اسلام آباد:
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما رؤف حسن نے کہاکہ پی ٹی آئی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع توہوئے ہیں لیکن اس دوران جوڈویلپمنٹ ہوئی ہیں بشمول ڈی جی آئی ایس پی آرکی پریس کانفرنس وہ مذاکرات کے ماحول کو سازگار بنانے کیلیے مناسب نہیں ہیں۔
ایکسپریس نیوزپروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس وقت جہاں حکومت اور ہم لوگ کھڑے ہیں وہاں بہت خلا ہے، مذاکرات کے دو تین سیشن میں ہمارے سامنے حکومتی رویہ واضح ہوجائے گا کہ وہ کس حدتک سنجیدہ ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا تنویرحسین نے کہاکہ حکومت پر باہر سے یا بانی پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے، 2014 میں بھی دھرنا جو ہوا تھا اس وقت بھی ایکشن لیا جانا چاہیے تھا،9 مئی کے بھی فیصلے بہت پہلے ہو جانا چاہئیں تھے۔
فوجی عدالتوں کے حوالے سے جوباہرسے تنقید ہورہی ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ فوجی عدالتیں قانون اورآئین کے تحت کام کررہی ہیں، سیاسی معاملات مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیے جاتے ہیں۔
اس لیے مذاکرات تو ہونے چاہئیں لیکن یہ مذاکرات بھی کر رہے ہیں اور ساتھ سول نافرمانی کی تحریک پربھی کام شروع ہوچکاہے تو وہ اپنی جگہ لگے ہوئے ہیں اور قانون اپناراستہ اختیارکیے ہوئے ہے۔
ماہر سیکیورٹی امور احسان محسود ٹیپو نے کہا کہ کرم میں امن معاہدہ کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو جو چیلنج درپیش آ رہا ہے وہ یہ ہے دونوں فریقین وہاں پر جو دوبڑے قبیلے ہیں ان کی طرف سے معاہدے پردستخط کرانا ہے کیونکہ دونوں قبیلوں کی جانب سے دستخط کرنے میں مزاحمت آرہی ہے۔
گزشتہ روزبھی مشیران نے حکومت سے وقت مانگ لیا تھا کہ ہمیں ٹائم دیا جائے ہم مشورہ کرتے ہیں اورپھردوبارہ سیشن ہوگا، دونوں فریقین کی اپنی اپنی شرائط ہیں جو وہ منوانا چاہتے ہیں، سب سے بڑی رکاوٹ وہاں پر بنے بنکرزہیں۔
ماہر دفاعی امور بریگیڈیئر(ر) مسعود احمد نے کہا کہ افغانستان میں جب طالبان واپس آئے ہیں توہماری توقع تھی کہ حالات بہترہوجائیں گے،یہاں پاکستان میں بھی خوشی منائی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے افغان طالبان نے واپسی پرفتنہ الخوارج کومضبوط کردیا اوران کو پاکستان کیخلاف پراکسی کے طورپراستعمال کرنا شروع کردیا، اس سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 92 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، افغان طالبان ان دہشت گردوں کوکنٹرول نہیں کرتے نہ کرنا چاہتے ہیں۔