ڈاکٹر عابد شیروانی کی کتاب ’’ابلیس سے جفا‘‘

ذکر ہے ابلیس کا تو ابلیس کا مقصد ہی انسانوں کو تباہی و بربادی کی راہ پر لگانا ہے


نسیم انجم December 29, 2024
[email protected]

ڈاکٹر عابد شیروانی کو اللہ تعالیٰ نے عزت و توقیر اور علمی خزانے سے مالا مال کر دیا ہے ان کی بصیرت و بصارت کمال در کمال کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اس حقیقت نے قریب سے دور تک کا سفر طے کر لیا ہے، جب ہی تو سرگودھا یونیورسٹی اردو ڈپارٹمنٹ کے سابق ہیڈ ڈاکٹر خالد ندیم یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’فکر اقبال میں اس نظم کو بڑی اہمیت حاصل ہے‘‘ اور اگر اقبال کی کسی نظم کو اس وقت بھی اپنی تخلیق کے وقت کی سی افادیت ہے تو وہ یہی نظم ہے، انھوں نے کتاب پر تبصرہ بہت مدلل اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔ ڈاکٹر عابد صاحب ایک عالم اور دانشور کے طور پر اقبال کی شرح کے ساتھ ادب کے افق پر جلوہ گر ہیں۔

 ان کے اس قدر وقیع اور معیار و مقدار کے حوالے سے کام کو دیکھتے ہوئے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے دو تین عشروں میں انھوں نے یہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہوں۔سچ تو یہ ہے کہ 2017 اور 2018 میں انھوں نے باقاعدہ اسٹوڈیو کا قیام اور فارسی سیکھنے کی ابتدا کی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان پر ان کے نام کا اثر ہے، لہٰذا وہ عبادت میں مصروف ہیں۔

اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور احکامات کی پیروی خالص عبادت، بہترین اخلاق، تکبر سے دور، تعصب اور تنگ نظری اور بے زاری سے بے زار، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نیک اعمال، عبادت کے ہی زمرے میں آتے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت خوبصورت سرورق سے مزین دو کتابیں ہیں بعنوانات ’’محمد سے وفا‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ’’ابلیس سے جفا‘‘۔

میں بالکل نہیں بھولی ہوں کہ آج ابلیس سے جفا کی رونمائی ہے اور ہم سب انھیں مبارک باد پیش کرنے کے لیے دور دراز سے شادمانی کے احساس سے لبریز ہو کر آئے ہیں۔

تو صاحبانِ ذی وقار! میرا مضمون اسی کتاب پر لکھا گیا ہے، لیکن ’’محمد سے وفا‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ غیر مناسب نہیں ہوگا۔ اس کا مطالعہ کیجیے 384 صفحات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کے نگینے جگ مگ کر رہے ہیں۔ محبت جب عشق میں اور عشق جب جنون میں بدل جاتا ہے تو معشوق مختلف انداز فکر سے اپنے رب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتا ہے۔

جناب ڈاکٹر عابد شیروانی کی تحریر میں قرآنی آیات اور احادیث صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالہ جات موقع کی مناسبت سے آتے ہیں، ذکر ہے ابلیس کا تو ابلیس کا مقصد ہی انسانوں کو تباہی و بربادی کی راہ پر لگانا ہے۔ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے وہ انسانوں کے ذہنوں میں طمع اور تعیشات زندگی کا فتور پیدا کرتا ہے اور انسان اپنا مقام بھول کر کہ اللہ نے اسے اپنا نائب مقرر کیا ہے پستی میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

جائز و ناجائز، حرام و حلال کی تفریق اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہے، دولت کی ہوس خون کے رشتے بھلا دیتی ہے اور پھر جو ابلیس چاہتا ہے وہی دل خراش واقعات سامنے آتے ہیں۔ دنیا کی بے ثباتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے ان آیات کے تراجم اور احادیث کو یکجا کر دیا ہے۔ انھوں نے بہت آسان اور دلکش انداز میں اپنی بات کو علامہ اقبال کی نظم کے پس منظر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے مثال کے طور پر صفحہ 62 پر درج ہے:

قرآن میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے کائنات کے بجائے دنیاوی زندگی کو کھیل تماشا کہا ہے، ’’اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوہ ہے۔‘‘

یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے، اگر تم یقین رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہیں اجر دے گا۔

صفحہ 207 پر علامہ اقبال کے اشعار جو مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی، اسلام کے زریں اصولوں سے لاتعلقی اور ایمان کی کمزوری کا گویا نوحہ بیان کرتے ہیں۔

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے

نہ کہیں لذتِ کردار، نہ افکارِ عمیق

حلقہ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں

آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق

خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

ڈاکٹر صاحب نے ان اشعار کی وضاحت بہت فصاحت و بلاغت اور دلائل کے ساتھ کی ہے جوکہ ان کی تحریر کا خاصا ہے۔الفاظ معانی، تفہیم اور کلام کی تشریح نے طالب علموں کے لیے بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔ اور یہ انداز فکر ڈاکٹر عابد اور محبان اقبال کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔

’’ارمغان حجاز‘‘ کی سن اشاعت 1938 ہے، یہ کتاب علامہ اقبال کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ یہ اردو اور فارسی زبان کی شاعری پر مشتمل ہے۔ علامہ اسے اپنی زندگی میں مکمل نہیں کرسکے تھے اس کی وجہ ان کا فریضہ حج کی ادائیگی تھا۔ان کا ارادہ تو یہ تھا کہ اس کتاب کو مقدس مقامات پر مکمل کر لیں گے لیکن کمزوری اور بیماری کے باعث وہ اپنی خواہش کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔

کشمیر کے حالات نے بھی انھیں غمزدہ کر دیا تھا، ان کی نظموں میں جو سوز و گداز پایا جاتا ہے وہ انھی حالات کا شاخسانہ ہے۔علامہ اقبال کی فکر کی گہرائی اور وسعت قلب و نظر نے امت مسلمہ کی بربادی و زوال، مادی چیزوں کی طمع اور ایمان کی کمزوری کو شدت سے محسوس کیا تھا، یہ دکھ بھرا احساس شاعر کی رگ و پے میں سما گیا، ان کے کلام میں ملت ِ اسلامیہ کی شکست و ریخت کا غم صاحبانِ فکر و نظر کو حزن و ملال کی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے، ڈاکٹر عابد شیروانی کا شمار بھی ایسے ہی مفکروں میں ہوتا ہے اسی لیے ان کی انتخاب نظر ’’مسجد قرطبہ‘‘ پر پڑتی ہے اور وہ درد کی کیفیت میں مبتلا ہو کر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ سوزِ جگر کو الفاظ کے روپ میں ڈھال دیتے ہیں۔ اسی حوالے سے صرف اور صرف دو شعر:

جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں

ہے وہ ہی سرمایۂ داری بندۂ مومن کا دیں

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام

چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہاں بے ثبات

ڈاکٹر عابد شیروانی نے شیطان کی حکمت عملی کی آسان الفاظ میں تشریح کی ہے کہ:قیامت تک مومن کو غلامی آزادی نصیب نہ ہو، ابلیس اپنے چیلوں سے کہتا ہے کہ مسلمانوں کو ذہنی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور سے غلام رکھنے میں ہی ہماری نجات ہے اور اگر انھوں نے ہمارے نظریات سے آزادی پا لی تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی طرف پلٹ سکتے ہیں۔ بے شک طاغوتی نظام نے مسلمانوں کی سوچ و فکر پر غلبہ پا لیا ہے۔مضمون کے اختتام پر علامہ کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے جسے سن کر ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غش کھا کر گر گئے تھے ۔علامہ نے ان کی محبت کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے یہ کلام انھیں ہی نذرانے کے طور پر پیش کر دیا تھا:

تُو غنی ازھر دو عالم من فقیر

روز محشر عذر ھائے من پذیر

گر حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پنہاں بگیر

(تقریب تعارف کے موقع پرپڑھا گیا مضمون۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں