دمشق:
شام میں معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے حملے میں وزارت داخلہ کے 14 اہلکار ہلاک ہوگئے۔
شام کے نئے وزیر داخلہ محمد عبدالرحمٰن نے ایک بیان میں کہا کہ منگل کو اسد کے اقلیتی علوی فرقے کے گڑھ طرطوس کے قریب لڑائی میں 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے جمعرات کو صوبہ طرطوس میں ایک آپریشن شروع کیا تھا جس کا مقصد امن و امان کی بحالی ہے۔ فورسز نے طرطوس کے دیہی علاقوں میں اسد کی ملیشیاؤں کی باقیات کو بے اثر کردیا ہے اور وہ انکا تعاقب کر رہی ہیں۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز پر اُس وقت گھات لگا کر حملہ کیا گیا جب وہ دمشق کی بدنام زمانہ سیدنایا جیل میں ایک سابق افسر محمد کانجو حسن کو اس کے کردار کے سلسلے میں گرفتار کرنے پہنچی تھیں جسے 20 دیگر لوگوں کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا۔
برطانیہ میں قائم مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جھڑپوں میں تین مسلح افراد بھی مارے گئے جن کی شناخت نہیں ہوسکی۔
دوسری جانب علوی کے مزار پر حملے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد شام کے وسطی شہر حمص میں کشیدگی روکنے کیلئے رات کا کرفیو نافذ کردیا گیا۔
شامی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ فوٹیج پرانی ہے جو نومبر کے آخر میں حلب پر باغیوں کے حملے کی ہے اور تشدد نامعلوم گروہوں نے کیا تھا۔
شام کے علوی اکثریتی علاقوں میں مظاہروں کی اطلاع ملی ہے جن میں طرطوس اور لطاکیہ شہر اور اسد کے آبائی شہر قردہہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ معزول شامی صدر بشار الاسد سمیت سابقہ حکومت کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ میں سے بہت سے افراد کا تعلق تھا علوی فرقے سے تھا۔
اسد کے حامی وفاداروں کے ساتھ جھڑپیں شام کے ڈی فیکٹو لیڈر احمد الشرع کی اتھارٹی کے لیے پہلا براہ راست چیلنج ہیں۔