پی ٹی آئی کہتی تھی ہم ان سے مذاکرات نہیں کریں گے جن کی اوقات نہیں، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میں مذاکرات کے حق میں ہوں مگر بتایا جائے پچھلے 15 دن میں ایسا کیا ہوگیا کہ پی ٹی آئی یک دم مذاکرات پر آمادہ ہوگئی، پی ٹی آئی کہتی تھی ہم ان سے مذاکرات نہیں کریں گے جن کی اوقات نہیں۔
لاہور میں سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق کی برسی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ میں مذاکرات کے قطعی طور پر خلاف نہیں مگر آپ گزشتہ دو ڈھائی سال کے بیانات دیکھیں تو کہا گیا کہ ہم ان سے مذاکرات نہیں کریں گے ان کی اوقات نہیں، جن کی اوقات ہے ان سے مذاکرات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف چل کے ان کے گھر گئے، شہباز شریف اپنی نشست سے اٹھ کر گئے جب عمران خان قائد حزب اختلاف تھے جب بھی کرسی موڑ لیتے تھے، میں مذاکرات کا سب سے بڑا داعی بن جاؤں گا مجھے بتایا جائے کہ پندرہ ماہ کیا کیا؟ میں صرف ایک بات کہوں گا مذاکرات ہونے چاہئیں ضرور ہونے چاہییں۔
انہوں ںے کہا کہ ویت نام کی جنگ جاری تھی اور مذاکرات بھی ہوتے رہے مگر ان میں کوئی سنجیدگی تھی، میں مذاکرات کے حق میں ہوں مگر خیال رکھیں کہیں رُل نہ جائیں، ایک شخص کی تاریخ ہے پی ٹی آئی والا ہی مجھے بتادے اس شخص نے زندگی میں کسی سے وفا کی ہے؟ جنہوں ںے ساری عمر اُس کے ساتھ گزاری وہ ان کے جنازے میں گیا؟ وہ بیمار ہوئے ان سے ملنے گیا؟ عمران خان بندوں کو استعمال کرتا ہے میں وارننگ دیتا ہوں استعمال نہ ہوجائیں۔
انہوں ںے کہا کہ میں خلوص کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذاکرت کامیاب ہوجائیں، اسمبلی کے فلور پر میں نے کہا کہ سوشل کنٹریکٹ کیا جائے، فوج، بیورو کریسی، سیاست دان، عدلیہ، میڈیا یہ سب پاور سینٹرز ہیں انہیں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے اور ملک کے مسائل حل کرنے چاہئیں، ن لیگ پی پی کئی دہائی دست و گریبان رہے مگر بی بی شہید اور نواز شریف نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کیے، مگر ہم دوبارہ ان دہائیوں میں نہیں گئے اور ایک سیاسی استحکام قائم کیا۔
انہوں ںے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں پر خون ہے ان ہی کے لوگوں کے ہاتھوں خواجہ رفیق صاحب شہید ہوئے یہ بات ساری دنیا کو معلوم ہے مگر ایک رواداری اور لحاظ کو بڑھاوا دیا گیا، اگر کوئی طاقت کی پوزیشن میں ہوکر مذاکرت کرے تو اس کی سنجیدگی پر کوئی شک نہیں ہوتا لیکن جب بندہ جب گھرا ہوا ہو، مقدمات میں ہو رل رہا ہو اور مذاکرات کی بات کرے تو غور کرلینا چاہیے۔
انہوں ںے کہا کہ دو فوجی حکمرانوں نے امریکا کی غلامی قبول کی جس کا نتیجہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں یہ دہشت گردی اسی وقت کی آئی ہوئی ہے، جنرل ضیا نے امریکا کی طرف دیکھا اور ہم نے کرائے فوجی بن کر امریکا کے لیے جنگ لڑی، اس کے بعد جنرل مشرف نے امریکا کی طرف دیکھا، ان کے بعد عمران خان پہلا سیاست دان ہے جو امریکا کی منتیں کررہا ہے کہ مجھے بچاؤ، ایسا کسی سیاست دان نے نہیں کیا، بھٹو نے بھی آنکھیں دکھائیں۔
انہوں ںے کہا کہ ہمارا افغانستان جنگ سے کوئی واسطہ نہیں تھا مگر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے اسے جہاد کا نام دیا گیا، ساری خطے میں امن ہوگیا سوائے پاکستان کے اور آج بھی اس کی قیمت جانیں دے کر ادا کررہے ہیں، عمران خان نے افغانستان سے واپس لاکر چالیس ہزار بندہ بسایا، سات ہزار تو یہ اپنے منہ سے کہتا ہے، یہ لوگ اب ملک میں تباہی پھیلاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں بار بار کہوں گا ک پچھلے پندرہ بیس دن میں ایسا کیا ہوگیا کہ پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہوگئے، کمیٹی بھی بنادی اسپیکر صاحب بتادیں اس کے پیچھے کیا راز ہے۔
خواجہ آصف نے کہاکہ اب تو عمران خان کہتا ہے کہ شہباز شریف نے معیشت بحال کردی، یہ کیسی نئی بات ہے، باوجود اس کے کہ انہوں ںے پوری کوشش کی کہ معیشت تباہ ہوجائے انہوں ںے اپنے سب کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو پیسے نہیں دیں، ان کے تمام خطوط کا رخ امریکا و برطانیہ کی طرف ہے، کل بھی ٹویٹ کیا تھاکہ جن ممالک نے فلسطین میں پچاس ہزار لوگ شہید کردیے، ہمارے چار سے پانچ اسلامی ممالک برباد کردیے بندہ ان سے مدد مانگ رہا ہے؟ ان کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے بھرے ہیں، پہلے عمران کہتا تھا غلام نامنظور اب کہتا ہے سو بار منظور۔
وزیر دفاع نے کہا کہ مذاکرات میں تمام پاور سیکٹرز کو شامل کیا جائے صرف سیاست دان اس کا حصہ نہ بنیں ہم سیاست دانوں نے کبھی نہ کبھی بے ساکھی استعمال کی ہے اس حمام میں سب ننگے ہیں، ہماری عدلیہ! جس ملک میں ایسی عدلیہ ہو وہ 75 سال چل جائے اللہ کا شکر ادا کریں، عدلیہ نے عدل کے نام پر قیامت برپا کی جتنا عدل کے نام کو پلید انہوں نے کیا کسی نے نہیں کیا، بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ جن ججوں نے کیا ان کے وارثوں کو معافی مانگنی چاہیے اور یہ روایت عدلیہ اور میڈیا کسی میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا جج سولہ لاکھ روپے تنخواہ لیتاہے، ہمیں ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جو ابھی بڑھی ہے، جس ملک میں عدلیہ سمجھوتہ کرے اس ملک کا اللہ حافظ ہے، لوگ صحیح کہتے ہیں کہ وکیل نہیں جج کرلو، ہم سب جیلوں میں تھے تو ہم پر کیس ہی کوئی نہیں تھا ہماری اگلے ہی دن ضمانت ہوسکتی تھی لیکن جج کمپرومائزڈ تھے۔