پی ٹی آئی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے ہاتھوں پولیس کا جتنا جانی نقصان ہوا، اس کی مثال جنرل ایوب خان کے خلاف عوام کے احتجاج میں ملتی ہے نہ 1977 میں پی این اے کی پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف ملک گیر نظام مصطفیٰ تحریک میں۔ غالباً 1968 میں جنرل ایوب کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا تھا جس میں پیپلز پارٹی 1967 میں بنانے والے ایوب حکومت کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے اور متحدہ پاکستان بھر میں ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تھی جو ملک کے پہلے فیلڈ مارشل بھی خود ہی بنے تھے اور 1965 کی بھارت سے جنگ کے وقت جنرل ایوب خان صدر مملکت کے ساتھ آرمی چیف بھی تھے پھر 1965 کی جنگ کے بعد تاشقند میں بھارت و پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا تھا اس پر اختلافات کے باعث ذوالفقار علی بھٹو صاحب مستعفیٰ ہو گئے تھے۔
ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریکوں میں پولیس اور عوام کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں پولیس اور عوام دونوں کا جانی نقصان ہوا تھا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے نتیجے میں اقتدار ایوب خان سے جنرل یحییٰ کو منتقل ہو گیا تھا اور ملک میں مارشل لا لگنے کے بعد تحریک ختم ہوئی تھی۔
1971 میں بھارتی جارحیت اور مشرقی پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو کے قبول نہ کیے جانے کی وجہ سے ملک دولخت ہوا تو بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے تھے۔ 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت جو الیکشن کرائے تھے اس میں زبردست دھاندلیوں سے پیپلز پارٹی نے جو دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اس کے نتائج اپوزیشن نے مسترد کرکے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جو بھٹو صاحب نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس پر ان کی حکومت کے خلاف چاروں صوبوں میں تحریک شروع ہوئی تھی جس کو بھٹو حکومت میں سختی سے کچلنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس میں بھی پولیس اور عوام دونوں ہی کا نقصان ہوا تھا اور بھٹو صاحب نے ملک کے تمام بڑے سیاسی قائدین کو گرفتار کیا تھا جس سے بھٹو حکومت کے خلاف اتنی شدت آگئی تھی جو پولیس کے ذریعے کنٹرول نہ ہونے پر فوج طلب کر لی تھی اور شدید ہنگاموں کی وجہ سے کراچی، لاہور اور ملتان میں مارشل لا لگا دیا گیا تھا جس سے بھی ہنگامے ختم نہ ہونے پر فوج کو مداخلت کرنا پڑی تھی اور پانچ جولائی 1977کو جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت ختم کر کے مارشل لا ملک بھر میں لگایا تھا۔ جنرل ایوب اور بھٹو حکومت کے خلاف عوامی تحریکیں نئے انتخابات کے لیے تھیں مگر انتخابات نہیں ہو سکے تھے مگر ان دونوں ملک گیر تحریکوں میں بھی پولیس کا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا تھا جتنا پی ٹی آئی کے صرف اسلام آباد میں دھرنوں اور احتجاجوں سے پولیس کا ہوا۔
پی ٹی آئی کے ساتھ اسلام آباد میں عوامی تحریک کے علامہ طاہر القادری کا بھی کئی روز دھرنا چلا تھا جو واقعی دھرنا تھا جس میں علامہ صاحب نے نہ پولیس افسروں کو دھمکیاں دی تھیں نہ عوامی تحریک کے کارکنوں کا پولیس سے مقابلہ یا محاذ آرائی ہوئی تھی جو بعد میں خود ہی ختم کر دیا گیا تھا۔
پروفیسر علامہ طاہر القادری نے پیپلز پارٹی حکومت کے آخری دنوں میں بھی 2007 میں دھرنا دیا تھا اور یہ دونوں دھرنے پرامن طور ختم ہوئے تھے نہ پولیس کا کوئی نقصان ہوا تھا۔ تحریک لبیک نے بھی فیض آباد راولپنڈی میں دھرنا دیا تھا جو (ن) لیگ کی حکومت میں ہوا تھا جسے بالاتروں کی بھی کچھ حمایت حاصل تھی جس میں پولیس کا نقصان ضرور ہوا تھا۔ 2014 میں پی ٹی آئی نے اسلام آباد تک لاہور سے انتخابی دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا جسے بعد میں دھرنے کا نام دیا گیا تھا وہ دھرنا کم اور اسلام آباد پر قبضے کے لیے پی ٹی آئی کا حملہ تھا اور ڈی چوک پر قبضہ کرکے اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش تھی جس کو غیبی حمایت حاصل تھی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین کبھی آئی جی پولیس کو پھانسی دینے کا اعلان کرتے تھے تو کبھی پولیس پر حملوں میں ملوث گرفتار کیے جانے والے کارکنوں کو چھڑانے تھانے پہنچ جاتے تھے اور پولیس کو دھمکیاں دے کر اپنے کارکن چھڑا لے جاتے تھے۔ انھی دنوں پی ٹی آئی کارکنوں نے پولیس پر حملوں کا آغاز کیا تھا مگر پولیس اپنا بچاؤ کرنے میں کامیاب رہتی تھی اور کارکن پولیس پر حاوی ہو گئے تھے اور پولیس پر خود حملے کرتے تھے جس کی ترغیب خود بانی پی ٹی آئی دیا کرتے تھے۔ بانی کی شہ پرکارکن پولیس کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور انھوں نے درجنوں پولیس افسروں اور سپاہیوں کو زخمی کر دیا تھا۔
حالیہ احتجاج میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اسلام آباد میں ایک پولیس اہلکار پر زبردست تشدد کیا جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔ پی ٹی آئی کارکنوں کے بقول انھوں نے حالیہ احتجاج میں اسلام آباد اور پنجاب کے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا ان پر تشدد کرکے درجنوں کو زخمی کیا اور ان سے جبری طور بانی پی ٹی آئی کے حق میں نعرے لگوائے۔ ملک کی کسی پارٹی نے آج تک پولیس پر منظم حملے کیے اور نہ کبھی ان پولیس پارٹیوں پر پٹرول بم پھینکے نہ غلیلوں سے پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔
پی پی کی سینیٹر شیری رحمن نے سینیٹ کے اجلاس میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بانی کو پھانسی ہوئی مگر ہم نے کبھی پولیس پر حملے نہیں کیے۔ پی ٹی آئی حکومت میں جب پولیس اہلکار آصف زرداری کو گرفتار کرنے جاتے تھے تو وہ مزاحمت کے بجائے پولیس سے عزت سے پیش آتے اور انھیں چائے پلا کر خود گرفتاری دیا کرتے تھے اور نہ کبھی کسی پی پی رہنماؤں نے پولیس پر حملے تو کیا مزاحمت تک نہیں کی جب کہ ایک پولیس افسر پر پی پی کا الزام تھا کہ انھوں نے آصف زرداری کی زبان کاٹی تھی۔
لاہور زمان پارک میں بانی پی ٹی آئی نے گرفتاری سے محفوظ رہنے کے لیے منصوبہ بندی کرکے خود کو اپنے مسلح کارکنوں کے حصار میں رکھا تھا۔ عدالتی حکم پر جب بھی پولیس زمان پارک گئی پولیس کو زمان پارک میں گھسنے نہیں دیا گیا۔
پولیس کے خلاف بھرپور مسلح مزاحمت ہوئی جس سے پولیس افسر تک شدید زخمی ہوئے۔ پولیس پر وحشیانہ تشدد، مسلح حملے اور بھرپور مزاحمت کرنے والی ملک کی پہلی جماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک پرامن جماعت ہے جب کہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں جس بڑے پیمانے پر پولیس کو جانی نقصان پہنچا ہے ملکی تاریخ میں تمام پارٹیوں نے مل کر بھی پولیس کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا اور پھر بھی پرامن ہونے کے دعوے کرتے پی ٹی آئی رہنما خصوصاً وکلا رہنما نہیں تھکتے۔