کراچی کو کے الیکٹرک اور سوئی گیس محکمے سے نجات دلائی جائے
(تحریر: سیدہ عبیرہ حسین)
کراچی آج جس موڑ پر آگیا ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ کچرے کے ڈھیر ہر آبادی میں نظر آنے لگے، گٹر ابلتے ہوئے پورے شہر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں جسے مکمل صاف ستھرا علاقہ کہہ سکیں، چاہے وہ ڈیفنس ہو یا کلفٹن، پی ای سی ایچ ایس ہو یا گلشن، ہر علاقہ اس وقت گندگی و غلاظت کی داستان سنا رہا ہے۔ مین روڈز تو ہیں ہی ٹوٹے پھوٹے، ہر علاقے کی اندرونی گلیاں بھی جگہ جگہ گڑھوں کی وجہ سے ابتری کا نمونہ پیش کررہی ہیں۔
مین شاہراہیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جبکہ اب تو شہر میں بارشیں بھی نہیں ہورہیں۔ ٹریفک آئے دن جام ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے راستے پرانے سبزی منڈی سے لے کر حسن اسکوائر تک ٹریفک روز ہی رینگ رینگ کر چلتا ہے، جس کی وجہ سے عوام کو بے حد پریشانی ہوتی ہے۔ اسی طرح قائداعظم کے مزار سے لے کر پارکنگ پلازہ تک روزانہ ہی ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔ اسی طرح گلشن کے بہت سے علاقے ہیں جہاں ٹریفک جام معمول ہے۔
مگر میں جو بات یہاں کہنا چاہتی ہوں وہ ٹوٹی سڑکوں، گٹر اور کچرے سے بھی بہت زیادہ پریشان کن ہے اور وہ ہے کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کی روز کی غنڈہ گردی۔ سردیوں میں ہر علاقہ لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہا ہے، جس میں گلشن معمار، احسن آباد، بفرزون، لیاقت آباد، پیر الٰہی بخش کالونی، جمشید روڈ اور نجانے کتنے ایسے علاقے جہاں لائٹ نہیں جاتی تھی مگر اب ڈھائی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ چار بار بھگت رہے ہیں۔
پی آئی بی کالونی کا وہ علاقہ جو لوڈشیڈنگ فری تھا، اب تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں ڈھائ ڈھائی گھنٹے دورانیہ کی چار بار بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہر علاقے میں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ اس وقت پی آئی بی کے علاقے میں بھاری بل دے کر بھی گیس ہفتوں غائب رہتی ہے اور آتی بھی ہے تو اس کا پریشر نہیں ہوتا کہ کچھ پکایا جاسکے۔ لوگ سلنڈر پر کھانے پکاتے ہیں یا بازار سے کھانا منگوانے پر مجبور ہیں۔
کیا یہ سب سیاست نہیں؟ جو کچھ بھی اس شہر کے ساتھ کیا جارہا ہے اس سے تو صاف ظاہر ہے یہاں ہر شخص اپنی ذاتی دشمنی نکال رہا ہے؟ کہاں ہیں منتخب نمائندے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں، پھر اسی عوام کا گلا کاٹتے ہیں۔ کہتے ہیں کراچی میں جرائم کا خاتمہ کردیا گیا، مگر روز موبائل چھننا معمول بن چکا ہے، چوری ڈکیتی عام ہوچکی۔ کوئی پرسان حال نہیں۔
میرا حکومت میں بیٹھے سیاست دانوں، حکمرانوں سے سوال ہے کہاں گئے آپ کے وعدے؟ اس شہر سے کون سی دشمنی نکالی جارہی ہے؟ جو شہر ملک کا سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے اسے بنیادی سہولیات سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے؟ نہ گیس ہے نہ بجلی، ہمارا ہی پانی ہم خریدنے پر مجبور ہیں۔ آخر کیوں؟
گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ کی کوئی ذمے داری نہیں؟ کب تک کراچی کو سیاسی نفرت کی آگ میں جھونکا جاتا رہے گا؟ آخر کب یہ شہر واپس روشنیوں کا شہر کہلائے گا؟ کب یہاں کے عوام بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات پائیں گے؟ جب دن بھر گیس نہیں ہوگی، لائٹ نہیں ہوگی تو ذہنی یک سوئی نہیں ہوگی۔ بچے امتحانات میں اچھے نمبر سے پاس نہیں ہوپائیں گے، جس سے ان کے ایڈمیشن ان کی مطلوبہ یونیورسٹی کالج میں نہیں ہوسکیں گے تو پھر بیکار کی ڈگریوں سے اچھی نوکری کا حصول ناممکن ہوجائے گا۔
خدارا ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں پر رحم کھائیے۔ اس کے الیکٹرک سے نجات دلاکر پرائیوٹ کمپنیوں کو ٹینڈر دیے جائیں تاکہ سستے نرخوں پر مستقل بجلی میسر آسکے۔ سوئی سدرن گیس کے ادارے کو صحیح کیا جائے جو ایک طرف تو گیس کی لوڈشیڈنگ کر رہی ہے دوسری طرف ایل پی جی گیس سلنڈر فروخت کر رہی ہے۔ اگر گیس کم ہے تو یہ سلنڈر کی فروخت کا کیا تماشا ہے؟ گورنر صاحب اور وزیراعلیٰ سندھ ان سب کا سختی سے نوٹس لیں اور عوام کو کے الیکٹرک اور سوئی گیس جیسے شیطانوں کے شر سے نجات دلائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔