ایک طرف پاکستان میں تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں دوسری طرف رچرڈ گرنیل نے بھی بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے اپنی مہم تیز کر دی ہے۔ مذاکرات کا پہلا نقطہ بھی بانی تحریک انصاف کی رہائی ہے اور رچرڈ گرنیل کی ساری مہم کا مقصد بھی بانی تحریک انصاف کی رہائی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سول نافرمانی بھی چل رہی ہے اس میں بھی اوور سیز پاکستانیوں کو پاکستان زر نہ بھیجنے کی اپیل کر دی گئی ہے۔ اس سب کے ساتھ حکومت اپنا کام کر رہی ہے اور معاشی میدان میں حکومت کی کارکردگی بھی تحریک انصاف کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس حکومت کو کام کرنے کا وقت مل گیا تو کارکردگی کا بیانیہ دوبارہ زندہ ہو جائے گا جو تحریک انصاف کے موجودہ تمام بیانیوں کے لیے زہر قاتل بن جائے گا ۔
بہر حال مذاکرات پر میں بہت لکھ چکا ہوں اور میں اب بھی اپنی اس رائے پر قائم ہوں کہ ان مذاکرات کی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔ تحریک انصاف ٹرمپ کے آنے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس لیے درمیانی وقت میں مذاکرات کا کھیل شروع کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد ملک کے حالات دوبارہ خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لاشوں کی سیاست دوبارہ شروع کی جائے گی تاکہ ٹرمپ انتظامیہ کو مداخلت کا موقع مل سکے۔ اس لیے ٹرمپ کے آنے کا انتظار ہے۔ اس کے بعد یہ مذاکرات اور یہ ماحول سب ختم ہو جائے گا اور دوبارہ محاذ آرائی شروع ہو جائے گی۔
رچرڈ گرنیل نے ٹوئٹس کے بعد ایک انٹرویو بھی دے دیا ہے، ان کے ٹوئٹر کے بارے میں یہ رائے بن رہی تھی کہ وہ اصل نہیں۔ اس کے بعد ان کی تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات ہوئی ۔ جس نے ٹوئٹر کے جعلی ہونے کے تاثر ہونے کو غلط ثابت کر دیا۔ اب رچرڈ گرنیل نے امریکی میڈیا کو ایک انٹرویو دے دیا ہے۔ جس میں انھوں نے بانی تحریک انصاف کی رہائی کا دوبارہ مطالبہ کیا ہے۔ لیکن اس انٹرویو کا پہلا سوال بانی تحریک انصاف کی رہائی نہیں تھا۔
بلکہ امریکا کی جانب سے پاکستانی میزائیل پروگرام میں تعاون کرنیوالی چار کمپنیوں پر پابندی کے حوالے سے تھا۔ جس پر رچرڈ گرنیل نے کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے جو نئے سیکریٹری خارجہ نامزد ہو ئے ہیں، وہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر مزید اقدامات کی تیاری کر رہے ہیں۔ انٹرویو کا محور پاکستان کا میزائل پروگرام ہی تھا۔ بانی تحریک انصاف کی رہائی انٹرویو کا ضمنی سوال تھا لیکن پاکستان میں وہ مرکزی نقطہ بن گیا۔
رچرڈ گرنیل نے یہ نہیں کہا کہ نامزد امریکی سیکریٹری خارجہ بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ یہ بھی نہیں کہا کہ جب تک بانی تحریک انصاف رہا نہیں ہونگے پاکستان کی موجودہ حکومت سے بات نہیں ہو سکتی۔ بلکہ انھوں نے یہ کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک سے مختلف طریقے سے بات کرنی ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر زیادہ سختی نہیں کی جا سکتی۔ ان سے تمیز اور تحمل سے بات کرنی ہوتی ہے، مجھے یہ لگتا ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر ٹرمپ انتظامیہ میں مزید سختیاں آئیں گی۔ جس کے لیے شاید اب ریاست پاکستان تیار بھی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام میں تعاون پر جن کمپنیوں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں اس کی بانی تحریک انصاف نے ابھی تک مذمت نہیں کی ہے۔ تحریک انصاف نے باقاعدہ اس کی مذمت نہیں کی ہے۔ بلکہ ان پابندیوں پر ایک خاموشی رکھی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ تحریک انصاف نے اپنے تمام لیڈران پر خارجہ امورپر بات کرنے کی پابندی لگا دی ہے تاکہ کوئی اور مذمت نہ کر دے۔اطلاعات یہی ہیں کہ امریکی اقدامات کی مذمت نہیں کرنے کے احکامات ہیں۔ امریکا کو ناراض نہ کرنے کے اڈیالہ سے احکامات دیے گئے ہیں۔
امریکا میں مقیم حسین حقانی نے بھی کہا ہے کہ انھیں نہیں لگتا کہ رچرڈ گرنیل کے انٹرویو اور ٹوئٹس بانی تحریک انصاف کی رہائی کروا سکتے ہیں۔ میں ان کی اس بات سے متفق ہوں کہ امریکا میں انسانی حقوق کو لے کر بیان بازی کی ایک روایت ہے۔ وہ دنیا میں انسانی حقوق کا درس دیتے رہتے ہیں۔ یہ ان کی سیاست ہے۔ لیکن یہ باتیں اکثر صرف بیان بازی تک ہی محدود رہتی ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی اقدامات نہیں ہوتے۔ اس لیے بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے بیان بازی اور ٹوئٹس اقدامات سے محروم ہی نظر آتے ہیں۔
ریاست پاکستان کو علم ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر جو پابندیاں لگ رہی ہیں۔ بانی تحریک انصاف کو اقتدار میں لا کر یہ پابندیں ختم نہیں ہو جائیں گی۔ بلکہ اس وقت بانی تحریک انصاف امریکا کے اس قدر ممنون ہیں کہ وہ ان پابندیوں کی مذمت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تو اقتدار میں آ کر تو وہ امریکا کی خوشنودی کے لیے تمام حدیں پار کر جائیں گے۔ اس لیے میری ر ائے میں سب کو علم ہے کہ بانی تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے یہ پابندیاں ختم نہیں ہونگی بلکہ ان کے خلاف مزاحمت بھی مشکل ہو جائے گی۔ ریاست اب بانی تحریک انصاف کو مسائل کے حل کے طور پر نہیں دیکھ رہی۔ وہ ان کو مسائل کی بنیاد کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
اس لیے ساری صورتحال میں مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد بانی تحریک انصاف کی مشکلات میں کوئی کمی ہوگی۔ بلکہ ریاست یہ دکھانے کے لیے ان پر امریکا کا کوئی دباؤ نہیں مزید سختیاں کرے گی۔ کیونکہ کسی بھی نرمی کا مطلب ہو گا کہ ریاست نے امریکی دباؤ کے آگے سر جھکا دیا ہے۔ اس لیے مجھے تو سارے منظر نامہ میں سختیاں نظر آرہی ہیں۔
جہاں تک رچرڈ گرنیل کی بات ہے تو ان کی بات کا تو ایلان مسک نے جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اسی سے ان کی امریکی انتظامیہ میں اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ جو ٹرمپ نے ان کی نامزدگی کا اعلان کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ وہ وینزویلا اور شمالی کوریا کو خاص دیکھیں گے۔ وہ عالمی امور کے لیے خصوصی نمایندے ہیں۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے وہ اس پر بات نہیں کر رہے۔
ان کے لیے پوری دنیا میں صرف بانی تحریک انصاف واحد مقصد ہے۔ جس سے ان کے غیر اہم ہونے کا تاثر مزید طاقتور ہوتا ہے۔وہ غزہ پر خاموش ہیں، اسرائیل پر خاموش ہیں، یوکرین پر خاموش ہیں، باقی دنیا کے اہم موضوعات پر خاموش ہیں، روس پر خاموش ہیں۔ ان کا ٹوئٹر بھی صرف بانی تحریک انصاف تک محدود ہے۔ جو یقیناً سوالیہ نشان ہے۔ اسی لیے شاید ریاست پاکستان انھیں سنجیدہ نہیں لے رہی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ان کے سوا باقی سب خاموش بھی ہیں کوئی ان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ شاید سب کو علم ہے کہ کسی لابنگ فرم کا شکارہو چکے ہیں۔