گزشتہ سال جولائی کی بات ہے جب بھارت نے نان باسمتی سفید چاول کی برآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی۔ بھارت چاول برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے۔
اس کے اس فیصلے سے بھارت میں چاول کی دستیابی میں اضافہ ہوا اور قیمت میں اضافے کو بھی روکا گیا، البتہ بھارت نے باسمتی چاول کی برآمد پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ کی۔ بھارت کے اس فیصلے سے عالمی منڈی میں چاول کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس کے ساتھ ہی تھائی لینڈ اور ویتنام نے بھی چاول کی قیمتوں میں 10 فی صد اضافہ کر دیا تھا۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنا بیان جاری کردیا کہ انڈیا کی جانب سے چاول کی برآمدات پر پابندی سے عالمی غذائی افراط زر پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس فیصلے کو اس بات سے تعبیرکیا گیا کہ جب یوکرین پر پابندی لگائی گئی تھی تو چونکہ یوکرین گندم کے بڑے برآمدی ممالک میں سے ایک تھا لہٰذا ایسے موقع پر دوسرے ممالک سے بھی گندم کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ان دنوں پاکستان سے بھی گندم کی پیداوار کم ہوئی تھی اور زیادہ انحصار گندم کی درآمد پر کیا جا رہا تھا۔ پاکستان نے روس سے قدرے سستی گندم منگوانے کے معاہدوں پر عمل کیا لیکن ملک میں آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوئے چلا جا رہا تھا۔ 2023 پورا سال ایسا گزرا جب چکی کے آٹے کی قیمت 170 روپے فی کلو سے کسی طور پر کم نہیں ہو رہی تھی۔
البتہ 2024 مئی کے بعد اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ انڈیا کی چاول پر پابندی لگانے کی وجہ سے تھائی لینڈ اور ویتنام کو فائدہ ہوا اور یہ فائدہ دراصل ان کے کسانوں کو ہوا، جب قیمت بڑھتی ہے تو کسان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں صورت حال مختلف ہے یہاں پر عالمی منڈی میں چاول کی قیمت کتنی بھی بڑھ جائے، پاکستان سے برآمد کنندگان چاول براہ راست کسان سے خریدتا ہے اور آڑھتیوں وچولوں درمیانی لوگوں کے ذریعے بھی خریدتا ہے اور یہ سب مل کر یعنی سرمایہ دار، آڑھتی، متمول تاجر، ایکسپورٹر سب کے سب مافیا کی صورت میں کسان سے کم دام میں یہی چاول یا گندم یا شوگر مل والے گنا، ایکسپورٹر چنے کی پیداوار اور دیگر زرعی پیداوار پر بھی ہاتھ صاف کر کے اور وغیرہ وغیرہ لیکن دیگر ممالک بڑھتی قیمت کا فائدہ اپنے کسانوں کو پہنچاتے ہیں۔
اس لیے ملک میں وسائل دولت کی تقسیم میں ناانصافی قیام پاکستان سے پہلے کی چلی آ رہی ہے اور درمیانی طبقہ زیادہ خوشحال ہو رہا ہے، وہ اپنی آمدن کا بڑا حصہ نام و نمود اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے اب بڑی قیمتی لگژری گاڑیاں خرید رہے ہیں جن کی قیمت اب کروڑوں روپے سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
لیکن ماہرین اس بات کا اندازہ لگا رہے تھے کہ اس پابندی سے تھائی لینڈ، ویتنام اور پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ بھارت دنیا کے 165 ملکوں کو چاول برآمد کرتا ہے۔
آج سے تقریباً 7 سال قبل جب پاکستان کی فارن ٹریڈ ریویو کا جائزہ لے رہا تھا تو مجھے یاد ہے کہ پاکستان چند افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک اور باسمتی چاول کے حوالے سے دنیا کے دیگر کئی ملکوں کو چاول برآمد کر رہا تھا، اس لحاظ سے دو کیٹیگریاں مرتب کی جاتی ہیں۔ اول باسمتی چاول جس کی کم مقدار برآمد کرکے زیادہ مالیت حاصل کی جاتی اور دوسری جسے دیگر اقسام کی چاول کہہ سکتے ہیں ان کی مقدار تو زیادہ ہوتی لیکن مالیت کم۔
لگے ہاتھوں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان نے 2022-23 میں 5 لاکھ 95 ہزار میٹرک ٹن باسمتی چاول برآمد کیے اور 2023-24 میں پونے آٹھ لاکھ میٹرک ٹن باسمتی چاول برآمد کیے جب کہ دیگر چاول کی بات کریں جس پر بھارت نے اپنی چاول کی برآمد پر پابندی عائد کی اسی طرح مختلف اقسام علاوہ باسمتی چاول کی برآمد 2022-23میں 31 لاکھ 23 ہزار میٹرک ٹن کی برآمد کی تھی اور جب 2023 میں پابندی کے بعد 2023-24 میں پاکستان کی برآمد 52 لاکھ 45 ہزار میٹرک ٹن تھی کل ملا کر 2022-23 میں 37 لاکھ 19 ہزار میٹرک ٹن کی برآمد سے تقریباً 2 ارب 15 کروڑ ڈالر کی آمدن ہوئی اور 2023-24میں60 لاکھ 18 ہزار 465 میٹرک ٹن کی چاول کی برآمد سے تقریباً 3 ارب 93 کروڑ18 لاکھ ڈالرز کی آمدن ہوئی یعنی 4 ارب ڈالر سے 5 تا 6 ارب ڈالر آیندہ چند سالوں میں لے جا سکتے ہیں۔
جولائی تا نومبر 2024 میں دیگر اقسام کی چاول کی برآمدات کی مقدار تھی 20 لاکھ 7 ہزار میٹرک ٹن اور جولائی نومبر 2023 میں برآمدات کی مقدار تھی 14 لاکھ76 ہزار دیگر اقسام کی چاول کی برآمدات میں 36 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا۔پاکستان کو اس میدان میں اب مزید کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ان 5 ماہ کے دوران پاکستان نے ایک ارب 51 کروڑ56 لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا۔ اگر ملک میں چاول کی پیداوار کو زیادہ بہتر نہ بھی تو کم ازکم بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ جس طرح سے بھرپور پیداوار حاصل کی جاتی ہے اسی طرح ملک میں بھی فی ایکڑ زیادہ پیداوار کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔
بھارت کی طرف سے پابندی ہٹائے جانے کے بعد بھی پاکستان کی برآمدات میں خاص کمی نہ ہوگی، کیونکہ پاکستان تقریباً 25 سے 30 ممالک کو چاول برآمد کرتا ہے اور بھارت 160 سے زائد ممالک کو چاول برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر سال چاول کے کسانوں کو ناراض کیا جاتا ہے۔ چاول کی برآمد کے ساتھ پاکستان چاول سے بنی مصنوعات بھی بڑی مقدار میں برآمد کرسکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ان کی ڈیمانڈ ہے۔ چاول پیدا کرنے والے کسان یا دیگر ان تمام کو درمیانی ایجنٹوں، وچولوں، آڑھتیوں، سرمایہ کاروں کے مکمل رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے چاول کی برآمد میں اضافہ اور کسانوں کو صحیح قیمت پر فصل مل جایا کرے اس سے یقینا دولت کی تقسیم، عدم مساوات میں کمی لائی جا سکتی ہے اور یہ بات ملک کی کثیر آبادی کے لیے خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے۔