جوہری توانائی کا حصول جرم ہے

اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ مقامی آبادی اور وطن کے باسی کیا چاہتے ہیں؟


Sabir Karbalai December 29, 2024

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جنگ کے کھلاڑیوں نے دنیا کو اپنے شکنجہ میں جکڑنے کا ایک نیا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ یہ منصوبہ اقوام متحدہ کی تاسیس کی شکل میں مکمل ہوا۔ پہلے جن جنگی کھلاڑیوںنے دنیا بھر میں لاکھوں یا کروڑوں بے گناہ انسانوںکو قتل کیا تھا، اب ان جنگی کھلاڑیوںنے دنیا پر اپنی حکومت اور بالا دستی کا منصوبہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کی بنیاد رکھ کر شروع کیا۔

اقوام متحدہ نے ان استعماری طاقتوں کی خوشنودی کی خاطر سب سے پہلے ان جنگی کھلاڑیوں کا تسلط قبول کروانے کے لیے ان کو غیر معمولی اہمیت دی جس کے بعد پوری دنیا میں ان کو سپر پاور کے نام سے پہچان کروا دی گئی۔

اقوام متحدہ نے اگلی مرتبہ ان استعماری طاقتوں کی خوشنودی کے لیے فلسطین کی تقسیم کے لیے 1947 میںقرار داد نمبر 181پیش کی اور پھر اس کو منظور کر کے دنیا میں نا انصافی کو ایک عالمی لیبل لگا کر فلسطین کی تقسیم کر دی اور دنیا کے لیے ایک مثال قائم کر دی کہ یہ استعماری طاقتیں جن میں برطانیہ ، فرانس اور امریکا ہیں یہ جب چاہیں جیسے چاہیںدنیا کے کسی بھی کونے سے آبادیوں کو ہجرت کروا کر کسی بھی ملک میں آباد کروا سکتے ہیں اور پھر اس استعماریت کو قانونی شکل دینے کے لیے اقوام متحدہ میں قرار دادوں کے ذریعے قبضہ کر سکتے ہیں۔

اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ مقامی آبادی اور وطن کے باسی کیا چاہتے ہیں؟ عوام کی رائے کیا ہے ؟ ان کے لیے جمہوریت اور عوام کی رائے کی تعریف بھی ہر ملک اور معاملے کے لیے الگ الگ بنائی گئی ہے۔

 بہرحال اس طرح کی باتوں کی ایک بڑی فہرست موجود ہے لیکن میں مدعا کی بات کرتا ہوں۔ اقوام متحدہ کے اس جال میں بعد میں نہ جانے کتنی ایجنسیاں اور ادارے قائم کیے گئے جن کی اکثریت صرف اور صرف ان استعماری قوتوں کی آلہ کار ہے۔ ایک ادارہ IAEAبھی بنایا گیا ہے۔

جس کا کام یہ ہے کہ امریکا سمیت یورپ اور خاص طور پر اسرائیل جیسی ناجائز ریاست جتنا چاہے جوہری توانائی کا حصول بھی کرے اور چاہے تو جوہری ہتھیار بھی بنائے اور اس سے بڑھ کر ان ہتھیاروں کو چاہے جس طرح جیسے بھی کسی کے خلاف بھی استعمال کرے کوئی ادارہ ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گا۔

کوئی قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔ کسی کو جرم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ چاہے تو امریکا نے جو جاپان کے خلاف ایٹم بم کا استعمال کیا تھا اس کے باوجود بھی آج تک اس ادارے نے کبھی امریکا کے جوہری اثاثوں پر پابندی کی بات نہیں کی اور نہ ہی ایسی کوئی بات کسی مغربی یا خاص طور پر ناجائز اسرائیل کے لیے کی گئی۔ اس ادارے کا نام انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی رکھا گیا ہے۔

اس ادارے کا کام یہ ضرور ہے کہ جب بھی کوئی تیسری دنیا کا ملک یا کوئی غیر ترقی یافتہ مالک یا ترقی پذیر ملک اپنی ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جوہری توانائی کے حصول کی کوشش کرے تو یہ ادارہ فوری طور پرحرکت میں آئے گا اور پھر اس ملک پر دباؤ ڈال کر اس مقصد کو روکنے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کو بروئے کار لایا جائے گا۔

یہاں تک کہ اگر یہ ادارہ روکنے میںناکام ہو جائے تو پھر امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کھلم کھلا ان ممالک کی حکومتوں کو دھمکیاں دیں گے اور ان پر حملہ کرنے کی بات شروع کر دیں گے یا پھر وہاںپر سیاسی و فوجی عنوان سے بغاوتوںکو پروان چڑھانے میں اپنے خزانوںکا منہ کھول دیں گے۔

آج کے دور میں ہمارے سامنے توانائی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سامنا کرنیوالا ایک ملک ایران سرفہرست ہے اور دوسرا پاکستان ہے۔ ایران کے خلاف تو مغربی ممالک سمیت امریکا اور اسرائیل کی پوری قوت لگائی جا رہی ہے کہ کسی طرح ایران کا جوہری پروگرام روک دیا جائے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کئی مرتبہ وہاں دورے کیے اور حقائق کو توڑموڑ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔جب ان قوتوں کے سارے ہتھکنڈے ناکام ہو جاتے ہیں تو آخر میں ایران پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور عوام کے حق کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ یہ امریکی حکومت کی انسان دوستی کی اعلیٰ ترین مثال ہے، یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ملک اور آزاد ریاست اپنے ہی ملک کے وسائل کو اپنے ہی ملک کے لیے استعمال نہ کرے۔

یہی سب کچھ امریکی حکومت نے ایک طویل مدت سے وینزویلا کے خلاف بھی کر رکھا ہے۔ حالانکہ وینزویلا خود جنوبی امریکا میں واقع ہے لیکن امریکی پابندیوں کے باعث دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ ہونے کے باوجود اپنے ہی شہریوںکے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔

یہ سب کچھ امریکا کی نام نہاد انسان دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔اسی طرح یہ سب کچھ اس مرکزی عالمی نظام جسے اقوام متحدہ کہتے ہیں اس کے دہرے معیار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جوہری توانائی کا حصول ایران کے لیے جرم ہے لیکن یہی کام امریکا سمیت یورپی ممالک کریںتو ٹھیک ہے۔

یہی کام اگر غاصب صیہونی ناجائز ریاست اسرائیل انجام دے تو کسی عالمی ادارے اور تنظیم سمیت استعماری طاقتوں کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہاںتک کہ ایک سال میں پچاس ہزار انسان قتل کر دیے جائیںتو بھی یہ اقوام متحدہ بس اپنے آپ کو بے بس بنا کر تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔

اسی طرح آج کل پاکستان کے میزائل پروگرام کے خلاف امریکی حکومت کی جانب سے پابندیوں کا اعلان سامنے آچکا ہے۔امریکا نے ہمیشہ پاکستان کے جوہری پروگرام اور جوہری اثاثوں پر تنقید کی ہے اور اس کا فائدہ ہمیشہ پاکستان کے دشمن ملک ہندوستان کو دیا ہے کہ جس کے ساتھماضی میں دو بڑی جنگیںاور کئی ایک چھوٹی موٹی لڑائیاںبھی ہو چکی ہیں۔

یہی امریکا ہندوستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میں تشویش کا اظہار نہیں کرتا لیکن پاکستان کے بارے میں ان کا دہرا معیار موجود ہے، جس طرح ایران کو توانائی کے حصول سے روکنا چاہتے ہیں اسی طرح پاکستا ن کو دفاعی ضروریات سمیت دیگر ضروریات کے لیے میزائل پروگرام سمیت جوہری پروگرام کو روکنا چاہتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو یہ امریکا کی خو دمختار ممالک یعنی پاکستان اور ایران میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ اسرائیل جو ایک طرف ایران کا دشمن ہے اور دوسری طرف پاکستان کا سب سے بڑا اور نظریاتی دشمن بھی ہے اس کے لیے کوئی قوانین ہیں ہی نہیں۔ اسرائیل جتنے چاہے جوہری ہتھیار اور میزائل بنائے بھی اور ان کا استعمال معصوم انسانوں کے خلاف بھی کرے لیکن اگر پاکستان اور ایران نے اپنے دفاع کے لیے اس طرح کے ہتھیار بنائے اور جوہری پروگرام چلایا تو پھر ان کے خلاف پابندیاں لگائی جائیںگی۔

خلاصہ یہ ہے کہ جوہری توانائی کے حصول کو مغربی دنیا نے اپنے علاوہ باقی سب کے لیے جرم قرار دے رکھا ہے جو کہ ان کے کھوکھلے پن اور دوغلے پن کی واضح علامت ہے۔ ایران اپنے جوہری توانائی کے پروگرام پر گامزن ہے اور آئے روز اس شعبے میںترقی کر رہا ہے اور اسی طرح پاکستان بھی ریاست کی خود مختاری اور سالمیت اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے، لیکن امریکا سمیت اتحادیوںنے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ ایران نے تو مغربی دنیا کی پابندیوں کو عملی طور پر ردی کی ٹوکری میںڈال کر پیشرفت جاری رکھی ہے، یہی کام پاکستان کو کرنا ہے اور عنقریب ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ پاکستان کے عوام کبھی بھی پاکستان کے میزائل پروگرام یا جوہری پروگرام پر امریکا سمیت کسی کی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں