سیاسی مخالفت کے کھیل

اس وقت سب سے بڑا بحران لوگوں کے ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد کی بحالی ہے ۔


سلمان عابد December 28, 2024
[email protected]

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی کے بجائے سیاسی مخالفت سمیت ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کے بجائے خاتمہ کی بنیاد پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ قومی سیاست میں سے اخلاقیات یا جمہوری طرز فکر کے فقدان نے ہمارے جمہوری تشخص کا خاتمہ کردیا ہے۔

سیاسی معاملات کے حل میں طاقت کے استعمال نے عملی طور پر اس ملک میں پہلے سے موجود کمزور جمہوری نظام کو اور زیادہ کمزور کیا ہے ۔ بات چیت ،مفاہمت ، ایک دوسرے کی قبولیت یا ایک دوسرے کے سیاسی جذبات یا سوچ کے احترام کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔

ہمارے سیاسی بیانات، تقریریں اور مندرجات کو دیکھیں تو اس میں بھی اشتعال انگیزی یا نفرت پر مبنی جذبات غالب نظر آتے ہیں ۔یہ مزاج محض سیاست تک محدود نہیں رہا بلکہ معاشرے کے مختلف پڑھے لکھے ،باشعور اور اہل دانش سمیت ریاستی نظام میں غالب نظر آتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ سیاسی مخالفین سے جہاں بھی اختلاف نظر آئے اس کا سیاسی خاتمہ ضروری ہے۔

یہ جو ہمارے حکومتی اور معاشرتی نظام میں ایک بڑی سیاسی خلیج یا تقسیم پیدا ہوگئی ہے اس نے مجموعی طور پر معاشرے کو نہ صرف تقسیم کیا ہے بلکہ ایک دوسرے کے مدمقابل بھی کھڑا کردیا ہے ۔ایسے میں سنجیدہ طرز فکر کے لوگ نہ صرف فکر مند ہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے کچھ نہ کچھ سوچتے یا بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن سیاسی تقسیم پر مبنی نفرت کے کھیل نے معاشرے میں موجود سنجیدہ افراد کی امید کو بھی کمزور کردیا ہے ۔

کیا اس منفی طرز فکر کے ساتھ ہم حکومتی نظام کو چلاسکیں گے تو جواب نفی میں ملتا ہے اور ہمیں یہ باور کرواتا ہے کہ اس نظام کی بنیاد پر مہذب ریاستی نظام ممکن نہیں ۔لیکن ہم مجموعی طور پر بضد ہیں کہ ہم درست سمت میں چل رہے ہیں اور اسی بنیاد پر ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔

اس سوچ نے مجموعی طور پر سیاسی حکمت عملیوں میں مثبت یا جمہوری فکر کو متاثر کیا ہے اور ہم ایک ایسے عمل کا حصہ بن گئے ہیں جہاں ہمارے جمہوری تشخص پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔لیکن ہم ان سوالوں کا جوابات دینے کے بجائے ان میں نہ صرف شدت پسندی بلکہ مخالفت پر مبنی ردعمل دے کر حالات کو مزید خراب کررہے ہیں ۔

اس وقت کی قومی سیاست کے کھیل کو دیکھیں تو اس میں طاقت کی حکمت عملی کو غلبہ ہے ۔ہر فریق اپنی طاقت کی بنیاد پر دوسرے فریق پر سیاسی غلبہ چاہتا ہے۔ اسی بنیاد پر نہ صرف سیاست بلکہ ریاست کو بھی مختلف محاذ پر سیاسی تقسیم کا سامنا ہے اور ریاست کے نظام کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔سیاسی جماعتوں، میڈیا، سول سوسائٹی اور اہل دانش یا رائے عامہ تشکیل دینے والوں کا اپنا مجموعی کردار بھی مایوس کن ہے ۔ ان میں سے بیشترکردار خود بھی سیاسی تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں یا خود کو انھوں نے عوامی رائے عامہ کو بیدار کرنے کے بجائے حکومتی مفادات کے کھیل کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔

اس لیے جو کچھ حکومتی سطح پر ہو رہا ہے اس منفی کھیل کا جواز بھی ہمیں معاشرے کے پڑھے لکھے طبقات سے دیکھنے کو ملتا ہے۔سیاسی جماعتوں کو یقینی طور پر وہ حالات نہیں ملے جو جمہوری سیاسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں ۔ ان میں ریاست کی جانب سے مختلف نوعیت کی مداخلت اور جمہوری نظام میں تعطل کا بھی سامنا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام کے عدم تسلسل کے باعث جمہوری نظام کمزور ہوئے ہیں۔ لیکن یہ تمام باتیں اپنی جگہ بجا مگر سیاسی جماعتوں کا اپنا مجموعی طرز عمل بھی طاقت ور طبقات کی سیاست کے گرد ہی گھومتا ہے ۔

کسی بھی ریاستی نظام میں جب بھی طاقت کی حکمرانی کو غلبہ حاصل ہوتا ہے تو پھر سیاسی نظام یا عوامی مفادات پر مبنی سیاست کی اہمیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ایسی سیاست اور ریاست کا نظام طاقت ور لوگوں کے مفادات کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور اس کا عملی نتیجہ عام یا کمزور افراد کو بڑی قیمت پر ادا کرنا پڑتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک منظم سوچ کے ساتھ قومی سیاست کے کھیل میں دشمنی کی سیاسی سوچ پیدا کرکے جہاں لوگوں کو ایک دوسرے کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم کیا جاتا ہے وہیں طاقت ور طبقات اپنے مفادات کوبھی طاقت فراہم کرتے ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے ہماری بڑی سیاسی مذہبی قیادت یا اہل دانش کا بڑا طبقہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتہا پسندی یا شدت کو بنیاد بنا کر اپنا سیاسی بیانیہ تشکیل دیتا ہے اور اپنے حمایت یافتہ افراد کو مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔یہ طرزفکر قوم میں ایک دوسرے کی مخالفت میں سیاسی مہم جوئی اور عدم قبولیت کی سیاست کو فروغ دیتا ہے ۔اس کی بھاری ذمے داری خود ہماری اپنی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے جو جمہوری اور اخلاقی اصولوں کو بنیاد بنا کر سیاست ،جمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی کے نظام کو سیاسی و معاشی یا سیکیورٹی کے عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ موجودہ طرز فکر کے ساتھ ریاستی نظام کو چلانا ممکن نہیں اور نہ اس سے وہ عوامی ردعمل ہی ختم ہوگا جس کا ریاست کو سامنا ہے ۔ لوگ جدید جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جہاں ان کے بنیادی سیاسی ،معاشی اور آئینی حقوق کو تحفظ حاصل ہو اور اس کو تسلیم کرکے ہی ریاستی وسیاسی نظام اپنی بہتر ساکھ یا عوام میں موجود خلیج کو کم کرسکتا ہے ۔

اس بحران سے نکلنے کے لیے کسی ایک فریق کو نہیں بلکہ سب فریقوں یا کرداروں کو زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمیں مجموعی طور پر ریاستی و حکومتی یا گورننس کے بحران کی سنگینی کا احساس ہو اور ہماری عوام میں موجود تحفظات پر بھی نظر ہو۔لیکن اگر ہم نے ریاستی اور عوامی مفادات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنا ہے تو اس سے ریاستی نظام کو پہلے سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ مسائل محض داخلی نوعیت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی ہمیں اپنی مخالفت کے بیانیہ کا سامنا کرنا ہوگا جو مزید نئے مسائل کو جنم دے گا۔کیونکہ آج کے جدید ریاستی نظاموں کی موجودگی میں دشمنی کے کھیل کو بنیاد بناکر نظام چلانے کی کوئی بھی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کرے گا۔سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی سطح پر اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ان کے موجودہ طرز عمل سے لوگ سیاست یا جمہوریت کے نظام سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔

اس کا فائدہ جمہوری قوتوں کو کم اور غیر جمہوری قوتوں کو زیادہ ہورہا ہے۔اس لیے اگر ہم نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بنیاد پر نہیں چلایا تو اس کا نقصان سب سے زیادہ جمہوری قوتوں کو ہی ہوگا اور پہلے ہی اس ملک سے جمہوریت کا عمل سکڑرہا ہے اور ہماری جمہوری ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ اس لیے ہمیں مجموعی طور پر جمہوریت ، انسانی حقوق، آئین و قانون کی حکمرانی، مضبوط سول سوسائٹی اور عوامی مفادات پر مبنی جدید حکمرانی کے نظام کے ساتھ خود بھی جڑنا ہے اور دوسروں کو بھی جوڑنا ہے۔

ہماری ترجیحات سیاسی تقسیم ،نفرت کے کھیل اور دشمنی کے بجائے منصفانہ جمہوری اور معاشی نظام سے جڑنی چاہیے تاکہ لوگوں کا جمہوری نظام پر اعتماد بحال ہو۔اس وقت سب سے بڑا بحران لوگوں کے ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد کی بحالی ہے ۔مگریہ کام عملی طورپر گورننس کے نظام کی جدید اصلاحات اور عملدرآمد کے نظام سے منسلک ہے ۔محض خوشنما نعروں کی بنیاد پر لوگوں کو یکجا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی لوگ اب جذباتیت پر جڑ سکیں گے ۔

لوگوں کے مسائل کا سنجیدہ حل تلاش کرکے خود کو عوامی حکمرانی کے نظام سے منسلک کرنا ہے ۔یہ کام اگرچہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔مسئلہ ہماری حقیقی ترجیحات کا ہے اگر ہم نے درست طور پر اپنی ترجیحات کا تعین کرلیا تو پھر ان مسائل کا حل بھی موثر انداز میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |