ضعیف العمر… حکومتی توجہ کے محتاج

ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عمر رسیدہ شہریوں کی سہولت کے لیے اولڈ ایج ہوم قائم کیے ہیں


سرور منیر راؤ December 29, 2024

ضعیف العمری انسانی زندگی کا آخری مرحلہ شمار کیا جاتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں عمر رسیدہ افراد کو سینئر سٹیزنز کہا جاتا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور اکثر یورپی ممالک میں ضعیف العمری کی عمر 65سال شمار کی جاتی ہے۔ کچھ ممالک میںیہ عمر60سال ہے۔

جرمنی نے 1880میں ضعیف العمری کو پنشن اور سوشل سیکیورٹی کے نظام کو شروع کیا، بعدا زاں امریکا، آسٹریلیا، ایشیا اور کئی افریقی ممالک نے بھی ضعیف العمری کی پنشن اور سوشل سیکیورٹی کا آغاز کیا۔ سوشل سیکیورٹی کا ایک اہم مقصد عمر رسیدہ افراد کو با عزت اور کسی کی محتاجی کے بغیر زندگی بسر کرنے کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عمر رسیدہ شہریوں کی سہولت کے لیے اولڈ ایج ہوم قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک سرکاری سطح پر ایسے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جن میں دس فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت پاکستان نے ایک قومی ادارہ’’ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن‘‘ بنایا ہے۔ جو ایسے افراد کو ماہانہ گزارہ پنشن اور دوسری مراعات فراہم کرتا ہے۔ EOBIایک نیم خود مختار ادارہ ہے۔ پاکستان بھر میں اس کے 39دفاتر ہیں۔ ای او بی آئی 1976میں قائم ہوا۔

اس ادارے میں قائم پنشن فنڈ کو 1976سے 1990تک محفوظ رکھا گیا۔ جب وہ اچھی طرح مستحکم ہو گیا تو 1990 میں اس ادارے نے پنشن دینا شروع کی۔ آج کم از کم پنشن 10,000 روپے ہے ۔اس ادارے کے قیام کے بعد ایسے تمام نجی اداروں کو ای او بی آئی سے رجسٹر ہونے کا پابند کیا گیا،جہاں پانچ یا اس سے زیادہ ملازمین کام کرتے ہوں۔

اس میں رفاہی اداروں کے ملازمین بھی رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔رضاکارانہ یا ذاتی ملازم بھی اپنا نام درج کرا سکتے ہیں۔ رجسٹریشن کے لیے ای او بی آئی سے بلا معاوضہ فارم حاصل کیا جاتا ہے۔ادارے کے ویب سائٹ یا مفت مدد گار فون لائن 0800-3624پر بھی معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔

اس ادارے کے پاس وسائل کی کمی نہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ادارے میں جمع ارب ہا روپے اور کھربوں کی پراپرٹی کو سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا گیا ہے۔ای او بی آئی سکنڈل کی نشاندہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی کی ہے۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت EOBI کے اکاؤنٹ کا جائزہ لے کر عمر رسیدہ افراد کی ماہانہ پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کرے اور اس کے رجسٹرڈ افراد کو دوسرے ممالک کی طرح مراعات بھی فراہم کرے۔ دنیا بھر کی فلاحی ریاستیں اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے کئی منصوبے بناتی ہے کیونکہ ان بزرگ افراد نے اپنے ایام جوانی میں قومی پیداوار بڑھانے اور ملکی ترقی کے عمل میں اپنی جوانی اور صلاحیتیں صرف کی ہوتی ہیں۔

ضعیف العمری ایسا مرحلہ ہے جب انسان کو دوسرے کی مدد کی شدید ضرورت پیش آتی ہے۔ بہت حد تک انسان دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔آپ نے اکثر یہ دعائیں سنی ہوں گی کہ ’’یا اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا‘‘یا ’’یہ تو میرے بڑھاپے کا سہارا ہے‘‘۔

عمر رسیدہ یا بزرگ ہونا ایک ایسی علامت ہے جو نوجوان نسل کو اس منزل کا ادراک دلاتی ہے کہ انھیں بھی یہ مرحلہ دیکھنا ہے۔اگر ہم اسلامی تعلیمات کا غور سے مطالعہ کریں تو انتہائی واضح طور پر تکرار سے یہ حکم الٰہی ملے گا کہ اگر تم اپنے والدین کو بڑھاپے میں پاؤ تو ان کی اس طرح خدمت کرو جس طرح بچپن میںانھوں نے تمھاری دیکھ بھال کی اور انھیں ’’اف‘‘ تک نہ کہو۔ قرآن پاک کی دیگر آیات اور حدیث بنوی ﷺمیں بھی والدین کی حیثیت اور ان کی خدمات کے واضح احکامات موجود ہیں۔

 ہمیں اپنے بزرگوں کی زندگی آسودہ حال بنانے کے لیے خصوصی اہتمام کرنا چاہیے جس طرح معذور افراد کے لیے خصوصی تعلیم اور سہولتوں کے حوالے سے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں، اسی طرح وفاقی، صوبائی بلکہ بلدیاتی سطح پر بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی مراعات کے فراہمی ضروری ہے۔

خاص طورپر بے سہارا بزرگوں کی دیکھ بھال ہمارا قومی اور انفرادی فریضہ ہے۔ یونین کونسل یا ضلعی سطح پر اولڈ ایج ہومز بنانے کی ضرورت ہے۔ ان اولڈ ایج ہومز کے لیے وسائل ای او بی آئی اور حکومتی اداروں کے علاوہ این جی اوز اور مخیر حضرات یقینی طور پر فراہم کریں گے۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی آگے بڑھے اور اس تحریک کو منظم کرے اور بقول علمائے کرام ’’ثواب دورین حاصل کرے‘‘۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں