انسانی تہذیب پر اثر ڈالنے والی کتب

مسلم فلسفیوں نے اس کتاب کو اپنی فکری دائرہ کار میں شامل کیا اور اس کے ساتھ اسلامی اصولوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی


زاہدہ حنا December 29, 2024

کتابیں ہمیشہ انسانی تہذیب کا آئینہ رہی ہیں اور ان کی بدولت ہی انسان کی فکری اور ثقافتی ارتقا کی داستان رقم ہوئی ہے۔کتب نہ صرف ہمارے خوابوں، آرزؤں اور جدوجہد کا عکس ہیں بلکہ یہ ہماری اخلاقی سیاسی اور سماجی ترقی کی سمت بھی متعین کرتی ہیں۔ ان میں وہ کتابیں جنھوں نے انسانی تاریخ کے دھارے کو موڑ کر نئی تہذیبوں کی بنیاد رکھی، ان میں الہامی کتابوں کا کردار سب سے اہم رہا ہے۔ قرآن ،زبور، تورات، انجیل اور گیتا جیسی کتابیں انسانی تاریخ کے سب سے بڑے فکری اثاثوں میں شامل ہیں اور ان کا اثر عالمی سطح پر پھیل چکا ہے۔

الہامی کتابوں کا اثر روحانیت سے تہذیبی تشکیل تک:

الہامی کتابیں انسانی فکر کی رہنمائی کرتی ہیں اور ان کا اثر نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ سماجی اور تہذیبی سطح پر بھی گہرا رہا ہے۔ قرآن نے انسانوں کو نہ صرف برابری انصاف اور علم کی اہمیت سے آشنا کیا بلکہ اس نے انسانوں کو ایک ایسی روحانی حقیقت سے جوڑا جس سے دنیا کی تمام تہذیبیں متاثر ہوئیں۔ قرآن کی آیات میں اس قدر جامعیت پائی جاتی ہے کہ ان کے ذریعے انسانوں کے سماجی اور روحانی مسائل کا حل پیش کیا گیا۔

اسی طرح زبور میں خدا کے قرب کی تلاش اور محبت کی گونج سنائی دیتی ہے جو انسانوں کو اپنے رب کے ساتھ ایک گہرا رشتہ قائم کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ تورات نے بنی اسرائیل کے لیے ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ فراہم کیا جس نے نہ صرف ان کی مذہبی زندگی کی رہنمائی کی بلکہ ان کے سماجی اور سیاسی اصولوں کی بنیاد رکھی۔ انجیل نے محبت قربانی اور انسانیت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس کے ذریعے ایک نئے روحانی تصور نے دنیا کو اپنی طرف مائل کیا۔ گیتا نے زندگی کے اخلاقی اصولوں اور دھرما (فرض) کی اہمیت پر روشنی ڈالی جس سے ہندوستانی تہذیب میں ایک نیا فکری اور روحانی رجحان پیدا ہوا۔

فلسفہ و سیاست پر اثر ڈالنے والی کتابیں افلاطون سے مارکس تک:

الہامی کتابوں کے ساتھ ساتھ وہ کتابیں بھی انسانی فکری ارتقا کا حصہ بنیں جنھوں نے فلسفہ سیاست اور سماجی نظام کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کتابوں میں افلاطون کی ریپبلک اور کارل مارکس و فریڈرک اینگلز کا کمیونسٹ مینیفیسٹو خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ ان دونوں نے انسانی تاریخ کے مختلف مراحل میں گہرا اثر ڈالا اور نئے خیالات کی بنیاد رکھی۔

افلاطون کی ریپبلک انصاف کی جستجو:

قدیم یونان میں جہاں فلسفے اور سیاست کے موضوعات پر گہری غور و فکر کی جاتی تھی افلاطون نے ایک ایسی کتاب لکھی جو نہ صرف فلسفہ کی اہم کتاب ہے بلکہ دنیا کی سب سے پہلی سیاسی دستاویز کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ ریپبلک میں افلاطون نے مثالی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے اور انصاف کی حقیقت پر روشنی ڈالی۔

افلاطون کے مطابق انصاف تب ہوتا ہے جب ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے کردار کو بخوبی ادا کرے اور دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ اس کتاب میں افلاطون نے یہ بھی کہا کہ فلسفی حکمرانوں کو ریاست کی قیادت سنبھالنی چاہیے کیونکہ وہ ہی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ریاست کے مفاد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

ریپبلک نے نہ صرف یونان بلکہ بعد میں اسلامی دنیا میں بھی اثرات مرتب کیے۔ مسلم فلسفیوں نے اس کتاب کو اپنی فکری دائرہ کار میں شامل کیا اور اس کے ساتھ اسلامی اصولوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ فارابی اور ابن رشد جیسے مفکرین نے افلاطون کی اس کتاب کو اسلامی فلسفے میں شامل کیا اور اس کے نظریات کو اسلامی سماج کی حقیقتوں کے مطابق ڈھالا۔

کمیونسٹ مینیفیسٹو انقلابی فکر کا آغاز:

انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے دوران یورپ میں جو معاشی و سماجی بے چینی پھیلی اس کے جواب میں مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینیفیسٹو لکھی جس میں انھوں نے طبقاتی جدوجہد کے نظریے کو پیش کیا۔ یہ کتاب ایک انقلابی دستاویز تھی جس نے عالمی سطح پر انقلابات کی لہر کو جنم دیا۔کمیونسٹ مینیفیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے کہا کہ تاریخ دراصل طبقاتی جدوجہد کی کہانی ہے اور سرمایہ داری نظام نے انسانوں کو امیر اور غریب کے دو طبقات میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس کتاب میں ایک غیر طبقاتی معاشرے کا خواب پیش کیا گیا جس میں وسائل پر سب کا برابر حق ہو اور جہاں مزدوروں کا استحصال ختم ہو۔

یہ کتاب نہ صرف یورپ بلکہ روس چین اور دیگر ممالک میں انقلاب کا سبب بنی۔ لینن کی قیادت میں بالشویک انقلاب اور ماؤ زے تنگ کی چین میں کمیونزم کی تحریک اسی کتاب کے خیالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اگرچہ کمیونزم کے نفاذ میں عملی مشکلات آئیں تاہم اس کتاب کا اثر اتنا گہرا تھا کہ اس نے دنیا بھر کے سیاسی نظاموں کو ہلا کر رکھ دیا۔

ریپبلک اور کمیونسٹ مینیفیسٹو دونوں مختلف زمانوں جگہوں اور خیالات کی نمایندگی کرتی ہیں لیکن دونوں میں ایک چیز مشترک ہے انسانیت کے لیے انصاف اور مساوات کی تلاش۔ افلاطون نے فلسفے کے ذریعے ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا جب کہ مارکس اور اینگلز نے طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے لیے معاشی انقلاب کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ کتابیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ خیالات اور نظریات کی طاقت دنیا کو بدل سکتی ہے۔ آج جب دنیا سماجی اور اقتصادی عدم توازن کا شکار ہے ان کتابوں کی تعلیمات ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں۔ ریپبلک اور کمیونسٹ مینیفیسٹو دونوں ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ ایک بہتر دنیا کے قیام کے لیے انصاف مساوات اور انسانی فلاح کے اصولوں کو اپنانا ضروری ہے۔

انسانی تہذیب پر اثر ڈالنے والی کتب کا مطالعہ ہمیں صرف تاریخ کے ایک حصے تک محدود نہیں رکھتا بلکہ یہ ہمیں اس بات کی سمجھ دیتی ہے کہ کس طرح خیالات نے انسانوں کی فلاح اور ترقی کی راہیں متعین کیں۔

 چاہے وہ الہامی کتابیں ہوں یا فلسفیانہ سیاسی اور سماجی نظریات پر مبنی کتابیں ان سب کا انسانی تہذیب کی تشکیل میں اہم کردار ہے۔ آج بھی یہ کتابیں ہمارے لیے نہ صرف فکری رہنمائی فراہم کرتی ہیں بلکہ ہمیں ایک بہتر اور انصاف پر مبنی سماج کے قیام کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں