حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا، مفہوم: ’’جس نے اﷲ کے لیے عجز و انکساری کا رویہ اختیار کیا تو اﷲ تعالیٰ اسے بلند کرے گا۔
وہ اپنے خیال اور اپنی نگاہ میں تو چھوٹا ہوگا لیکن خدا اور بندوں کی نگاہوں میں عظمت والا ہوگا۔ اور جو کوئی تکبّر اور بڑائی کا رویہ اختیار کرے گا تو اﷲ تعالی اسے نیچے گرا دیں گے وہ عام لوگوں کی نظروں میں ذلیل اور حقیر ہوگا۔ اگرچہ خود اپنے خیال میں بڑا ہوگا اور دوسروں کی نگاہوں میں کتّے اور خنزیر سے زیادہ بے وقعت اور ذلیل ہوگا۔‘‘
جب اﷲ تعالیٰ نے انسان کو نعمتیں عطا فرمائیں تو اس سے متعلق انسانی کردار کی خوب تربیت فرمائی کہ دیکھو یہ نعمتیں میرے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق استعمال کرو اور میرا شکر ادا کرو۔ اگر میں یہ نعمتیں واپس لے لوں تو صبر کرو۔ اور جب میں یہ نعمتیں دوں تو اسے اپنے زور بازو اور اپنی محنت کا کمال نہ سمجھنا بل کہ یہ میرا فضل و کرم ہے اور دیکھو! تمہیں تو نعتیں مل گئیں ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس نعمتیں نہیں ان کو حقیر مت سمجھنا اور خود تکبّر میں مبتلا نہ ہوتا۔ نعمتیں ملنے پر اتنا اترانا نہیں، شیخی میں نہ آنا۔
شیخی کا مطلب ہوتا ہے بڑائی، گھمنڈ۔ اردو میں اس کے بعض محاورے بولے جاتے ہیں۔ جیسے شیخی بگھارنا، شیخی مارنا اور شیخی میں آنا یعنی اپنی بڑائی ظاہر کرنا، اپنی تعریف کرنا، ڈینگیں مارنا، اترانا اور اپنے آپ پر گھمنڈ کرتے ہوئے اپنے کو برتر اور دوسرے کو حقیر سمجھنا۔ دراصل غرور اور تکبّر کے نتیجے میں انسان شیخی کے انداز اپناتا ہے۔
کبھی انسان اپنے آپ کو مال و دولت میں دوسروں سے زیادہ سمجھتا ہے، کبھی علم یا عبادت میں اپنے آپ کو زیادہ درجہ والا سمجھنا شروع کر دیتا ہے، کبھی خاندان اور برادری کی وجہ سے بڑائی میں مبتلا ہو جاتا ہے، کبھی دنیا کے مرتبے اور عہدوں کی بڑائی میں دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنے لگتا ہے۔
جس کے نتیجے میں انسان اﷲ تعالی کے پسندیدہ افراد کی فہرست میں سے نکل جاتا ہے۔ اب ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ آخر جب انسان کو کوئی عہدہ ملتا ہے، کوئی نعمت نصیب ہوتی ہے یا کوئی اچھے کپڑے پہنے تو دل میں اچھا ہونے کے خیالات کا پیدا ہونا فطری بات ہے تو کیا یہ کوئی بری بات ہے۔۔۔ ؟ اس سوال کا جواب رسول اکرم ﷺ نے عطا فرمایا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے صحیح مسلم میں روایت منقول ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص کے دل میں ذرّہ برابر بھی تکبّر ہوگا وہ جنّت میں نہیں جائے گا تو ایک شخص نے عرض کیا: ایک شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک! اﷲ جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند کرتا ہے لیکن تکبّر یہ ہے کہ حق بات کو جھٹلانا اور دوسرے لوگوں کو حقیر سمجھنا۔
اس سے معلوم ہُوا کہ نعمت ملنے پر خوش ہو جانا اچھی بات ہے لیکن پھر دوسروں کو حقیر سمجھنا اور اس نعمت پر اترانا گناہ ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہوں ان کے بارے میں لوگوں کو بتانا بھی شیخی مارنا نہیں کہلاتا بل کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ ﷺ کو اس بات کی تعلیم دی کہ اﷲ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو بیان کرو۔ لیکن بیان کرنے کا سلیقہ یہ سکھایا کہ اس میں مجھے یہ نعمت ملی ہے اور پھر ملنے والی نعمت کے ذریعہ دوسرے انسانوں کے کام آئے، والدین، رشتے دار، ہمسائے کے حقوق ادا کرے تو پھر انسان شیخی کے ہر انداز سے بچ جاتا ہے۔
ماہرین نفسیات نے اس پر خوب تحقیق کی ہے جو انسان معاشرے میں شیخی بگھارتا ہے وہ دراصل احساس کم تری میں مبتلا ہوتا ہے اور شیخی کے انداز اپنانے والے شخص کی معاشرے میں کچھ بھی عزت نہیں ہوتی۔
امام عزالیؒ نے شیخی مارنے کے مختلف انداز و اطوار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل علم اور عبادت گزار لوگوں کے شیخی مارنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: جب کسی کو علم نصیب ہوتا ہے تو اس کے منہ سے یہ جملے نکلتے ہیں کہ دیکھیں فلاں شخص کو یہ بات بھی معلوم نہیں اور اسے تو یہ بھی پتا نہیں۔ گویا وہ اپنے ہم مجلسوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ مجھے یہ سب کچھ معلوم ہے۔
اسی طرح شیخی کا یہ انداز بھی انسان کو دوسرے انسان کی نگاہوں سے گرا دیتا ہے کہ جب پابندی سے نماز پڑھنی شروع کی تو اب لوگوں کے سامنے اس میں شیخی کا انداز یہ آجاتا ہے کہ دیکھیں فلاں نمازیں نہیں پڑھتا، یعنی میں پڑھتا ہوں۔ یا حج اور عمر ہ کر کے انسان آئے تو زبان سے یہ کلمات نکلنے لگیں کہ دیکھیں فلاں کے پاس اتنا پیسا ہے لیکن حج نہیں کرتا۔ اب ایسا انسان معاشرہ میں اپنی قدر کھو دیتا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: ’’بُرا ہے وہ شخص جو شیخی کے انداز اپنائے اور تکبّر کرے۔‘‘ یہ تو جب تھا کہ انسان کے اندر وہ خوبیاں ہوں لیکن جب شیخی کے انداز اپنانے کی عادت پڑ جاتی ہے تو پھر انسان جھوٹ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے ڈینگیں مارنے والے شخص کو جب اس کام میں مزہ آنے لگتا ہے تو پھر وہ اپنی طرف ایسی خوبیاں اور بڑائیاں منسوب کر لیتا ہے جو اس میں نہیں ہوتیں اور اس طرح دو جھوٹ بولنے کا بھی مرتکب ہو جاتا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے اس کیفیت کی بھی اصلاح فرمائی اور فرمایا کہ جب انسان اپنے بارے میں ایسی خوبیاں بیان کرنے لگتا ہے جو اس میں نہیں ہوتیں تو پھر یعنی اﷲ تعالی اس پر ایسی آزمائش ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے رسوا ہو جاتا ہے اور سارا پول کھل جاتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ایسے شخص کی کچھ بھی عزت نہیں رہتی۔ درحقیقت جب بندہ اﷲ کے پسندیدہ افراد میں سے نکل گیا تو اﷲ کے بندوں کے دلوں میں اس کی عزت کیسے ہوگی۔