مشرقِ وسطیٰ میں جاری کنفلکٹ conflict میں دو بنیادی فریق ہیں،حماس اوراسرائیل ۔یہ کنفلکٹ یوں تو سات دہائیوں سے اوپر مشرقِ وسطیٰ کے امن کو خطرات سے دوچار کیے ہوئے ہے لیکن 7اکتوبر2022 کو غزہ کی انتظامیہ یعنی حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے اس کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
اس حملے میں گیارہ سو پچاس اسرائیلی مارے گئے اور کئی ایک زخمی ہوئے۔اسی طرح دو سو پچاس سے اوپر اسرائیلیوں کو اغوا کر کے غزہ منتقل کر دیا گیا۔اغوا ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک رہا نہیں کروائی جا سکی۔حماس نے یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا جب اسرائیل و امریکا نے عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر فلسطین کے مسئلے کو پسِ پشت ڈلوا دیا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ ابراہام اکارڈ کی آڑ میں یکے بعد دیگرے عرب ممالک اور بتدریج مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لیں گے،فلسطین کا مسئلہ داخل دفتر ہو جائے گا اور یوں اسرائیل اور امریکا کی مرضی سے فلسطینیوں کی ریاست دنیا کی یاد سے محو ہو جائے گی۔
دو عرب خلیجی ممالک نے آگے بڑھ کر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم بھی کر لیے۔مصر و اردن پہلے ہی اسرائیل سے پنجہ آزمائی میں زیر ہو کر تعلقات استوار کر چکے تھے۔نتن یاہو نے انتہائی اہم اور امیر خلیجی ملک کے خفیہ دورے کر کے اسے راغب کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرے۔امریکا نے اس میں اپنا حصہ ڈالا اور اس اہم ملک کی حکومت کو کہا کہ اگر وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لے تو امریکا اس ملک کی موجودہ خاندانی حکومت کی سلامتی کو یقینی بنائے گا۔
اس ماحول کی وجہ سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں ہوا چل نکلی تھی کہ اب اسرائیل کا عرب دنیا میں حماس کے علاوہ کوئی مخالف نہیں رہا۔فلسطینی مسئلے کو زندہ درگور ہونے سے بچانے کے لیے حماس کے ملٹری ونگ نے اپنی سیاسی قیادت کی منظوری کے بغیر اسرائیل پر حملہ کر دیا۔اسرائیل نے اس حملے کا پوری ریاستی ،امریکی و برطانوی قوت سے جواب دیا جو ابھی تک جاری ہے۔
غزہ میں شہدا کی تعداد پچاس ہزار کے قریب پہنچنے والی ہے۔لاکھوں زخمی ہیں، عمارتیں زمین بوس ہو کر کھنڈر بن چکی ہیں۔کئی لوگ ان میں پھنس کر جان کی بازی ہار چکے ہیں پورا غزہ تباہی و بربادی کا منظر پیش کر رہا ہے،البتہ وقتی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی وبا دم توڑچکی ہے۔فلسطین کا مسئلہ پھر سے اجاگر ہو گیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو اسرائیل کی حمایت میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور چند یورپی ممالک تو بہت نمایاں تھے لیکن امریکا کے دبدبے کی وجہ سے اسرائیل کی مخالفت میں کوئی خاص حکومتی آواز نہیں آئی،صرف ایران اور یمن میں حوثی ملیشیا نے کھُل کر حماس کی حمایت کی اور اقدامات کیے۔
اسرائیل نے ایران کی حکومت کے خلاف خوب واویلا کیا۔اسرائیل نے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ جناب اسمٰعیل ہانیہ کو تہران میں اس وقت ٹارگٹ کر کے مار ڈالا جب وہ نئے ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے ۔اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنا کر ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سینیئر افسروں کو مار ڈالا۔اس پر ایران نے جوابی کارروائی کی اور اسرائیل پر سیکڑوں ڈرونز و میزائلوں سے حملہ کر دیا،البتہ یہ حملہ امریکا کو اعتماد میں لے کر اور تفصیلات شیئر کر کے کیا گیا،اس لیے اسرائیل کے اندر کوئی خاص جانی نقصان نہیں رپورٹ ہوا۔
اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران کے دفاعی اداراتی مقامات کو نشانہ بنایا۔اس اسرائیلی حملے میں بھی کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔دونوں ملکوں کے درمیان ایسا ہی ایک اور جواب الجواب حملہ ہوا۔ حوثی ملیشیا نے بھی اسرائیلی مفادات پر حملے کیے اور نقصان پہنچایا۔ حوثی ملیشیا کی اسرائیل کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔حزب اﷲ نے حماس کی حمایت میں اسرائیل پر میزائلوں سے کئی حملے کیے لیکن اسرائیل کی جوابی کارروائی سے اس کے سربراہ اور کئی بڑے رہنما شہید ہوگئے۔
مسلمان ممالک میں حماس کی حمایت میں کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں۔فلسطین کی انتظامیہ پہلے ہی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ان دونوں کے درمیان خاصی مخاصمت اور دوری ہے۔مغربی کنارے کی انتظامیہ بظاہر صدر محمود عباس کے ماتحت ہے لیکن یہ انتظامیہ برائے نام ہے۔جناب محمود عباس یاسر عرفات کی وفات کے بعد اس کے سربراہ بنے لیکن ان کی ٹرم ختم ہوئے ایک زمانہ ہو چکا ہے۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں داخل ہو کر جس کو چاہتی ہیں گرفتار کر کے لے جاتی ہیں،پھر اپنی ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کر کے سزا سنا دیتی ہیں اور صدر محمود عباس کی انتظامیہ کچھ نہیں کر سکتی۔ہاں کبھی کبھی مذمت کر دیتی ہے۔اردن کی حکومت نے جون 1967 کی جنگ میں شرکت کر کے القدس الشریف اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کو گنوا کر سبق سیکھ لیا اور اسرائیل سے تعلقات قائم کر کے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا۔اردن کو اس وقت ایک پریشانی ہے اور وہ ہے شامی اور کچھ فلسطینی پناہ گزینوں کی موجودگی۔اردن چاہتا ہے کہ یہ پناہ گزین واپس چلے جائیں تاکہ ان کی موجودگی سے پیدا ہونے والے سماجی،معاشرتی اور سیاسی مسائل کو دور کیا جا سکے۔
اسرائیل اور حماس کا سب سے بڑا اور اہم پڑوسی مصر ہے۔مصر نے جون 1967کی جنگ میں صحرائے سینا گنوایا اور بہت نقصان اٹھایا۔رمضان1973کی جنگ میں مصر نے کچھ ابتدائی کامیابیاں حاصل کیں جس کی وجہ سے کیمپ ڈیوڈ اکارڈ ہوا اور اسرائیل نے مصری مقبوضہ علاقے واپس کر دیے۔ حماس کے لیے مصر اس لیے بہت اہم ہے کہ اسے خوراک،ادویات اور دوسری امداد مصر کے راستے ہی مل سکتی ہے،لیکن مصر گزشتہ تجربے کی وجہ سے اسرائیل اور امریکا کی مرضی کے خلاف نہیں جاتا۔یوں فلسطین کے پڑوسی ممالک میں سے کوئی بھی اس کا حمایتی نہیں ہے۔
حماس کو لبنان میں حزب اﷲ کی غیر مشروط حمایت حاصل تھی لیکن اسرائیل نے حزب اﷲ کی وار مشین کو وقتی طور پر خاصا نقصان پہنچا دیا ہے،ہاں حزب اﷲ کے جنگجو ابھی بھی دم خم رکھتے ہیں۔شام میں بشار کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی حزب اﷲ کی سپلائی لائن شدید متاثر ہوئی ہے،ادھر شام خود شدید خطرے میں ہے کیونکہ اس کی وار مشین نہتی ہو چکی ہے۔
غزہ کے اندر جو قتلِ عام ہوا ہے اس پر اکثر مغربی ممالک میں طلبا اور عوام نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کئی طریقوں سے احتجاج کیا ہے۔ لندن، پیرس اور نیویارک میں بڑی بڑی ریلیاں ہوئی ہیں۔امریکا کی یونیورسٹیوں میں طلبا نے تو کئی کئی دن مسلسل دھرنے دیے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اکثریتی ووٹ سے اسرائیل کی مذمت اور جنگ بندی کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا ہے،البتہ سلامتی کونسل میں ایسی کئی کوششوں کو امریکا نے ویٹو کر دیا ہے۔بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔اسرائیل ان اقدامات کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ اسرائیل نے حماس کے حمایتیوں کو بے بس کر دیا ہے۔
شاید قریبی مسل حکومتیں بھی چاہتی ہیں کہ حماس بکھر جائے اور صرف جناب محمود عباس کی مفلوج انتظامیہ میدان میں رہے۔ایران وقتی طور پر حماس کی مدد کرنے سے معذور نظر آتا ہے۔واشنگٹن میں کھلم کھلا کہا جا رہا ہے کہ اب ایرانی رجیم چینج کی باری ہے۔ ایسے میں بظاہر حماس کے لیے اسرائیل و امریکی شرائط پر جنگ بندی کے علاوہ کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔کیا حماس کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔ دعا ہے کہ ایسا نہ ہو۔