دسمبر کے ساتھ ہی تلخ یادوں کا چراغ روشن ہونے لگتا ہے ایسی یادیں جو کسی نہ کسی حوالہ سے قومی اور سیاسی زندگی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں جن سے پاکستان اور قوم کا مستقبل وابستہ تھا۔ 27 دسمبر 2007 لیاقت باغ ، دختر مشرق اور ملک کی مقبول لیڈر کو قوم سے جدا کر گیا۔
بے نظیر بھٹو کو جدا ہوئے17برس ہوگئے ہیں مگر ان کی یادوں کی خوشبو کبھی اور کسی بھی سطح پر کم نہیں ہوئی، قوم کو شکوہ صرف اس بات کا ہے کہ ابھی تک بے نظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب نہیں ہوسکے۔ شہید بی بی سے یادگار ملاقاتوں کا احوال آج بھی سیاسی کارکنوں کے لیے سرمایہ سے کم نہیں۔27 دسمبر2007، ایک خونیں دن کی خونیں شام تھی جب بے نظیربھٹو جیسا چراغ بجھ گیا۔
1998سے 2007تک ملکی وبین الاقوامی سیاست پر ان کی گہری نظر رہی۔ وہ دہشت گردی کے خلاف واضح موقف رکھنے والی راہ نما تھیں۔ یہ ان کی سیاسی بصیرت اور فہم وفراست تھی کہ پاکستان اور بین الاقوامی سیاست کے سارے ستون ان کے مخالف کیمپ میں ہونے کے باوجود وہ بے نظیر بھٹو سے مذاکرات پر راضی ہوئے۔ وقت کے آمر اور بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ کچھ معاملات طے کرکے وہ پاکستان آئی تھیں۔وہ چاہتی تھیںفاٹا اور بلوچستان سمیت پورے ملک میں پاکستان کا جھنڈا لہرائے۔ وہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کو بااختیار کرنا چاہتی تھیں۔
وہ چاہتی تھیں کہ عوام کے بنائے ہوئے ملک میں عوام کا راج ہو۔ عوام اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔ وہ ہتھیار بندوں کو ہتھیار پھینکنے پر راضی کرچکی تھیں۔ وہ اس ملک سے مذہبی و لسانی منافرت ختم کرنے آرہی تھیں۔ ٹکڑوں میں بٹی قوم کو ایک کرنے آرہی تھیں۔ انھیں یقین تھا کہ وہ یہ سب کرپائیں گی، کیوںکہ وہ صوبوں کی زنجیر تھیں، وہ بے نظیر تھیں۔
دنیائے اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور پاکستانی خواتین کے لیے جہد مسلسل کی عمدہ مثال بے نظیر بھٹو 21جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو لندن میں تھے۔ بھٹو کی اس پہلوٹھی کی اولاد پر سبھی خوش تھے، سوائے بیگم بھٹوکے، جنھیں یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ کہیں جاگیردار خاندان کے فرد ذوالفقار علی بھٹوبیٹی کی پیدائش پر نالاں ہی نہ ہوجائیں۔
نومولود کی دادی نے پوتی کانام اپنی اس بیٹی کے نام پر رکھا،جو کم سنی میں انتقال کرگئی تھی۔ بھٹوگھرمیں داخل ہوئے، تو سامنے سرخ وسفید پھول جیسی بچی کودیکھ کر اسے بے ساختہ چومنے لگے۔ گلابی رنگت کی وجہ سے وہ بچی کو ’’پنکی، پنکی‘‘ کہہ رہے تھے، تو گویا بچی کی ماں کے سر سے منوں وزن اتر گیا۔ گوقدرت نے بے نظیر کے بعد اس جوڑے کو میرمرتضیٰ، صنم شاہ نواز جونیئرکی شکل میں تین مزید خوشیاں عطا کیں مگر ذوالفقار علی بھٹو جتنا پیار بے نظیر سے کرتے تھے، اتنا انھیں کوئی دوسرا بچہ پیارا نہ تھا۔ذوالفقار علی بھٹوبچوں کے ساتھ بچیوں کی تعلیم کے بھی زبردست حامی تھے۔
انھوں نے بے نظیرکو اچھے انگریزی اسکولوں سے تعلیم دلوائی۔ بے نظیر نے پرائمری تعلیم لیڈی جیتگر نرسری اور کانوینٹ جیسز اینڈ میری کراچی سے حاصل کی۔ راولپنڈی اور مری کے کانوینٹ اسکولوں میں بھی زیر ِتعلیم رہیں۔ پندرہ برس کی عمرمیں انھوں نے اولیول کر لیا تھا۔ تب بھٹو نے خاندانی اور مقامی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی ہونہار بیٹی کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا تاہم بیٹی کو ایئرپورٹ پر الوداع کہتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے نصیحت کی ’’بیٹا! تم جہاں بھی جاؤ،یہ بات یاد رکھنا کہ تمہاری عزت تمہارے اس وطن سے ہے اور خود تمہارا وجود اسی وطن کی مٹی میں جانا ہے‘‘
بھٹو نے اپنی اس بیٹی کی تربیت وتعلیم میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ انھیں اپنے افکارکی صحیح وارث سمجھتے تھے۔ وہ شملہ معاہدے کاموقع ہویاچین میں چواین لائی سے ملاقات بھٹوہمیشہ بے نظیر کو اپنے ساتھ رکھتے اوران کی عملی تربیت کرتے۔ ملک پر ضیاء الحق کے مارشل لا کے سیاہ بادل چھائے، توذوالفقارعلی بھٹوکوایک قتل میں اعانت کے الزام میں قید کر دیا گیا۔ اس موقع پر بے نظیر نے کم عمری کے باوجود بڑے عزم وہمت سے حالات کامقابلہ کیا۔ بھٹو صاحب نے انھیں آنے والے حالات اور خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے پوری طرح تیارکردیاتھا۔
3اپریل 1979 کوجب بے نظیر کی اپنے والد سے آخری ملاقات ہوئی، تو بھٹو نے بیٹی کو حق کا مشن جاری رکھنے کی نصیحت کی۔ باپ کی اس نصیحت کوبے نظیربھٹو شہیدنے اپنی زندگی کا مقصد بنالیااورتادمِ آخر اس راستے پر گامزن رہیں۔بھٹوکی پھانسی کے بعد بے نظیربھٹونے نہ صرف اپنی پارٹی کی عمدگی سے باگ ڈور سنبھالی بلکہ انھوں نے بے پناہ ہمت، بہادری اور جہدمسلسل کی نئی مثالیں رقم کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کو ملک کی سب سے مقبول جماعت بنا دیا۔
اپنی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کی بناپرانھوں نے پارٹی کے کارکنوں کا مورال پست نہ ہونے دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کے پسے ہوئے عوام کے لیے امید کی کرن بن کرابھری تھیں، پھر آسمان نے دیکھاکہ جب اپریل 1986 میں وہ جلاوطنی کے بعد واپس پاکستان آئیں، توعوام نے ان کا جو والہانہ استقبال کیااس سے آمریت کے درو دیوار لرز اٹھے۔ دو سال بعد 1988 میں وہ گھڑی بھی آئی جب صرف 35 برس کی عمر میں انھیں پاکستان کی وزیراعظم بننے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ دوسری مرتبہ 1993 میں وزیراعظم بنیں،تاہم اْن کی حکومتوں کوہربارمشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں مرتبہ ان کی حکومتیں بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کردی گئیں۔
پیپلزپارٹی اور بے نظیربھٹو کے لیے جبرکی سیاہ رات اس وقت گزرگئی، جب محترمہ بے نظیر 18اکتوبر2007 کو وطن واپس آئیں۔ طویل جلاوطنی کے بعد جب انھوں نے کراچی ائیرپورٹ پر قدم رکھاتو فرط جذبات سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
اس وقت بھی خوفناک بم دھماکوں سے ان کی جان لینے کی کوشش کی گئی مگر جسے اللہ رکھے،اسے کون چکھے۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی جان کو سخت خطرہ لاحق تھا تاہم انھوں نے بڑی بہادری سے انتخابی جلسوں میں خطاب کا سلسلہ جاری رکھا۔ موت شاید ان کے گھات میں تھی اور پھر27 دسمبر 2007کو لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد جب وہ واپس جارہی تھیں تو انھیں گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔