اپنے آپ کو پہچانو

ارسطو، افلاطون، یوکلڈ اور گیلن کے وہ خزانے تھے جو مشرق کی لائبریریوں میں محفوظ اور پھیلائے گئے تھے


[email protected]

1453 کے موسم بہار میں، عثمانی توپیں گرجنے لگیں اور قسطنطنیہ کی قدیم دیواریں ٹوٹ گئیں، لیکن رومی سلطنت کی اس آخری باقیات کا زوال صرف ایک جغرافیائی سیاسی موڑ نہیں تھا، یہ ایک فکری انقلاب کی غیر متوقع چنگاری بن گئی۔

اس کے بعد بازنطینی علما کا ایک بڑا ڈائسپورا شروع ہوا۔ مغرب کی طرف بھاگتے ہوئے، یہ ماہر جلاوطن اپنے ساتھ کھوئی ہوئی دنیا کی بچائی ہوئی باقیات لے کر گئے: مخطوطات اور مقالے، کلاسیکی یونان اور بازنطیم کے طویل عرصے سے فراموش شدہ متن۔

مؤرخ ایڈورڈ گبن کے الفاظ میں، انھوں نے ’’تہذیب کی مقدس آگ کو جنم دیا، جسے انھوں نے اٹلی میں دوبارہ جلایا اور مغربی دنیا میں پھیلا دیا۔‘‘ ارسطو، افلاطون، یوکلڈ اور گیلن کے وہ خزانے تھے جو مشرق کی لائبریریوں میں محفوظ اور پھیلائے گئے تھے جب کہ مغربی یورپ کا بیشتر حصہ تاریک دور کے فکری سائے میں ڈوبا ہوا تھا۔

اٹلی، اپنے نشاۃ ثانیہ کے آغاز پر، قدیم حکمت کی اس اچانک آمد کے لیے زرخیز مٹی فراہم کرتا تھا۔ پیٹرارچ اور بعد میں مارسیلیو فِکینو جیسے انسان پرستوں نے ان تحریروں کو جوش و خروش سے پکڑ لیا۔ ان کے نزدیک یہ کام قدیم کے آثار سے زیادہ تھے۔ وہ انسانی دماغ کی مکمل صلاحیت کو کھولنے کی کنجی تھے۔

پیٹرارک نے ایک بار اعلان کیا، ’’قدیم لوگ ہمارے آقا نہیں ہیں بلکہ ہمارے رہنما ہیں۔‘‘ یہ وہ جذبہ تھا،خواہش صرف ماضی کی نقل کرنے کی نہیں بلکہ اس سے آگے نکلنے کی جو نشاۃ ثانیہ کی تعریف کرنے والی اخلاقیات بن گئی،فکری مزاج میں یہ تبدیلی بہت گہری تھی۔ صدیوں سے، قرون وسطیٰ کے یورپ کو علمیت کی سخت رکاوٹوں نے جکڑا ہوا تھا، جس نے عقیدے کو استدلال کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی تھی لیکن شاذ و نادر ہی قائم کردہ عقیدہ کی حدود سے باہر نکلا تھا۔

کلاسیکی علم کی دوبارہ دریافت نے ان رکاوٹوں کو توڑ دیا۔ اب صرف ارسطو یا بطلیموس کے کاموں کی تعریف کرنے پر راضی نہیں، نشاۃ ثانیہ کے مفکرین نے قدیم زمانے کی حکمت پر سوال اٹھانا، تجربہ کرنا اور بالآخر چیلنج کرنا شروع کر دیا۔اس تبدیلی نے اپنے چیمپیئن نکولس کوپرنیکس جیسی شخصیات میں پایا، جنھوں نے کائنات کے اپنے ہیلیو سینٹرک ماڈل کے ساتھ صدیوں کے جیو سینٹرک آرتھوڈوکس کو برقرار رکھا۔

’’ بازنطیم کی راکھ سے، یورپ کا عظیم فکری احیاء پیدا ہوا،ایک فینکس پرواز کر رہا تھا۔ نشاۃ ثانیہ، جو اس مشرق کی طرف خروج سے ہوا، تحقیقات کا ایک اہم مرکز بن گیا، جس میں طویل عرصے سے جاری مفروضوں کو چیلنج کرنے اور مشاہدے اور استدلال کے ذریعے سچائی تلاش کرنے کی ہمت ہوئی۔

آج سے 2600 سال پہلے قدیم یونانی شاعر پنڈرا نے لکھا تھا ’’ اپنی ذات کی پہچان کے ذریعے وہی کچھ بنو جو تم ہو‘‘ اس کا مفہو م کچھ یوں ہے کہ آپ ایک خاص قسم کی شکل و شباہت اور رحجانات کے ساتھ پیدا ہوئے ہو جو تمہارے مقدر کی نشان دہی کرتے ہیں اس مقدر کی تہہ میں صرف اور صرف آپ ہو اکثر لوگ وہ کچھ کبھی نہیں بن پاتے جو کہ و ہ حقیقت میں ہوتے ہیں ،اسی لیے وہ خود پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمیشہ دوسروں کی مرضی و منشا کے مطابق کام کرتے ہیں اس طرح وہ اپنے چہرے پر نقاب اوڑھ کراپنی حقیقت اورفطرت چھپا لیتے ہیں۔

1760 میں چار سال کی عمر میں موزارٹ نے اپنے باپ کی ہدایت پر پیانو اپنے ہاتھ میں پکڑ ا موزارٹ نے اتنی کم عمری میں پیانو بجانے کے بارے میں اپنی خواہش کااظہار کیا تھا جب کہ اس کی سات سالہ بہن پہلے ہی پیانو سیکھناشروع کرچکی تھی دراصل جب اس نے یہ دیکھا کہ اس کی بہن کو پیانو بجا نے کی وجہ سے والدین کی طرف سے بہت پیار اور محبت ملی ہے تو اپنے ماں باپ کا پیار اور توجہ حاصل کرنے کے لیے اس کے دل میں بھی پیانو سیکھنے کا شو ق پیدا ہوا۔

پر یکٹس کے ابتدائی چند مہینوں میں اس کے باپ لیو پو لڈ نے جو خود بھی ایک پائے کا پیا نو نواز تھا یہ بات محسو س کی کہ اس کا بیٹا موزارٹ غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے سب سے حیران کن بات اس کی عمر تھی اسے پیانو کی پریکٹس کا اتنا جنون تھا کہ رات گئے اس کے والدین کو اسے پیانو سے گھسیٹ کر جدا کرنا پڑتا پانچ سال کی عمر سے ہی اس نے اپنی سریں بنانا شروع کر دی.

موزارٹ نے اپنی مہارت سے درباری سامعین کو مبہوت کر کے رکھ دیا اور یورپ کا ہر شاہی دربار اس بچے کی فنی مہارت اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا خواہش مند بن گیا مگر جوں جوں اس نے بلو غت میں قدم رکھے اس کے اندر ایک نئی ہلچل مچ گئی وہ سو چتا کہ کیا اس کی خوشی کا سبب پیا نو ہے یا لوگوں کی طرف سے ملنے والی توجہ اور پیار ۔ وہ الجھا ؤ کا شکار ہوگیا سالہا سال تک موسیقی کی دھنیں ترتیب دیتے دیتے اب وہ اپنی موسیقی تخلیق کرنے لگا تھا جو اس کااپنا اسٹائل کہلایا.

اس کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ روایتی موسیقی بجا کر شاہی درباریوں کو محظو ظ کرتا رہے جب کہ موزارٹ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی دنیا آپ تخلیق کرے اسی وجہ سے وہ ہر گز رتے لمحے خود کو اذیت میں محسو س کرتا 1777 میں اس کے والد نے موزارٹ کو 21سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ہمراہ پیر س جا نے کی اجازت دے دی اسے یہ بھی ہدایت کی کہ وہ وہاں جاکر اپنا میوزیکل گروپ بنانے کی کوشش کرے تاکہ خاندان کی کمائی کا سلسلہ جاری رہے.

مگر موزارٹ کو پیرس بالکل پسند نہ آیا اسے وہاں جو کام ملا وہ کسی طورپر اس کے مرتبے اور ٹیلنٹ کے مطابق نہ تھا اور وہ سالز برگ واپس آگیا اور خود کو مکمل طور پر والد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اس نے کورٹ مو سیقار کی معمولی نوکری تو قبول کر لی مگر اس کے دل میں ایک کھلبلی سی مچی رہتی ۔

اسے لگتا کہ و ہ عامیانہ قسم کے لوگوں کو اپنی موسیقی سے خوش کرکے اپنا قیمتی وقت برباد کررہاہے ایک موقع پر اس نے اپنے باپ کو لکھ بھیجا کہ میں ایک کمپوزر ہوں خدا نے مجھے موسیقی کے جس ٹیلنٹ سے نوازا ہے میں اسے برباد کرسکتاہوں نہ مجھے برباد کر نا چاہیے۔ موزارٹ کو ذاتی طورپر نہ تو پیانو کبھی محبوب تھااور نہ ہی موسیقی، اسے کٹھ پتلی کی طرح دوسروں کے سامنے موسیقی بجانا کبھی اچھا نہیں لگتاتھا.

اسے کمپوزنگ سے عشق تھا مگر اس سے بھی کہیں زیادہ تھیٹراچھا لگتا تھا وہ اوپر از کی کمپوزنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ہی اس کے دل کی آواز تھی۔ 1781 میں ویانا کے دور ے کے دوران موزارٹ نے تاریخی فیصلہ کیا کہ وہ کبھی سالز بر گ واپس نہیں جائے گااور اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیااور پھر وہ دن رات کمپوزنگ میں یوں مصروف ہوگیا گویا اس پر جنات کاسایہ ہو۔

آج پوری دنیا موزارٹ کی پوجاکرتی ہے کیونکہ اس نے اپنے دل کی بات مان لی تھی ۔ اصل میں ہم سب بھی موزارٹ ہی ہیں ہم سب کا بچپن سے جوانی تک کا سفر بڑا کٹھن اورتکلیف دہ ہوتا ہے اس دوران ہمارے ماں باپ ہم میں اپنے آپ کو تلاش کررہے ہوتے ہیں ۔

ہم سب بچپن سے نوجوانی تک اپنے آپ کے اور اپنے ماں باپ کے خوابوں کے درمیان پستے رہتے ہیں اس ساری کشمکش میں ہم خود کہیں گم ہوجاتے ہیں کھو جاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے خوابوں کو پورا کر نے کے لیے جس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہمارے ذہنی رحجانات اور ہمارے خوابوں سے کوئی مطابق نہیں رکھتے ہیں، اس لیے ہماری قدرتی صلاحیت اور قابلیت کو دیمک چاٹنا شروع کر دیتی ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنے سماج میں ہر شعبے میں دولت بنانے والی مشین تو جابجا نظر آتی ہیں لیکن کہیں بھی انسان نظر نہیں آتے آج ہمیں اپنے سماج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں انسانوں کاقحط آگیا ہوہماری زمین وہ بنجر زمین بن کے رہ گئی ہے جو انسان نہیں صرف مشینوں کو جنم دے رہی ہے ۔ سب کی سب بے حس ہیں فقط دولت تیار کرنے والی مشینیں ہیں ، جنھیں پیار ، محبت ، سکو ن، اخوت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے انھیں صرف گریس، پٹرول اورمٹی کے تیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں