سیاسی معاملات میں جب کوئی ڈیڈ لاک یا بداعتمادی کے ماحول کو غلبہ حاصل ہوجائے تو اس کا واحد حل بات چیت اور سیاسی ڈائیلاگ ہی کی بنیاد پر تلاش کیا جاتا ہے ۔کیونکہ سیاسی معاملات میں جنگ وجدل یا سیاسی دشمنی کی بنیاد پر مسائل کا حل نہیں بلکہ پہلے سے موجود بگاڑ میں اور زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔
سیاست اور جمہوریت کا حسن ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بند دروازوں کو کھولنے کا ہنر رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر ایک دوسرے کے لیے کشادہ دلی کے ساتھ سیاسی گنجائش پیدا ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کا فقدان جہاں جمہوری عمل کو کمزور کرتا ہے، وہیں اس کا بڑا فائدہ ایسی غیر سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں جو جمہوریت کے مقابلے میں اپنے نظام کی بالادستی کی خواہش مند ہوتی ہیں ۔ اس لیے بات چیت کی بنیاد پر سیاسی مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کو بنیاد بنائے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں ۔
پی ٹی آئی اور حکمران اتحاد کے درمیان بداعتمادی کے سیاسی ماحول نے قومی سیاست کو ایک بڑے ڈیڈلاک میں ڈالا ہوا ہے ۔ بظاہر سب اچھا ہے مگر ملک کے حالات کی سنگینی سب اچھا ہونے کی کہانی نہیں سناتی بلکہ حالات کی سنگینی کا احساس بھی دلاتی ہے اور ہم سب کو مجموعی طور پر جھنجھوڑتی بھی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ ایک دوسرے کے سیاسی وجود سے انکاری بھی ہے ۔حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی و حکومت کے درمیان بات چیت کے لیے مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل اور دونوں کے درمیان مذاکرات کا پہلا راؤنڈ کا ہونا ہے ۔برف کیسے پگھلی ہے، یہ واقعی بڑی پیش رفت ہے ۔کیونکہ دونوں فریق ایک ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔
پی ٹی آئی حکومت کے مقابلے میں براہ راست اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت کی حامی تھی ۔جب کہ حکومت اس لحاظ سے الگ تھلک اور خاموش تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل سے پہلے بہت کچھ پس پردہ ہوتا رہا ہے ۔اسی پس پردہ کھیل کی بنیاد پر حکومت اور پی ٹی آئی کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ظاہر کرتا ہے کہ اس عمل کو طاقت ور حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس حمایت کے بغیر حکومت کی جانب سے اس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ممکن نہیں تھا ۔اسی طرح پی ٹی آئی کا حکومت کی کمیٹی کے ساتھ بیٹھنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہاں بھی حکمت عملی میں تبدیلی آئی ہے ۔
اہم بات حکومت اور پی ٹی آئی کا مذاکرات میں بیٹھنے سے کچھ بہتری کے امکانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ جو مطالبات حکومت کے پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں یا جو پی ٹی آئی کے حکومت کے ساتھ ہیں، ان میں درمیانی راستہ نکالنا ہوگا اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو طے کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اگر مذاکرات کا یہ کھیل ایک دوسرے کے لیے سیاسی ڈکٹیشن تک محدود نہ ہو اور کھلے دل کے ساتھ مذاکرات ہوں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے ۔مگر ایسے لگتا ہے کہ ہم نے مذاکرات کی میز اپنے اپنے ایجنڈے کی بنیاد پر سجائی ہے اور ہر دو فریق انھیںکو بنیاد بناکر ہی آگے بڑھنا ہوگا۔
اگر ایسا ہوتا ہے اور پی ٹی آئی اس پر عمل کرتی ہے تو مستقبل میں اس کو کسی نہ کسی سطح پر ریلیف بھی دیا جاسکتا ہے۔پی ٹی آئی میں ایک بڑا دھڑا پہلے سے موجود ہے جو بانی پی ٹی آئی پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ ہمیں اس وقت کسی بھی سطح پر مزاحمت اور دھرنے کی بجائے مفاہمت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہیے ۔اسی بنیاد پر حکومت کی کمیٹی کے ساتھ بیٹھنا بھی پی ٹی آئی کی مجبوری یا آپشن تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے تو دوسری طرف حکومت و پی ٹی آئی میں ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات کا بھی مقابلہ ہے۔
مذاکرات کی کامیابی کی کنجی پہلے حالات کو سازگار بنانا ہوتا ہے اور کچھ ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جس سے پہلے سے موجود بداعتمادی کے ماحول کو کم کیا جاسکے۔لیکن ایسا نہیں ہوا اور بانی پی ٹی آئی تاحال جیل میں ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کا مقدمہ ملٹری کورٹس میں چلایا جاسکتا ہے۔اسی طرح اگر بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو آنے والے دنوں میں عدالتوں سے سزائیں ملتی ہیں یا جیسے فوجی عدالتوں سے پی ٹی آئی کے لوگوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں تو پھر ان مذاکرات کا کیا سیاسی مستقبل ہوگا اور کیسے یہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکے گا۔
بانی پی ٹی آئی فوری طور پر یا اگلے چھ ماہ میں نئے انتخابات ، اپنے سمیت پارٹی کے لوگوں پر قائم مقدمات کا خاتمہ اور رہائی ، 9مئی اور27نومبر کے واقعات پر عدالتی کمیشن کی تشکیل ، 26ویں ترمیم کا خاتمہ اور نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل چاہتے ہیں ۔جب کہ اس کے برعکس حکومت ہو یا پس پردہ طاقتیں ان کے ایجنڈے میں موجودہ حکومت کی قبولیت ،مہم جوئی اور دھرنے کی سیاست سے انکار، پارلیمنٹ تک اپنے کردار کو محدود کرنا حکومت گراؤ مہم سے گریز اور ریاستی اداروں کے خلاف بیانیہ سے انکاری ہونا شامل ہے۔
اسی بنیاد پر حکومت پی ٹی آئی کو کچھ نہ کچھ سیاسی راستہ یا ریلیف دے سکتی ہے ۔بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی ممکن نہیں یا ا ن کو پشاور جیل تک محدود کیا جاسکتا ہے یا اگر وہ سیاست سے دور رہیں تو ان کو بنی گالہ سب جیل کے طور پر بھی رکھا جاسکتا ہے ۔کیونکہ حکومت فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف پی ٹی آئی کو دے کر اپنے لیے سیاسی مشکلات پیدا نہیں کرے گی اور اس کی کوشش ہوگی کہ محدود آپشن کے ساتھ پی ٹی آئی سے بات چیت ہو ۔جب کہ بانی پی ٹی آئی کسی بھی سطح پر ایسی مفاہمت کے حامی نہیں جو ان کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرے کہ وہ سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہوئے ہیں اور نہ ہی حکومت یہ خود بھی تاثر دینے کی کوشش کرے گی کہ وہ پی ٹی آئی کے دباؤ میں فیصلے کررہی ہے ۔
ادھر حالیہ دنوں میں ہمیں عالمی سطح پر امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین سے بانی پی ٹی آئی کے حق میں بیانات دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پہلے راؤنڈ میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت ہوگی جب کہ حتمی راؤنڈ میں اسٹیبلیشمنٹ بھی شامل ہوسکتی ہے ۔پی ٹی آئی کے بہت سے لوگ آج بھی اسٹیبلیشمنٹ سے رابطوں میں ہیں اور ان کی کسی نہ کسی سطح پر بات چیت بھی چل رہی ہے ۔خیال ہے کہ جو کچھ طے ہوگا، اس کے لیے سیاسی کور حکومت فراہم کرے گی۔
لیکن حکومت ، پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا عمل آسان نہیں ہوگا خصوصاً بانی پی ٹی آئی کو فوری طور پر ریلیف نہ دینے کی صورت میں ڈیڈلاک پیدا ہوسکتا ہے ۔ویسے بھی بانی پی ٹی آئی کیونکر اس حکومت کی ساکھ کو قبول کریں گے یا کوئی ایسی قومی حکومت کا فارمولہ جو لمبی مدت کا ہو کو کیسے قبول کیا جائے گا۔اس لیے سیاسی لچک صرف پی ٹی آئی نے ہی نہیں پیش کرنی بلکہ حکومت کو بھی اپنے ایجنڈے یا شرائط پر لچک پیدا کرنا ہوگی تاکہ پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر رام کیا جاسکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات ہی واحد آپشن ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ کام کھلے دل اور ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کی بنیاد پر آگے بڑھے ورنہ دوبارہ ڈیڈلاک پیدا ہوسکتا ہے۔ مزید تاخیری حربے اختیار کرنے کی حکمت عملی بھی کارگر نہیں ہوسکے گی ۔اس وقت سب کو زیادہ ذمے داری کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔کیونکہ مذاکرات کی کامیابی ہی ملک میں سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کے استحکا م کو آگے بڑھاسکتی ہے۔وگرنہ محاذ آرائی ، تناؤ ، ٹکراؤ ،بداعتمادی اور سیاسی تقسیم کا یہ کھیل ہمیں مزید خراب کرے گا اور اس کا مجموعی نتیجہ ریاست کے نظام کے خلاف ہوگا ۔