تشویشناک صورتحال

اب دبئی میں ہونے والے میچوں کی آمدنی کا ایک حصہ یو اے ای کے پاس بھی جائے گا۔



امن کی خواہش رکھنے والے صاحبان علم و شائقین کرکٹ کے لیے یہ خبر مایوس کن ہے کہ چیمپیئن ٹرافی میں شرکت کے لیے بھارتی کرکٹ ٹیم لاہور نہیں آئے گی۔ بھارت اور پاکستان کی ٹیمیں غیر جانبدار ملک میں میچ کھیلیں گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ و وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع شہر گھوٹکی کے مضافات میں متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ الہیان سے ان کے خیمے میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ چیمپیئن ٹرافی میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں دبئی میں میچ کھیلیں گی۔

پی سی بی کے ترجمان کے مطابق محسن نقوی نے یو اے ای کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ سے چیمپیئن ٹرافی کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا۔ شیخ الہیان نے بھارت اور پاکستان کے کرکٹ کے مقابلے دبئی میں منعقد کرانے کی تجویز کو قبول کیا۔ متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ الہیان، وہاں کے کورٹ سینٹرل بورڈ کے سربراہ بھی ہیں وہ کرکٹ میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔

انھوں نے کرکٹ کی ترقی کی خاطر محسن نقوی کی اس تجویزکو قبول کرلیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ذرایع اس معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اب دبئی میں ہونے والے میچوں کی آمدنی کا ایک حصہ یو اے ای کے پاس بھی جائے گا۔

چیمپیئن ٹرافی جب گزشتہ سال بھارت میں منعقد ہوئی تو پاکستان نے آئی سی سی کے فیصلے کے تحت اپنی ٹیم بھارت بھیجی تھی ، یوں کرکٹ کے شائقین اور دونوں ممالک میں تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں مصروف دانشوروں کو بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی تھی مگر جب بھارت نے چیمپیئن ٹرافی میں شرکت کے لیے لاہور آنے سے انکار کیا اور یہ تجویز پیش کی کہ چیمپیئن ٹرافی کو کسی اور ملک منتقل کیا جائے تو پھر کرکٹ کے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کرنے والے صحافیوں کو صورتحال میں تشویش پیدا ہوئی۔

 بھارت اور پاکستان میں کرکٹ کا کھیل بہت مقبول ہے۔ یہ مقبولیت صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک، یورپ ، امریکا اورکینیڈا میں لاکھوں افراد جن میں پاکستانی اور بھارت کے شہری بھی شامل ہیں، ان مقابلوں کا انتظارکرتے ہیں، یوں اس میچ نے ایک ڈپلومیسی کا مؤثر ہتھیارکی حیثیت اختیارکر لی ہے۔

اس کے ساتھ یہ میچ دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈ کے لیے ایک بڑا مالیاتی اثاثہ بن گیا تھا۔ بھارت میں مودی حکومت نے کھیل میں سیاست کو شامل کر کے اس روایت کی پیروی کی جو امریکا اور یورپی ممالک نے 80 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے خلاف ماسکو اولمپک کا بائیکاٹ کر کے قائم کی تھی۔ اس روایت کے کھیلوں کے مستقبل پر منفی اثرات برآمد ہونگے۔ امریکا کے سابق صدر ریگن نے اس ڈاکٹرائن کو تخلیق کیا تھا۔ تمام ممالک کو دوبارہ اولمپک کھیلوں کو کامیاب بنانے کے لیے پرانی پوزیشن پر واپس آنا پڑا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں 77 برسوں کے دوران کئی دفعہ اتار چڑھاؤ آیا۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں دونوں ممالک کے تعلقات مکمل طور پر منقطع ہوگئے تھے مگر تاشقند معاہدہ اور پھر شملہ معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آگئے تھے مگر 24 برسوں میں پاکستان میں قائم ہونے والی منتخب حکومتوں کی بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش اور بھارت کی حکومت کی ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی روایت کی بناء پر تعلقات کی نوعیت نچلی سطح تک پہنچ گئی۔

جب 2008میں پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت قائم ہوئی اور آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے عہدوں پر فائز ہوئے تو انھوں نے حالات بدلنے کی کوشش کی۔ صدر زرداری نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر بھارت نے ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کی آڑ لے کر امن کی کوششوں کو تارپیڈو کیا۔ جب منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ممبئی دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات میں تعاون کے لیے ٹیم بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا تو کچھ لوگوں نے مخالفت کی اور بھارت نے بھی تحقیقات میں تعاون نہیں کیا یوں پاکستانی منتخب حکومت کی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش ناکام ہوئی۔

بھارت نے ایک سازش کے تحت امریکا کے ساتھ مل کر پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے فہرست میں شامل کرانے کی کارروائی شروع کی۔ جب میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بنیادی اقدامات کیے تو بھارت سے تجارت کا حجم بڑھا دیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان عام آدمی کے سفرکی راہ میں رکاوٹیں کم کردی گئیں۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی بغیر شیڈول لاہور آئے اور میاں نواز شریف کی نواسی کی منگنی میں شرکت کی۔ مودی کی کابل سے لاہور آمد بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قدم تھا مگر بعض سیاسی جماعتوں اور صحافیوں نے میاں صاحب کے خلاف مذموم مہم شروع کردی۔

میاں نواز شریف کو پاناما اسکینڈل میں جیل بھیج دیا گیا۔ یہی وقت تھا جب مودی حکومت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بڑے تجارتی معاہدے کیے۔ اب پاکستان کے قریبی دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھارت کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار بن گئے۔ تحریک انصاف کے بانی واشنگٹن گئے تو صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کو کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار کریں گے۔ مودی حکومت نے فوراً جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کیا اورکشمیرکو بھارت میں ضم کر دیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت بھارت کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے میں ناکام رہی اور بھارت سے تمام سطحوں پر تعلقات منقطع کر لیے۔ تحریک انصاف کی خارجہ پالیسی کا یہ غلط فیصلہ تھا۔ اب بھارت نے پاکستان سے بات چیت نہ کرنے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پالیسی اختیارکی۔

اس وقت بھارت دنیا میں قائم ہونے والے کئی بڑے اقتصادی بلاک کا حصہ ہے۔ بھارتی نژاد باشندے امریکا کی کئی مشہور فرموں میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بھارت معاشی طور پر خاصا مستحکم ہے اور بھارت کی مڈل کلاس دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس بن گئی ہے۔ امریکا، یورپ اور مشرق بعید کے ممالک کے لیے بھارت کی مڈل کلاس میں اپنے سامان کی کھپت کے مواقعے نظر آرہے ہیں، یوں بھارت کو اب پاکستان سے تعلقات کی پرواہ نہیں ہے۔ دوسری طرف موجودہ حکومت بھارت سے تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے ملک میں میچ نہیں کھیلیں گی، اس سے دونوں ممالک کو جو مالیاتی نقصان ہوگا وہ اپنی جگہ مگر اس طرح دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطے قائم نہیں ہوسکیں گے۔

 بھارت کی حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر صورت میں پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات سے ہی خطے میں خوشحالی لائی جاسکتی ہے، مگر دیگر ممالک پر بالادستی کے تصور سے عوام کا نقصان ہی ہوا ہے۔ فوری طور پر تجارت شروع کرنے اور ہائی کمشنروں کے تقرر پر بات چیت شروع کرنی چاہیے۔ اس فیصلے کو کسی صورت کسی فریق کی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس فیصلے سے پڑوسیوں کے تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہونگے۔ یہی وقت ہے کہ امن کی اہمیت کو محسوس کرنے والی بھارت اور پاکستان کی سول سوسائٹی کے اراکین اس فیصلے کے خلاف احتجاج کریں اور دونوں ممالک کے عوام کو اس فیصلے کے نقصانات سے آگاہ کریں تاکہ دونوں ممالک کی رائے عامہ تبدیل ہو اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال کر اس فیصلے کو تبدیل کرایا جائے اور وہ وقت آجائے جب پاکستان اور بھارت کے شہروں میں دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیمیں اپنے میچ کھیلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |