کھیل کود کشمیر کی آزادی بمقابلہ پی سی بی معاملات
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے نجم سیٹھی پر سوا سال کے بھروسے نے اس کھیل کو عدالتوں کے چکر لگوادئیے ہیں۔
کھیل اور سیاست کی یکجائی کے باعث اسکوائش بے حال ہوا، ہاکی تباہ اور برباد ہوئی ، اور اب پی سی بی کے پیٹرن انچیف اور ہمارے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے نجم سیٹھی پر سوا سال کے بھروسے نے اس کھیل کو عدالتوں کے چکر لگوادئیے ہیں۔
ہم ایسے ملک کا حصہ ہیں جو ایٹم تو بم بناسکتا ہے مگر سالانہ اربوں کما کر دینے والے ادارے کا آئین اور اس کا متفقہ چیئرمین بنانے میں اب تک ناکام ہے۔ میں وزیر اعظم صاحب کو یقین دلاتا ہوں ،اس سارے مسئلے کے حل کیلئے انہیں راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، یہ مسئلہ کشمیر بھی نہیں جس کیلئے آپ کو بھارت سے مذاکرات کے لیے دورے ڈالنا پڑیں۔ اس کیلئے اتنی محنت کی بھی ضرورت نہیں کہ جتنی اسحاق ڈار کو ڈالر سو سے نیچے دھکیلنے میں لگی تھی ۔
بات تو نجم سیٹھی پر بھی ہونی چاہیے۔ لیکن کیوں کہ اب انہوں نے استعفیٰ دیدیا ہے۔عدالت کا حکم بھی آچکا ہے۔اگر حکومت اول دن سے ہی اچھی نیت کے ساتھ معاملے کو سنبھال لیتی، تو کرکٹ کے معاملات اس حد تک تباہ نہ ہوتے، جتنے اب ہیں۔ اس کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ مستعفی چیئرمین کو بورڈ میں موجود بدانتظامی کو دور کرنا چاہیے تھا مگر وہ اسے دور نہ کرسکے۔ جس کرکٹ بورڈ کو کھلاڑیوں کے اول اول دنوں میں انڈین لیگ میں کھیلنے پر اعتراض تھا، اس کیلئے چیئرمین بورڈ نے چند دوروں کے عوض پاکستان کا پورا کھیل ہی بھارت کے زیر نگین کردیا ہے۔ اور دورے بھی یقینی نہیں، ہاں بالکل ذہن میں رکھیں۔ بھارت اور پاکستان کی سیریز کے معاہدے میں یہ بات درج ہے کہ اگر ہندوستان کی حکومت نے کسی ٹور کے کھیلنے کی اجازت نہ دی تو وہ نہیں ہوگی، مطلب معاملہ خراب ہوگیا تو ہوگیا، کسی پر کوئی جرمانہ بھی نہیں۔ معاہدے کی رو سے اچھی کرکٹ کھیلنے کیلئے اب ہمیں بھارتی حکومت سے سیاسی ڈپلومیسی کے ذریعے بھیک مانگنا ہوگی۔ یہ سب کچھ ٹی وی کے سیاسی تجزیہ نگار کی تجزیاتی کراماتیں ہیں۔
کیا پاکستان کی کرکٹ ٹیم دنیا کی بڑی ٹیموں میں ایک نہیں، کیا دنیا کی ٹاپ ٹیمیں اس کے ساتھ کھیلنے کو ترجیح نہیں دیتیں؟ کرکٹ کے شائقین پاکستان کے کھلاڑیوں کو میدان میں جلوا گر ہوتے دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں؟۔اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں تو پھر ہم انٹر نیشنل کرکٹ کے آگے کیوں بچھ گئے؟ اس طرح کے فیصلے کرنے والے تجزیہ نگار کو پیپر ورک سے نکل کر پاکستان کے میدانوں کی رونقوں کی بحالی کیلئے عملی اقدام کرنا چاہیے تھے۔ ان کی پیٹھ کوئی عام شخص نہیں وزیر اعظم نواز شریف مسلسل سوا برس سے تھپ تھپا رہے ہیں۔ ان کے ہر اقدام کو پی سی بی کے پیٹرن انچیف نے مکمل سپورٹ کیا۔ وہی بات جو غالب نے مولوی کے متعلق کہی تھی کہ ''پوچھو تو کبھی پی ہے''۔ ہم تجزیہ نگار کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ انہیں کرکٹ کا کیا تجربہ ؟۔کیا وہ کرکٹ بورڈ کی سرداری کے ذریعے زندگی بھر کی محروموں کا خلا بھرنا چاہتے ہیں۔اگر ہاں ایسا ہی ہے تو پھر کھیل کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ جس کے اثرات میں پاکستانی کرکٹ چند برس اور پھنسی رہے گی۔
نواز شریف صاحب ہم آپ پر اعتماد کرتے ہیں، پاکستانیوں نے آپ کو ووٹ دے کر ملک کی تقدیر بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے۔آپ اگر ملک سے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکتے، کرکٹ بورڈ کے مسائل کو حل نہیں کرسکتے، معیشت اعداد و شمار میں نہیں حقیقی میں درست نہیں کردیتے۔ تو ہم آپ سے کیسے امید کرلیں کہ کشمیر کا مسئلہ آپ حل کرلیں گے۔ بھارت سے مذاکرات کی میز پر پانی کے ایشو پر دو ٹوک موقف اختیار کرلیں گے۔ دہشتگردوں کا خاتمہ اور بھی بڑا جن بن گیا ہے۔ اگر آپ نجم سیٹھی پر اسرار کرتے رہیں گے تو پھر مخالف دال میں کچھ کالا ہے کا الزام بھی لگاتے رہیں گے۔اس سے کچھ اور ہو نہ ہو۔ کھیل اور آپ کی کریڈیبلٹی خراب ہوجائے گی ۔ خدارا ، خانہ خدا سے واپسی پر تھوڑی دلچسپی اس طرف بھی دیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہم ایسے ملک کا حصہ ہیں جو ایٹم تو بم بناسکتا ہے مگر سالانہ اربوں کما کر دینے والے ادارے کا آئین اور اس کا متفقہ چیئرمین بنانے میں اب تک ناکام ہے۔ میں وزیر اعظم صاحب کو یقین دلاتا ہوں ،اس سارے مسئلے کے حل کیلئے انہیں راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، یہ مسئلہ کشمیر بھی نہیں جس کیلئے آپ کو بھارت سے مذاکرات کے لیے دورے ڈالنا پڑیں۔ اس کیلئے اتنی محنت کی بھی ضرورت نہیں کہ جتنی اسحاق ڈار کو ڈالر سو سے نیچے دھکیلنے میں لگی تھی ۔
بات تو نجم سیٹھی پر بھی ہونی چاہیے۔ لیکن کیوں کہ اب انہوں نے استعفیٰ دیدیا ہے۔عدالت کا حکم بھی آچکا ہے۔اگر حکومت اول دن سے ہی اچھی نیت کے ساتھ معاملے کو سنبھال لیتی، تو کرکٹ کے معاملات اس حد تک تباہ نہ ہوتے، جتنے اب ہیں۔ اس کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ مستعفی چیئرمین کو بورڈ میں موجود بدانتظامی کو دور کرنا چاہیے تھا مگر وہ اسے دور نہ کرسکے۔ جس کرکٹ بورڈ کو کھلاڑیوں کے اول اول دنوں میں انڈین لیگ میں کھیلنے پر اعتراض تھا، اس کیلئے چیئرمین بورڈ نے چند دوروں کے عوض پاکستان کا پورا کھیل ہی بھارت کے زیر نگین کردیا ہے۔ اور دورے بھی یقینی نہیں، ہاں بالکل ذہن میں رکھیں۔ بھارت اور پاکستان کی سیریز کے معاہدے میں یہ بات درج ہے کہ اگر ہندوستان کی حکومت نے کسی ٹور کے کھیلنے کی اجازت نہ دی تو وہ نہیں ہوگی، مطلب معاملہ خراب ہوگیا تو ہوگیا، کسی پر کوئی جرمانہ بھی نہیں۔ معاہدے کی رو سے اچھی کرکٹ کھیلنے کیلئے اب ہمیں بھارتی حکومت سے سیاسی ڈپلومیسی کے ذریعے بھیک مانگنا ہوگی۔ یہ سب کچھ ٹی وی کے سیاسی تجزیہ نگار کی تجزیاتی کراماتیں ہیں۔
کیا پاکستان کی کرکٹ ٹیم دنیا کی بڑی ٹیموں میں ایک نہیں، کیا دنیا کی ٹاپ ٹیمیں اس کے ساتھ کھیلنے کو ترجیح نہیں دیتیں؟ کرکٹ کے شائقین پاکستان کے کھلاڑیوں کو میدان میں جلوا گر ہوتے دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں؟۔اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں تو پھر ہم انٹر نیشنل کرکٹ کے آگے کیوں بچھ گئے؟ اس طرح کے فیصلے کرنے والے تجزیہ نگار کو پیپر ورک سے نکل کر پاکستان کے میدانوں کی رونقوں کی بحالی کیلئے عملی اقدام کرنا چاہیے تھے۔ ان کی پیٹھ کوئی عام شخص نہیں وزیر اعظم نواز شریف مسلسل سوا برس سے تھپ تھپا رہے ہیں۔ ان کے ہر اقدام کو پی سی بی کے پیٹرن انچیف نے مکمل سپورٹ کیا۔ وہی بات جو غالب نے مولوی کے متعلق کہی تھی کہ ''پوچھو تو کبھی پی ہے''۔ ہم تجزیہ نگار کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ انہیں کرکٹ کا کیا تجربہ ؟۔کیا وہ کرکٹ بورڈ کی سرداری کے ذریعے زندگی بھر کی محروموں کا خلا بھرنا چاہتے ہیں۔اگر ہاں ایسا ہی ہے تو پھر کھیل کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ جس کے اثرات میں پاکستانی کرکٹ چند برس اور پھنسی رہے گی۔
نواز شریف صاحب ہم آپ پر اعتماد کرتے ہیں، پاکستانیوں نے آپ کو ووٹ دے کر ملک کی تقدیر بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے۔آپ اگر ملک سے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکتے، کرکٹ بورڈ کے مسائل کو حل نہیں کرسکتے، معیشت اعداد و شمار میں نہیں حقیقی میں درست نہیں کردیتے۔ تو ہم آپ سے کیسے امید کرلیں کہ کشمیر کا مسئلہ آپ حل کرلیں گے۔ بھارت سے مذاکرات کی میز پر پانی کے ایشو پر دو ٹوک موقف اختیار کرلیں گے۔ دہشتگردوں کا خاتمہ اور بھی بڑا جن بن گیا ہے۔ اگر آپ نجم سیٹھی پر اسرار کرتے رہیں گے تو پھر مخالف دال میں کچھ کالا ہے کا الزام بھی لگاتے رہیں گے۔اس سے کچھ اور ہو نہ ہو۔ کھیل اور آپ کی کریڈیبلٹی خراب ہوجائے گی ۔ خدارا ، خانہ خدا سے واپسی پر تھوڑی دلچسپی اس طرف بھی دیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔