اسرائیل غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا

حماس نے اسرائیل کے ان مطالبات کو مسترد کردیا ہے۔


ایڈیٹوریل December 27, 2024

قطر، امریکا اور مصرکی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ سے انخلاء جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کے حوالے سے نئی شرائط جنگ بندی معاہدے میں تاخیرکی وجہ بن رہی ہیں۔

دوسری جانب غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا تسلسل نہ صرف برقرار ہے، بلکہ اس میں مزید شدت آگئی ہے، اسرائیل نے مزید تیئس فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ اب تک اسرائیلی حملوں میں پینتالیس ہزار فلسطینی شہید اور سوا لاکھ کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔

 جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے مذاکرات بار بار رکاوٹوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ گو ایک طویل تعطل کے بعد بحال ہونے والے مذاکرات نے 14 ماہ سے جاری لڑائی میں جنگ بندی کی امید پیدا کی ہے۔ تاہم، مذاکرات کے تازہ ترین دور میں دونوں جانب سے پیش رفت کے حالیہ بیانات اور ثالثوں کی طرف سے اس سلسلے میں مسلسل حمایت کے باوجود معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کا سامنا ہے، کیونکہ غزہ میں دو اسٹریٹجک راہداریوں پر دیرپا کنٹرول کے اسرائیلی مطالبے کو حماس نے طویل عرصے سے مسترد کردیا ہے۔

مذاکرات میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ، مصرکی سرحد کے ساتھ ایک تنگ بفر زون میں فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی غزہ کو جنوب سے منقطع کرنے والا نیٹزارم کوریڈور کے کنٹرول کا مطالبہ میں شامل ہے۔ حماس نے اسرائیل کے ان مطالبات کو مسترد کردیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے مطالعہ کی گئی جنگ بندی کی تجویز کے پہلے مسودوں میں راہداریوں پر اسرائیل کا کنٹرول برقرار رکھنے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

 اگر جنگ بندی کی کوششیں ناکام رہتی ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یرغمالیوں کی بیشتر تعداد اسرائیلی حملوں ہی سے ہلاک ہوجائے گی۔ اسی طرح حماس کو ختم کرنے کا نیتن یاہوکا خواب بھی کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا آغازکیا ہے، 45 ہزارسے زائد فلسطینیوں کی شہادت، 80 فیصد سے زائد رہائشی عمارتوں کی تباہی ’’بھوک‘‘ بیماری اور بے سرو سامانی کے باوجود غزہ کے شہریوں میں حماس کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے۔

شمالی غزہ، جہاں سے اسرائیلیوں نے فلسطینی باشندوں کو جنوب میں دھکیل دیا ہے، اب بھی اسرائیلی فوجیوں کے لیے محفوظ نہیں ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے، حماس کا عسکری ونگ ’’ القسام‘‘ وہاں حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بیرونی حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ غزہ میں تباہی مچا کر اسرائیل حماس کو ختم نہیں کر سکتا۔ خود اسرائیلی وزیر دفاع کا بیان ہے کہ حماس کو ختم کرنا ناممکن ہے۔

جہاں تک غزہ میں اسرائیلی فوجی دستوں کی تعیناتی کا سوال ہے، تو اس سلسلے میں اسرائیل کو غزہ میں خود اپنے ماضی کے تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ 1967سے پہلے غزہ کی پٹی مصرکا حصہ تھی۔ جنگ کے دوران اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا اور یہاں یہودی آباد کاروں کے لیے بستیاں تعمیر کرنا شروع کردیں، لیکن فلسطینیوں نے تحریک مزاحمت شروع کردی اور 2005 میں اسرائیل کو غزہ سے پسپا ہونا پڑا، مگر اب اسرائیل دوبارہ اس پر فوجی قبضے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیل کی اس کوشش کی پوری دنیا مخالفت کررہی ہے۔ خود امریکا بھی غزہ میں اسرائیل کے ہر قسم کے قبضے کے خلاف ہے مگر اسرائیلی وزیراعظم حکومت میں شامل انتہا پسند یہودیوں کے دباؤ میں ہیں، اس لیے وہ غزہ میں مستقل جنگ بندی نہیں چاہتے اور غزہ پر اپنا دباؤ جاری رکھنے کے لیے وہاں فوج کی موجودگی چاہتے ہیں۔

 مبصرین کی رائے میں اسرائیل پہلی اسرائیل عرب جنگ (1948) کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔ اس جنگ میں یہودیوں نے اسرائیل میں شامل فلسطینی علاقوں میں آباد تقریباً 8 لاکھ عرب باشندوں کو اپنے گھر بار اور جائیدادیں چھوڑنے پر مجبورکردیا تھا۔ ان فلسطینی باشندوں نے صہیونیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ہمسایہ عرب ممالک شام، لبنان، اردن اور مصر میں پناہ لی تھی اور اب تک کیمپوں میں پناہ لیے بیٹھے ہیں۔

اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے اپنے گھروں اور وطن کی طرف واپسی کا حق تسلیم کیا جا چکا ہے مگر اسرائیل اسے تسلیم نہیں کرتا کیونکہ وہ فلسطین میں ایک ایسی ریاست کا قیام چاہتا ہے، جس کے شہری صرف یہودی ہوں۔ 1967 کی جنگ میں بھی اسرائیل نے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں میں آباد فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے اور پہلے کی طرح ہمسایہ عرب ممالک کی طرف بھاگنے پر مجبورکرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس دفعہ مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی باشندوں نے اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود اپنے گھر بارکو چھوڑنے سے انکارکردیا، تاہم اسرائیل نئی یہودی بستیاں بسانے اور دیگر طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوششوں سے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں پر ان کے وطن کی زمین تنگ کرنے کے درپے ہے۔

غزہ کے باشندوں کو بھی ڈر ہے کہ 1948 کی طرح اس دفعہ بھی اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر کے اور نئی یہودی بستیاں تعمیر کر کے اسے اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ غزہ کی موجودہ تیئس لاکھ سے زیادہ آبادی کا 70 فیصد حصہ اُن فلسطینیوں کی اولاد ہے جنھوں نے 1948میں فلسطینی علاقوں سے بھاگ کر غزہ میں پناہ حاصل کی تھی۔ اس وقت غزہ مصر کا حصہ تھا مگر 1967کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1993 میں اوسلو معاہدے کے تحت جب فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی تو مغربی کنارے کے ساتھ غزہ کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا، تاہم اسرائیل نے غزہ پر اپنا قبضہ 2005 میں ختم کیا تھا۔

نیتن یاہو اور اس کے انتہا پسند ساتھیوں کا موقف ہے کہ 2005 میں غزہ کو خالی کرنا ایک غلطی تھی۔ اس غلطی کا انھیں سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اچانک حملے کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ دوبارہ ایسا حملہ روکنے کے لیے وہ غزہ میں رہنے والے فلسطینی باشندوں پر زمین تنگ کرنے کے لیے مستقل فوجی قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اسرائیل کی ان کوششوں کے خلاف نہ صرف حماس کی طرف سے سخت مزاحمت کی جائے گی بلکہ مصر اور قطر بھی، جو اب تک حماس پر نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے آئے ہیں، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور غیر لچکدار رویے کے باعث اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اس لیے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا حصول روز بروز مشکل اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کے لیے نت نئی شرائط پیش کرنا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا۔یہاں تھوڑی دیر رُک کر اسرائیلی وزیرِ اعظم اور امریکا کی جانب سے جاری شدہ بیانات کے لب و لہجے اور الفاظ پر توجہ دے لی جائے تو مستقبل کا منظر نامہ خود بہ خود واضح ہو جاتا ہے، اگر اس معاملے کو گہرائی میں جاکر سمجھنا ہوتو ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔

سازشوں، دھونس اور دھمکی سے قائم کی گئی اسرائیل کی ناجائز ریاست اور فرزندِ زمین، یعنی فلسطینیوں کے درمیان جوکش مکش کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس سے عالمی برادری بہ خوبی واقف ہے۔ اس کشیدہ صورت حال کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل کی جانب سے اس کے توسیع پسندانہ عزایم کے تحت فلسطینی علاقوں میں قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کی بستیاں آباد کرنا ہے۔ مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پرکبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ناجائز حمایت ہے۔

اس حمایت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیش ترکثیرالقومی تجارتی ادارے، بینکس، دیگر مالیاتی ادارے اور ذرایع ابلاغ کے زیادہ تر بڑے ادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ پھر یہ کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست اور عربوں کوکنٹرول کرنے کے ضمن میں امریکا کے لیے پولیس مین کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہودی امریکا اور یورپ کی معیشت اور سیاست پر بھرپور کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیش تر ممالک کی حکومتیں بنانے اور گرانے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مالی، سیاسی اور ابلاغی اعتبار سے ایسے طاقتور ملک کو کون ناراض کرناچاہے گا؟

 غزہ پر اسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔ غزہ ایک تنازع نہیں بلکہ فلسطین کے لوگوں کا منظم قتل عام ہے۔ اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں اور اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریروں سے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں جنگ کے پھیلاؤ کی ہولناک پالیسی کو بدلے گا؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی طاقت ہے جو اسرائیل کو مزید انسانوں کا خون پینے سے روک سکے؟ اس کا جواب اس وقت تو ’’نہیں‘‘ میں لگ رہا ہے کیونکہ اسرائیل کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں