کوئی علم معاشرے سے علیحدہ نہیں ہوتا، اپنے دائرے کی حد تک معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے تمام دنیا میں جامعات کا اولین کام اعلیٰ تعلیم کی درس و تدریس کے ساتھ جامعات کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ معاشرے کے مسائل کے اسباب کا تعین کرکے اس کے تدارک کے لیے حل تلاش کرے اور معاشرے کو وہ رہنما اصول فراہم کرے جس کی روشنی میں معاشرے کی تعمیر اور ترقی ممکن ہو سکے۔ جامعات میں یہ کام تحقیق سے لیا جاتا ہے۔
تحقیق ایک صبر آزما اور محنت طلب کام ہے، حقائق چھپے ہوتے ہیں، نامعلوم ہیں انھیں معلوم کرنا، کچھ باتیں معلوم بھی ہیں تو ان کو نئے زاویے اور نئے نقطہ نظر سے جائزہ لے کر اس طرح پیش کرنا کہ حقیقت کے مزید پہلو سامنے آ سکیں۔ تحقیق کو بند کنوؤں سے نکل کر کھلے سمندر میں پیراکی کرنے کا نام دیا جاتا ہے۔
تحقیق میں کیونکہ حقائق کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا ہے لہٰذا تحقیق نئے خیالات کو واضح کرنے اور مقاصد کے حصول کو سمجھنے میں معاون ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو مختلف مسائل درپیش ہیں ہماری جامعات اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ عمل انجام دے سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں جامعات میں معیاری تحقیق کا فقدان ہے، ہمارے یہاں جو تحقیقی سرگرمیاں جامعات میں دیکھنے میں آ رہی ہیں وہ زیادہ تر اساتذہ کے ذاتی مفادات اور ترقیوں کے مقصد کے لیے ہوئی ہیں۔
جامعات میں اعلیٰ سطح پر ترقی کے حصول کے لیے ریسرچ پیپرز کا لکھنا اور شایع کرانا لازمی قرار دینے کے سبب اساتذہ کو بھی اس جانب آنا پڑا۔ تحقیق کے لیے تحقیقی مزاج کی ضرورت ہوتی ہے، بیش تر اساتذہ درس و تدریس کے عمل کو بہ خوبی انجام دے لیتے ہیں لیکن تحقیقی مزاج نہ ہونے کے سبب ان کے لیے یہ عمل ایک کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے لہٰذا وہ اپنی ترقی اور بقا کے لیے ناجائز ذرایع اختیار کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں وہ کسی اور شخص کو معاوضہ دے کر مقالہ لکھوا لیتے ہیں ایسے اشخاص کو معاوضے سے غرض ہوتی ہے۔ معاوضہ لے کر لکھنے والے عمومی طور پر علمی بددیانتی یعنی سرقے بازی کے الزامات سے بے خوف ہوتے ہیں لہٰذا وہ سرقے سے کام لینے میں کوئی آر محسوس نہیں کرتے۔
سرقے کا انکشاف ہونے کے بعد مقالہ نگاروں پر الزام آ جاتا ہے بعض اساتذہ اپنے شاگردوں کی تحقیق کو اپنے نام سے منسوب کرکے اس کے حصے دار بن جاتے ہیں ایسے ریسرچ پیپرز ریسرچ کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ان کا علم میں اضافے اور معاشرے کی بہتری کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ وقت کی دھول میں دب کر جامعات کی الماریوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اچھی شہرت کے حامل اساتذہ کے پاس کسی مزید طالب علم کے لیے گنجائش نہیں ہوتی، ایسی صورت میں طالب علم دوسرے اساتذہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایسے اساتذہ جو نہ تحقیقی مزاج رکھتے ہیں اور نہ ہی ذوق و شوق، اہلیت سے عاری یہ اساتذہ اپنے مفادات کی خاطر ان طلبا کو اپنی زیر نگرانی تحقیق کے لیے مجبور یا آمادہ کر لیتے ہیں اور ان کے نگران بن جاتے ہیں، ان کی نگرانی میں تحقیق کا کام آگے بڑھا اور مکمل بھی ہوا تو ظاہر ہے غیر معیاری ہی ہوگا۔
اس کے نتیجے میں اساتذہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس عمل کے نتیجے میں ذہین اور ہونہار طلبا ضایع ہو جاتے ہیں جو قومی نقصان ہے۔تحقیق میں موضوع کا انتخاب ایک اہم ترین مرحلہ ہے بدقسمتی سے موضوع کے حوالے سے ہماری جامعات ایک ہی ڈگر پر گامزن ہیں۔ موضوع کے انتخاب کے وقت طلبا کی ذاتی دلچسپی، قلبی میلان، اس کے رجحانات، صلاحیت، قابلیت، استعداد کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے، ہمارے یہاں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
کسی موضوع پر کہیں کوئی کام ہوا ہے کچھ لاعلمی میں کچھ ارادہ ’’وہی عنوان دوبارہ لے لیا جاتا ہے تاکہ اسے سامنے رکھ کر کام آسانی سے اور جلد کر لیا جائے۔ موضوعات بھی ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمارے مسائل اور ہماری سماجی ضرورتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لہٰذا ہماری جامعات میں ہونے والی تحقیق علم اور معاشرے دونوں کے لیے بے فیض رہی ہیں۔
ہمارے یہاں تحقیقی مقالات عام طور پر ایک ہی سانچے میں ڈھلے نظر آتے ہیں۔ طوالت ہمارے جامعاتی مقالات کا سب سے بڑا نقص ہے، یہ دراصل مقالہ کو خاص حجم تک پہنچانے کی مصنوعی کوشش کا نتیجہ ہے۔محقق کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کون سا مواد کس جگہ اور کس حد تک آنا چاہیے، وہ مجموعی طور پر سارا مواد جو ان کی دسترس میں آتا ہے، صفحات پر انڈیل دیتے ہیں، اس سے اصل موضوع ہی دب جاتا ہے۔
نتیجے میں تحقیق بے مقصد اور بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ مقالے کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ تحریر کیا جائے اس میں وحدت کا اظہار ہو، تحقیق میں کوئی پیراگراف تحقیق کے مرکزی خیال سے باہر نہ ہو بلکہ اس کے تابع ہو۔ غیر متعلقہ مواد جس کی تحریر میں ضرورت نہیں خواہ کتنی محنت، تلاش اور جستجو سے حاصل کیا گیا ہو، شامل نہیں کرنا چاہیے۔ بات کو منطقی ترتیب کے ساتھ صاف اور واضح اسلوب میں موزوں اور کم از کم الفاظ میں بیان کیا جانا ضروری ہے۔
قیاس بھی منطقی بنیادوں پر ہونا چاہیے اس میں بھی اصل ماخذ سے براہ راست رجوع کیا جانا چاہیے۔ایک تاثر ہے کہ ہماری جامعات اپنی فکر کے حوالے سے آزاد نہیں ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ بعض موضوعات حساس ہوتے ہیں ان پر آزادی کے ساتھ لکھنے میں عمومی طور پر لوگ خوف محسوس کرتے ہیں کہ کہیں ان کی پریشانیوں میں اضافہ نہ ہو جائے۔
میری ذاتی رائے میں نگران اور طلبا اس کے لیے آمادہ نہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ اس عمل سے دور رہیں۔ اگر وہ اس کے لیے آمادہ ہیں تو پھر تحقیق کا عمل بھی بے خوفی کے ساتھ انجام دیں، نتائج جو رخ اختیار کر رہے ہوں ان نتائج کا برملا اظہار علمی دنیا کے سامنے جرأت اور دیانت داری سے کریں، ایسی صورت میں ہی تحقیق معاشرے کے لیے سود مند ہوگی۔
مذہبی موضوعات بہت حساس ہوتے ہیں اس سے عوام الناس کے جذبات اور احساسات منسلک ہوتے ہیں، ان موضوعات پر لکھتے وقت احتیاط کی زبان استعمال کی جانی چاہیے۔اعلیٰ سطح پر ترقی کے حصول کے لیے ریسرچ پیپرز لکھنا اور شایع کرانا لازمی قرار دیے جانے کے باعث ریسرچ کے حوالے سے جامعات میں ایک دوڑ شروع ہو گئی ہے۔
اس سے معیاری تحقیق کا عمل ہی متاثر نہیں ہوا ہے بلکہ اساتذہ کا درس و تدریس کا عمل بھی متاثر ہوا ہے، جو طلبا کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ علمی تحقیق دنیا بھر میں انفرادی سطح سے زیادہ جامعاتی سطح پر ہوتی ہے۔ اگر تحقیق معیاری اور نتیجہ خیز ہو تو علوم کی ترقی کا باعث نہ بنے اور معاشرے کو فائدہ نہ پہنچا سکے ایسی تحقیق جامعاتی اور ملکی و قومی وسائل کے ضیاع کا باعث بنتی ہے اس لیے پالیسی ساز اداروں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اور ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ ملکی سطح پر جو قومی وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے اس کو روکا جا سکے۔