط ہیں۔
یہ ایسے عام رویے ہیں جن کا ہم ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں اور اُس کے بعد بھی ہم مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو کہ مسیح کی تعلیم کے بالکل منافی ہے۔ کرسمس سوال کرتا ہے کہ ایسے رویے کے ساتھ کیا ہم کرسمس کی خوشیاں منا سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے اندر سے ’’میں‘‘ نکالے بغیر مسیح کا رول ماڈل بن سکتے ہیں؟
آئیے کرسمس کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کےلیے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر عہد کریں کہ تبدیلی کا عمل ہم اپنے آپ سے شروع کریں گے۔ ہم اپنی اپنی سطح پر غریبوں کو بھی کرسمس کی خوشیوں میں شامل کریں گے۔ ہم اپنے اندر سے ’’میں‘‘ کو ختم کرکے تمام لوگوں کو احترام دیں گے اور ہم مسیح کے اہم پیغام ’’معافی‘‘ کو اپنے اندر سموتے ہوئے عملی طور پر اس کا ثبوت دیں گے۔ ایسا کرکے ہی ہم بڑے دن (کرسمس) کو منا سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔