’’توقع ہے کہ تاریخ مجھے اچھے الفاظ میں یاد کرے گی۔‘‘
یہ تھا اس پریس کانفرنس کا خلاصہ جو 2014 میں اقتدار چھوڑتے ہوئے وزیراعظم من موہن سنگھ نے کی۔تاریخ نے ان کے کردار کو کیا جانا؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے، وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے اپنے پیش رو اور سیاسی مخالف کی وفات پر ایک ہفتے کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔
ملک بھر سے اور عالمی سطح پر بھارت کی معاشی کایا پلٹنے میں ان کے کردار پر تحسین کی جا رہی ہے۔پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ’ریلکٹنٹ کنگ‘ کے طور پر جانے والے اور دھیمے لہجے کے حامل ڈاکٹر منموہن سنگھ جمعرات کو 92 سال کی عمر میں چل بسے۔وہ بھرپور زندگی جیئے۔ وہ اصلاً ماہر تعلیم اور اکانومسٹ تھے لیکن انھوں نے خودکو ایک کامیاب اور منفرد سیاست دان کے طور پر بھی منوایا۔
منموہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو متحدہ ہندوستان میں ضلع چکوال پنجاب کے گاؤں ’’گاہ ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے کیمبریج یونیورسٹی سے ماسٹرز اور آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی۔ہندی کے علاوہ، اردو، انگریزی، پنجابی بھی روانی سے بول سکتے تھے۔ وہ اکثر و بیشتر اردو ہی میں تقریر لکھتے تھے بلکہ اسی زبان میں خطاب بھی کرتے تھے۔ من منموہن سنگھ ہندوستان کے پہلے سکھ وزیر اعظم تھے۔ جواہر لال نہرو اور اندراگاندھی کی طرح دو بار حکومت میں رہنے والے تیسرے وزیر اعظم تھے۔
پروفیسر منموہن سنگھ ان معدودے چند شخصیات میں سے تھے جنھوں نے متحدہ ہندوستان، تقسیم ، 50/ 60 اور 70 کی دہائی کی سرد جنگ کا عروج، 80 کی دہائی میںسوویت یونین کو بکھرتا اور امریکا کو نئے روپ میں ابھرتا دیکھا،80 کی دہائی کے دوران انقلابی ٹیکنالوجی تبدیلیوں کا ظہور بھی دیکھا جس نے عالمی معیشت، معاشرت اور سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
بعد ازاں 90 اور اگلی دو دہائیوں میں دنیا کو سیاسی معاشرتی اور معاشی اعتبار سے بنتے بگڑتے اور بدلتے دیکھا۔تقسیم ہند کے بعد بھارتی معیشت چار دہائیوں تک روایتی پالیسیوں کی پابند رہی، حکومتی مداخلت صنعت ،تجارت اور کاروبار میں بہت زیادہ رہی۔ یہ زمانہ سینٹرل پلاننگ کا زمانہ تھا روس کی طرز پر بھارت میں بھی پانچ سالہ صنعتی اور معاشی پروگرام ترتیب دیے گئے۔تاہم 1991 میں بھارتی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہوئی تو آئی ایم ایف کے آستانے پر حاضر ہونا پڑا۔ 2.2 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف کے پروگرام میں اصلاحات کی کڑی شرائط شامل تھیں۔
من موہن سنگھ نے بطور وزیر خزانہ اس موقع کو غنیمت جانا ، بطور اکونومسٹ اپنی معاشی سوجھ بوجھ, بطور گورنر اسٹیٹ بینک حاصل شدہ مہارت اور بدلتے ہوئے عالمی ، تجارتی اور معاشی منظر کے تجزیہ پر مبنی دور رس اصلاحات کا آغاز کیا۔ شدید مخالفت کے باوجود ان اصلاحات پر درآمد سے انھوں نے اور کانگریس نے ایک ماڈرن صنعتی و تجارتی معیشت کی بنیاد رکھ دی۔
ان اصلاحات کے نتیجے میں معیشت پر روایتی پابندیاں اور بے محابا حکومتی مداخلت دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی۔ امپورٹ آسان کر دی گئی ،ایکسپورٹس کی حوصلہ افزائی کی گئی، روپے کی قدر میں کمی کی گئی،نقصان میں چلنے والی بیشتر پبلک سیکٹر کارپوریشنوں کو نجکاری کی نذر کر دیا گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا عمل شروع ہوا۔ ان انقلابی اصلاحات کی ساخت اور تشکلیل منموہن سنگھ کی سربراہی میں بطور وزیر خزانہ سرانجام پائی۔ ان اصلاحات کی تشکیل اور عمل درامد میں کانگریس کے وزیراعظم نرسیما راؤ کا کردار بھی قابل ذکر ہے۔ بھارتی معیشت ان اصلاحات کے نتیجے میں نئے ورلڈ آرڈر میں تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر سامنے ائی۔
آئی ٹی کی صنعت بھی اس دوران پاؤں جما چکی تھی۔ ان تمام اقدامات نے گروتھ پر مبنی ایسے معاشی ڈھانچے کی بنیاد رکھ دی جس کی وجہ سے تادیر بھارت نے 8÷ سے زائد شرح نمو سے ترقی کرکے دنیا کے ہر بڑے سیاسی اور تجارتی فورم پراپنی شناخت بنائی۔یہی وہ زمانہ تھا جب چین میں ڈینگ ژیاؤ پنگ کی نافذ کی ہوئی معاشی،تجارتی اور صنعتی اصلاحات کے نتیجے میں چین نے معجزاتی ترقی کا سفر شروع کیا۔
90 ہی کی دہائی میں جنوبی کوریا ،تائیوان، انڈونیشیا، ملائیشیا،سنگاپور اور تھائی لینڈ نے بھی تیز معاشی ترقی کا سفر جاری کیا۔اور یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان سیاسی اور انتظامی کھلواڑ کا شکار رہا۔ حکومتیں بنانے اور گرانے کا ایک لا یعنی سلسلہ جاری رہا۔ معیشت بدحال اور بے حال ہوتی گئی، آئی ایم ایف کے پاس بار بار بیل اؤٹ پیکیج کے لیے جانا پڑا۔ دنیا میں رونما ہونے والے نئے اکنامک ورلڈ ڈالر آرڈر سے اہل اقتدار مکمل لا تعلق رہے۔ اکنامک لبرلائزیشن کے نتیجے میں تیزی سے امپورٹ ٹیرف کم کیے گئے تو ملک میں اندھا دھند امپورٹس کے ساتھ بے محابا تصرف کا کلچر شروع ہوگیا۔ بیلنس آف پیمنٹس کا بحران مستقل ہوکر معیشت سے چمٹ گیا۔
اہل اقتدار کے انداز سیاسیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا معاشی اور صنعتی ڈھانچہ فرسودہ کا فرسودہ رہا۔وہی مسائل جو 90 کی دہائی میں معاشی بدحالی اور بدانتظامی کا باعث بنے، آج بھی کم و بیش وہی مسائل معیشت پر پنجے کاڑے ہوئے ہیں۔ زندہ اور جمود کی شکار قوموں میں یہ فرق فیصلہ کن ہوتا ہے کہ زندہ قومیں وقت کی نزاکت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے اپنی بیڑیاں توڑ کر ایک نئے سفر کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔دوسری طرف جمود کی شکار قومیں اپنی مظلومیت کے آنسو پونچھنے سے ہی فارغ نہیں ہوتیں۔من موہن سنگھ نے 92 سال کی عمر میں دنیا کے کئی ادوار دیکھے اور پوری تندہی اور منکسر المزاجی سے بھارت کے نئے عہد کے معماروں میں نام لکھوا گئے۔
اس موقعے پر اپنی حالت زار پر شہاب جعفری یاد آئے۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
تری رہبری کا سوال ہے ہمیں راہزن سے غرض نہیں