کیا ہونے والاہے؟
بانی پی ٹی آئی نے تیسری شادی کرنے کے لیے ایسی خاتون کا انتخاب کیا جو پہلے سے شادی شدہ اور جوان بچوں کی ماں تھی، اس وقت بھی سبھی کو اس پر حیرت تھی، اس وقت بھی کسی نے بانی پی ٹی آئی کے اس فیصلے کی تعریف نہیں کی۔
اس شادی سے بانی پی ٹی آئی یا پاکستان کو کیا فائدہ پہنچا؟ یہ خبر بھی اخبارات میں چھپی تھی کہ ’’مرشد‘‘ کہتی ہیں کہ ’’ان کی اور بانی پی ٹی آئی کی شادی پاکستان میں استحکام لائے گی۔‘‘ کیا استحکام اور کہاں کا استحکام؟ ملک تو مسلسل تباہی کی طرف جا رہا ہے۔
جو آتا ہے اپنا پیٹ بھرتا ہے، اپنے بال بچوں کے نام سے بیرون ملک جائیدادیں بناتا ہے، سوئٹزرلینڈ میں اکاؤنٹ کھولتا ہے، بیرون ملک سرمایہ کاری کرتا ہے اور سوکھا منہ بنا کر کہتا ہے ’’میری پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں‘‘ اہل فکر اس بیان پر ہنستے ہیں اور پاکستان کے لیے ’’دعائے صحت‘‘ کی اپیل کرتے ہیں، لیکن وینٹی لیٹر پہ لگے مریض کو کتنے سال زندہ رکھا جاسکتا ہے۔
اب فیصل واؤڈا بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’خان صاحب جلد آنکھیں کھولیں اور بیگم سے جان چھڑائیں‘‘ ادھر دونوں پر ایک مقدمے میں فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہے، کل کیا ہوگا، خدا بہتر جانتا ہے۔
اس ملک میں کیا ہو رہا ہے، کیسی کیسی ’’نادر شخصیات‘‘ پاکستان کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایک کالم نگار نے پی ٹی آئی کے سابق رہنما اسحاق خاکوانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018 کے الیکشن سے پہلے بانی پی ٹی آئی اور جنرل (ر) فیض حمید کی چالیس سے زائد خفیہ ملاقاتیں ہوئی تھیں جو ایک خفیہ نظام کے ذریعے ہوتی تھیں۔ سب کی اپنی ترجیحات تھیں، اس کے بعد کیا ہوا؟ جنرل (ر) فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس پی آر لگا دیا گیا۔
بدقسمتی سے اس ملک کی تقدیر ہمیشہ سے اس گروہ کے پاس چلی آرہی ہے جس کے پاس بے پناہ اختیارات رہے ہیں، آج بھی کہنے کو ’’جمہوریت‘‘ ہے لیکن اسی جمہوریت کے ریپر میں لپٹی آمریت ہر طرف دکھائی دے رہی ہے۔ ہر شخص ملک کے مستقبل سے مایوس ہے، مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے، لوگ عاجز آگئے ہیں، بجلی کے اور گیس کے بل برابر آتے ہیں لیکن نہ گیس آتی ہے نہ بجلی، البتہ بل آ جاتے ہیں، گھر میں صرف ایک چولہا ہے، افراد دو ہیں لیکن گیس کا بل آ رہا ہے آٹھ ہزار کا۔ یہی حال بجلی کا ہے، اکیلی خاتون رہتی ہیں صرف ایک لائٹ جلتی ہے۔
ستمبر کے بعد سے اے سی بند ہے لیکن نومبر کا بل آ رہا ہے آٹھ ہزار کا۔ ہمارے حکمران چین کی بنسری بجاتے ہیں، عوام کی خوشحالی کے لیے کوئی پروگرام نہیں۔ بس آہنی کشکول ساتھ رہے تو بھکاری بھی بھوکا نہیں مرتا۔ یہاں تو تھری پیس سوٹ پہن کر ٹائی لگا کر برادر اسلامی ملکوں سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ روپیہ کی قدر گھٹتی جا رہی ہے اور ڈالر اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس دیا گیا ہے۔
رہ گئے ہمارے علمائے کرام جو مدارس کے نصاب میں اٹکے ہوئے ہیں، ہم گناہ گار یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گلی محلوں میں قائم یہ مدارس آخر کر کیا رہے ہیں؟ مدرسوں کی بھرمار ہے، لیکن کیا ان مدرسوں نے کوئی بل گیٹس یا مارک زک برگ پیدا کیا؟ یا کوئی سٹفن ہاکنگ پیدا کیا ہے ۔ آج کل تعلیم کو علم سے نہیں جوڑا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو وہ تعلیم دلائی جائے جس سے ملازمت اچھی ملے۔
کیا مدارس کا نصاب ایسا ہے جو دنیاوی لحاظ سے بہتر ہو، ملازمت آسانی سے مل جائے؟ اﷲ تعالیٰ نے یہ دنیا انسانوں کے لیے پیدا کی ہے تاکہ انسان اس کو برت سکے۔ ہمارے ملک میں جتنے مدارس اور خانقاہیں ہیں اور ان میں دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے لیکن کوئی ایک تو ان مراکز سے فارغ ہو کر نکلتا اور علمی و سائنس کے میدان میں اپنا جھنڈا بلند کرتا، لیکن ایسا نہ ہوا۔
ہم تو برادر اسلامی ملکوں سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتے، چہ جائے کہ یورپ اور امریکا یا کینیڈا سے۔ معاف کیجیے گا یہ تو کہنا پڑے گا کہ جن ممالک کو ہمارے مذہبی طبقے عالم کفر سمجھتے ہیں، آخر وہ اتنا عروج کیسے حاصل کر رہے ہیں۔ اگر یوکے، امریکا اور کینیڈا ویزوں کا اجرا شروع کردیں تو یہ سبھی پہلی قطار میں کھڑے ہوں گے۔
یورپ، امریکا اور کینیڈا کیوں ارتقائی منازل طے کر رہے ہیں اور ہم کنوئیں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا بس نہیں چلتا کہ اسرائیل کو نیست و نابود کردیں لیکن وہ ہے کہ دندناتا پھرتا ہے کیونکہ اسے امریکا کی آشیرباد حاصل ہے یورپ امریکا اور کینیڈا خوشحال ہیں اور ہم پسماندگی میں رہ رہے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، کم تولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، دودھ میں پانی ملاتے ہیں، چائے کی پتی میں کالے چنوں کے چھلکے ملاتے ہیں، سوکھے دھنیے میں لکڑی کا برادہ، تو بتائیے ہم پر خدا کا قہر نہیں ٹوٹے گا تو کیا ہوگا، بقول شاعر:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
امریکا میں رہنے والی ایک خاتون نے بڑے فخریہ لہجے میں بتایا کہ وہاں پر لوگ جھوٹ نہیں بولتے، اسی لیے بیشتر پاکستانی خاندان اسٹور سے کوئی آئٹم خریدتے ہیں، استعمال کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ ’’یہ چیز انھیں پسند نہیں ہے‘‘ وہ لوگ اسے Garbage میں ڈال دیتے ہیں اور دوسراآئٹم دے دیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کے باشندوں کو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی، انھوں نے اپنے بزرگوںکی تعلیمات کو بھلایا نہیں ہے۔ اسی لیے وہ خوشحال ہیں اور ہم راندہ درگاہ ہیں۔ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں ہے۔ اسی لیے خداوند تعالیٰ نے ہم پر ایسے حاکم مقرر کیے ہیں ، جنھیں عام آدمی کی کوئی فکر نہیں، صرف اپنی جیبیں بھر کے بھاگ لیں گے۔