موجودہ دور بیشمار حوالوں سے ایک مشکل دور ثابت ہو رہا ہے، آپ آج معاشرے کی کسی بھی سمت نظر دوڑائیں، بے سکونی اور پریشانی کا شکار افراد ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ زمانہ حال میں انسان کا خوش رہنا بالکل آسان نہیں ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس جدید زمانے میں خوشی کی تعریف ہی تبدیل ہوچکی ہے۔
یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے جب انسان تھوڑے کو بہت سمجھ کر اطمینان کی زندگی گزارتا تھا، اس کے برعکس آج ہر شے و احساس کی زیادتی بھی اس کو خوش رہنے کے لیے کم پڑ رہی ہے۔ کیسے، کب اور کیوں حرص کی بیماری ہمارے وجود سے چمٹ گئی ہمیں معلوم ہی نہیں ہوسکا اور جب احساس ہوا تب تک ہم اس دلدل میں مکمل طور پر پھنس چکے تھے۔
حرص یا ہوس دراصل مختلف برائیوں کا منبع اور مثبت سوچ کی دیمک ہے، یہ وہ منفی احساس ہے جو زندگی کی ہموار راہوں پر کانٹوں کا ڈھیر بچھا دیتا ہے اور پْرسکون جیون میں ایک طوفان برپا کرکے رکھ دیتا ہے۔ ہمارے چند غلط اقدام اس ناسور کو باآسانی ہماری زندگی تک رسائی مہیا کرتے ہیں لیکن اس بات پر خود کو قصوروار ماننے کے بجائے ہم اپنی غلطیوں کا ٹوکرا رکھنے کے لیے دوسروں کا کاندھا تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سادگی، انکساری اور خوشیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، آپ اگر سادگی اور انکساری کو اپنی زندگی سے نکال دیں گے تو پھر یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ خوشیاں آپکا در کھٹکھٹاہیں۔ سادگی اور انکساری کی عدم موجودگی میں بھی آپ اپنی زندگی میں خوشی کے احساس کو محسوس کر پا رہے ہیں تو یقین مانیے وہ وقتی فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اِعتدال پسند طبیعت پرسکون زندگی کی ضامن ہے۔ اِعتدال پسندی اختیار کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا گلا گھوٹ دے اور بے سروسامان جنگلوں، بیابانوں میں نکل جائے بلکہ یہاں اِعتدال پسند ہونے سے مراد ہے کہ ضرورت کے مطابق وسائل کا استعمال کرنا۔ اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے مگر ساتھ اس بات کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کہ اپنی جنت کی تعمیر کے دوران ہمارے ہاتھوں کسی کی جہنم تیار نہ ہو جائے۔ اپنے پاس موجود وسائل کا متوازن استعمال کیا جائے تو اْن سے دیرپا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے باحالت دیگر لالچ کا جن انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا ہے اور مستقبل میں انسان کے پاس پچھتاؤں کا ایک انبار لگا ہوتا ہے۔
معاشرے میں حرص کی بیماری عام کرنے میں سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار ہے، یوں تو سوشل میڈیا انسانوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے وجود میں لایا گیا تھا جو کہ اب محض ’’ فیک ورلڈ‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی جگمگاتی دنیا میں انسانوں کی اکثریت وہ بنی بیٹھی ہوئی ہے جو وہ اصل میں نہیں ہے بلکہ بننا چاہتی ہے اور مزے کی بات وہاں ایک انسان دوسرے کے حوالے سے یہ جھوٹ پکڑ نہیں پاتا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین دوسروں کی ہنستی، مسکراتی، سیر وتفریح کرتی اور زندگی کی تمام سہولیات سے مزین تصاویر دیکھ کر اْن کی زندگیوں سے اتنا مرعوب ہو جاتے ہیں کہ خود کی زندگیوں کو بھی ویسا ہی بنانا چاہتے ہیں اور جب ایسا کرنا اْن کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے تو وہ دوسروں سے حسد پالنا شروع کر دیتے ہیں۔
حسد، ہوس کا دوسرا مرحلہ ہے اور وہ اژدھا ہے جو کسی انسان کو اگر ایک بار ڈس لے تو اُس کا زہر ساری عمر کے لیے اْس کے وجود میں سرائیت کرتا رہتا ہے۔ حسد کرنے والا خود خوش رہتا ہے نہ دوسروں کو رہنے دیتا ہے، وہ اپنی زندگی میں موجود محرومیوں کا انتقام دوسروں سے لینے کو اپنا شیوا بنا لیتا ہے۔
حسد کا آتش فشاں دوسروں کو محض لاوے کی وقتی تپش محسوس کرواتا ہے جب کہ حاسد انسان کی پوری ہستی جلاکر راکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ اس بات کا غم کھائے رکھتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی فلاں نعمت موجود نہیں ہے جو کہ دوسروں کے پاس موجود ہے لیکن ہم کبھی اُن ان گنت رب کریم کی مہربانیوں پر سرشار نہیں ہوتے جو ہمیں تو حاصل ہیں مگر دوسرے اُن کے لیے ترس رہے ہیں۔
سب انسانوں کو سب کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے اور یہی قدرت کا نظام ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ دینے والی ذات اپنے بعض بندوں سے خوش اور باقیوں سے ناراض ہے بلکہ غیب کا علم رکھنے والا ہمارا پروردگار باخوبی جانتا ہے اپنے کس بندے کو کب کیا عطا کرنا ہے۔
دنیا میں کافی سارے لوگ ایسے ہیں جو اپنے حصے کی چھاؤں سے دوسروں کو باخوشی راحت پہنچاتے ہیں جب کہ کئی افراد اپنے سر پر مضبوط چھت ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے ٹین کے سائبان پر نظر جمائے رکھتے ہیں۔ حرص وہ اندھا کنواں ہے جس میں جو کچھ بھی اُنڈیل لو اُس کا پیٹ ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے۔ ہمیں خوشیاں اور سکون قیمتی چیزوں میں نہیں بلکہ سچے احساس و جذبوں میں تلاش کرنا چاہیے۔
دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے چکر میں مجموعی طور پر ہم اپنے معیارِ زندگی کو اتنا بلند کر چکے ہیں کہ اب اْس پر آنے والی لاگت ہماری کھینچ تان کر بڑی کی گئی چادر سے بھی باہر نکل گئی ہے نتیجتاً آج پورا کا پورا معاشرہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔
اپنی زندگی میں آنے والی خوشیوں کو منانے کا طریقہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اتنا مہنگا بنا دیا ہے کہ اب اْس کے معیار کو برقرار رکھنا ہمارے گلے میں پھنسی ہڈی بن چکا ہے۔ چونکہ ہم نے ماڈرن ہونے کی ٹھان ہی لی ہے تو استطاعت ہو یا نہ ہو ہمیں اپنی جھوٹی شان کی تشہیر ہمہ وقت جاری رکھنی پڑتی ہے اگر نہ کریں تو سوسائٹی بعد میں دیسی ہونے کا طعنہ دیتی ہے ہم پہلے ہی خود کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔
کیا فائدہ ایسی ہوس، حسد اور جدت پسند ہونے کا جب آپ کی اصل شناخت زمانے کی بھیڑ میں گم ہو جائے اور آپ نقلی، کھوکھلی اور جھوٹی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔ ’’کول لبرل‘‘ ٹرک کی وہ بتی ہے جس کے پیچھے ہماری قوم آج کل بری طرح خوار ہو رہی ہے۔
ہمیں کیا مل جائے گا ’’کول لبرل‘‘ کے تمغے کو اپنے ماتھے پر سجانے سے جب ہمارے زندگیوں میں سکون ہی موجود نہیں ہوگا۔ زندگی ایک بار ملتی ہے تو پھر کس لیے ہم اسے منفی سرگرمیوں میں برباد کرنے پر تْلے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ کی جانب سے جس کو جتنا ملا ہے اُس کو اُتنے میں ہی خوش رہنا سیکھنا چاہیے، زیادہ کی تمنا پہلے سے موجود نعمتوں کا مزا بھی کرکرا کر رکھ دیتی ہے۔ ہم اپنا قبلہ درست رکھیں، دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں تو ہوسکتا ہے رب العالمین کو ہماری یہ ادا اس قدر پسند آ جائے کہ ’’وہ‘‘ ہماری ہر خواہش پر کن کہہ دے۔ آئیے! آج سے ہم سب مل کر ایک نئی شروعات کا عزم کریں۔