پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گئے ہوئے ڈھا ئی برس ہو چکے۔نو مئی کے واقعے کو ڈیڑھ سال گزر چکا اور بانی پی ٹی آئی کو جیل کے اندر بھی ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔جنرل فیض حمید کی قید کو بھی آدھا سال گز ر چکا ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر اور خاص کر 26 نومبرکے واقعے کے بعد جو اہم پیش رفت ہوئی ہے، وہ یہ کہ بانی پی ٹی آئی بلآخر مذاکرات کے لیے راضی ہو گئے ہیں، وہ جو ان کی باتوں میں جذباتی پن تھا، وہ تھم چکا ہے۔اب نظر کچھ ایسا آرہا ہے کہ پی ٹی آئی ایک نہیں بلکہ دو ہیں، ایک ملک کے اندر اور ایک ملک کے باہر۔جیسا کہ متحدہ دو ہوا کرتی تھیں۔ایک ملک کے اندر اور ایک ملک کے باہر۔ جو متحدہ ملک سے باہر تھی، وہ بغاوت کی باتیں کرتی تھی اور جو متحدہ ملک کے اندر تھی وہ ایسی باتوں سے گھبراتی تھی۔
پھر دونوں دھڑے الگ الگ ہو گئے اور پھر ایسا بھی ہوا کہ دونوں کا وجود آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یا پھر ایسا کرایا جاتا ہے؟پی ٹی آئی کے بانی اور متحدہ کے بانی میں کیا مشترکہ ہے اور کیا غیر مشترکہ؟اس سوال کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اہمیت اس بات کی ہے کہ متحدہ کے زمانوں میں پالیسی ایک ہی تھی، وہ تھی افغان پالیسی اور جنرل ضیاء الحق کا بنایا ہوا بیانیہ۔وہ ہی طالبان دوستیاں اور انتہا پرستی کی پالیسی۔اسی وجہ سے بانی متحدہ نے بغاوت کے جھنڈے گاڑے، ان کا content الگ ہے۔اب ریاست کی پالیسی اور بیانیہ میں تبدیلی آچکی ہے۔ بانی متحدہ کی پیچھے بھی لگ بھگ وہ ہی قوتیں تھیں جو پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتی تھیں اوراب بانی پی ٹی آئی کے پسِ پردہ بھی یہی عناصر ہیں۔
تاریخی اعتبار سے پاکستان کی ریاست پر انھیں طاقتوں کا غلبہ رہا جو اس ملک کو سرد جنگ کے پس منظر میں سوویت یونین کے مقابل فرنٹ لائن اسٹیٹ سمجھا کرتے تھے۔امریکا ان عناصر کو ڈالرز دیتا تھا اور بدلے میں وہ بطورحکمران طبقہ ان کی پالیسیوں اور سازشوں میں سہولت کار تھے کہ بس یہاں پر صرف جمہوریت کو کمزور بنانے میں ان کا ساتھ دیا جائے۔سرد جنگ کے اس ٹکراؤ میں جب یہاں آمریت کا راج ہو تا تھا تو وہ سپر طاقتوں کے عزائم کو صدقِ دل سے پروان چڑھاتے تھے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ سپر طاقتیں کسی جمہوری تحریک کو اجا گر کرتے تھے۔یہاں جمہوریت بھی بیساکھیوں کے دم پر تھی، لہٰذا ایک لحاظ سے وہ بھی بیرونی آقاؤں کی مرہونِ منت تھی۔
پینتیس سال پہلے سوویت یونین کا خاتمہ ہوا۔C-130 کریش ہوا۔ سوویت یونین جب افغانستان سے نکلا تو یہاں بھی جمہوریت کے لیے راہیں ہموار ہوئیں۔مگر ضیاء الحق صاحب نے آئین میں ترامیم کے ذریعے 58(2)(b) کی تلوار لٹکتی چھوڑ گئے اور اسی تلوار سے بذریعہ غلام اسحاق خان یہاں جمہوریت کا قلع قمع کیا گیا۔
ان جمہوری حکومتوں کا اسی تلوار سے خاتمہ کرتے کرتے آٹھ سالوں میں چارحکومتوں کو گرادیا گیا۔ان جمہوری حکو متوں سے پہلے صرف ایک جمہوری حکومت ایسی تھی جس نے پانچ سال کی جمہوری مدت مکمل کی۔ وہ تھا بھٹو صاحب کا دورِ حکومت جس نے اپنی مدت مکمل کی اور اس ملک کو ایک مکمل آئین بھی دیا۔ اس جمہوری حکومت نے اپنی مدت شا ید اس لیے بھی مکمل کی کیونکہ ہم نے ملک کا آدھا حصہ گنوا ا دیا تھا۔
بھٹو صاحب اپنی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے شاید زیادہ ہی پر اعتماد ہو چکے تھے، ایسے میں جنرل ضیا ء الحق ان کے قریب کیے گئے۔ ان کی سفارش کی تھی اردن کے شاہ حسین اور شاہ ایران نے اور ان دونوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ امریکا کے بہت قریب تھے۔بھٹو صاحب کے اسلامی ملت پروگرام یعنی پاکستان میں اسلامی سر براہی کانفرنس کا انعقاد کرنا اور ایٹمی پروگرام کی شروعات ان کو راس نہ آئی کیونکہ یہ دونوں اقدام بیرونی آقاؤوں کو سخت ناگوار گزرے۔اس وقت امریکا کے طاقتور اداروں میں وہ سوچ بستی تھی جس کی شکل آج ہمیں زلمے خلیل زاد کی صورت میں نظر آتی ہے۔
اب امریکا بھی کمزور ہو تا نظر آرہا ہے اور دنیا میں ایک نئے بلاک کی بازگشت ہے۔روس کے جارحانہ انداز کی بدولت مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوئی اور اسی وجہ سے اس نئے بلاک کے بننے میں ہمیں تاخیر نظر آئی۔اس بار امریکا کا صدر ایک ایسا شخص بننے جا رہا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ خود امریکا کے نقصان کی وجہ بنے گا۔ٹرمپ کے صدر بننے سے چین کے لیے مالی و اقتصادی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ چین کی امریکا میںبرآمدات پر ٹرمپ کی حکومت میں زیادہ ٹیکسز اور ڈیوٹی لاگو ہونے جا رہی ہے۔
پاکستان کی چین سے قربت ہی پاکستان کی سیاست میں بگاڑ کا عکس ہے،اس ملک کے داخلی اور سیاسی مسائل میں ہمیشہ سے بیرونی طاقتوں کی مداخلت رہی اور ہم نے جب بھی اس شکنجے سے نکلنا چاہا نہیں نکل سکے۔ذوالفقار علی بھٹو نے بارہا پاکستان کو ان عوامل سے پاک کرنا چاہا لیکن نہ کرسکے اور جب ہم نے یہ دیکھا کہ امریکا نے ہندوستا ن کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کر لیے ہیں تو ہم نے چین کی طرف قدم بڑھائے،اس کا جواب بھی ہمیں اندرونی طور پر ملا۔
ان تمام معاملات میں ہندوستان پیش پیش رہا وہ اس لیے کہ ہندوستان ایسا نہیں سمجھتا تھاکہ معاشی طور پر مضبوط پاکستان اخلاقی طور پر اپنے ایٹمی پروگرام کو اس طرح سے برقرار رکھ پائے گا اور ایک سیکیولر روڈ میپ جو جناح نے اپنی گیارہ اگست کی تقریرمیں دیا تھا، اس روڈ میپ پر مضبوطی سے قدم جما کر اپنا کشمیر پر دعویٰ برقرار رکھے گا۔ بہر حال کشمیر پر ہمارا دعویٰ ہماری جمہوری مسافتوں کے درمیان رکاوٹ بن کر سامنے آیا۔اس مقصد کو مذہبی انتہا پرستی لے اڑی ، ہندوستان نے اس کے خلاف خوب پرو پیگنڈہ کیا، غلط رنگ دیا۔ہم نے تو افغانستان میں اپنے دوست پیدا کیے مگر وہ ہی ہمارے سب سے بڑے دشمن ٹھہرے۔خان صاحب ایم کیو ایم کے قائد سے اس لیے مختلف ہیں کہ پالیسی شفٹ ریاست کی سوچ کے اندر آیا ہے، خوداس کو بھی ریاست کو اندر سے ٹکراؤ کا سامنا ہے۔اس میں بیرونی طاقتیں بھی ملوث ہیں۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ، باہر بیٹھی پی ٹی آئی کو اچھا نہیں لگ رہا ہے۔مقامی پی ٹی آئی اس سلسلے کو بڑھانا چاہتی ہے کیونکہ 26 نومبر کے واقعے کے بعد ان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ ریاست ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی ہے۔ ا ن کی ان حرکتوں سے جو بھی نقصان ہوا ہے وہ جمہوریت کو ہوا ہے ریاست کو نہیں، سویلین بالادستی کمزور ہوئی ہے ریاست نہیں۔
اس سال کے رخصت ہو نے تک پاکستان کی معاشی حیثیت تو ضرور مستحکم ہوئی ہے مگر سیاسی طو ر پر اب بھی کئی سوالات ایسے ہیں جن کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔اس ملک کی جڑوں میں پیوست ہو چکی ہے، یہ اشرافیہ جو گماشتہ خوروں کا ایک مجمع ہے۔ یہ لوگ بے تحاشا دولت مند ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے۔اقتدار کو اپنی سرمایہ داری سمجھتے ہیں۔اس اشرافیہ سے نجات کی ضرورت ہے مگر دور دور تک اس کے آثار نظر نہیں آتے۔
پاکستان کو ایک ماڈرن ریاست بن کر ابھرنا ہوگا جو اس وقت دنیا کے تصور میں دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے۔یہاں انتہا پرستوں کا ڈیرہ ہے۔ دنیا کے اس تصور کو ختم کرنے کے لیے انتہائی ٹھوس اور جامع اقدام کرنا ہوںگے۔پون صدی کا یہ سنگین بحران تھا،جہاں بیرونی طاقتوں نے اس ریاست کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے داخلی طور پر ایک قوت پیدا کی جس نے اس ملک کی معاشی حیثیت کو کمزور بنایا۔ ایک ایسی صورتحال پیدا کی کہ کسی طرح اس ملک کے ایٹمی پروگرام کو روکا جا سکے اور اس کے عوض امداد دی جائے ۔