(تحریر: سہیل یعقوب)
اس وقت ہر کوئی ملکی صورتحال کی وجہ سے پریشان ہے اور ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک میں کیا ہوگا؟
ہوسکتا ہے کہ آپ بھی ملکی صورتحال کی وجہ سے پریشان ہوں تو میں نے سوچا کہ میں کیوں نہ آپ کو ملکی صورتحال سے آگاہ کردوں۔ یہ آگہی ایسی نہیں کہ جس کے نتیجے میں مجھے بن بلائے مہمان سے بالجبر ملاقات کرنی پڑے، یہ تو بہت سیدھی سادی سی تشریح ہے جو کوئی بھی کرسکتا ہے۔
ملکی صورتحال سمجھنے سے پہلے اس بات کا تعین بہت ضروری ہے کہ آپ کا تعلق حزب اقتدار سے بے یا حزب اختلاف سے۔ اگر آپ کا تعلق حزب اقتدار سے بے تو بےفکر ہوجائیے کہ آپ جب تک اقتدار میں ہیں راوی چین چین ہی لکھے گا۔ شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیئیں گے اور اس کے بعد شیر بکری کو کھا کر اپنے گھر کی راہ لے گا۔
اور ہاں کل گھاٹ پر نئی بکری ہوگی کیونکہ حکومت کے پاس بکریوں کی کمی نہیں، ہاں شیر کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں لیکن حکومت کے پاس اس کا بھی حل ہے کہ جب وہ شیر کو اس کا ماضی یاد دلاتے ہیں تو شیر چپ چاپ گھاٹ پر آجاتا ہے بلکہ ہر اس جگہ آنے کو تیار ہوتا ہے کہ جہاں اس کو بلایا جائے اور اس میں وقت کی بھی کوئی قید نہیں ہے، کسی بھی وقت بلایا جاسکتا ہے۔
تو جناب جب تک آپ حزب اقتدار میں ہیں تو بس آپ کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ بس خیال رکھیے گا کہ کڑاہی کے نیچے چولہا نہ جل رہا ہو۔ مختصر یہ کہ آپ جب تک اقتدار میں ہیں آپ کےلیے ملک کی صورتحال کسی جنت سے کم نہیں اور جنت میں حوروں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔
تو جناب حزب اقتدار میں رہتے ہوئے آپ کےلیے یہ دنیا ہی جنت ہوگی کہ جس میں حوریں بھی ہوں گی اور آپ تو جانتے ہی ہے کہ جنت میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اس لیے آپ کو ملکی صورتحال پر بالکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
پریشان ہونے کی ضرورت یوں پیش آئے گی کہ اگر آپ کا تعلق بدقسمتی سے حزب اختلاف سے ہے۔ تو سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ آپ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں، چاہے آپ حاجی محفوظ شیرمال والے کی دکان پر ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ آپ سمجھ گئے ناں کہ حاجی محفوظ شیرمال والے کی دکان سے کیا مراد ہے؟
تو جناب آپ سب سے پہلے تو یہ کوشش کیجیے کہ آپ حزب اختلاف سے کسی بھی طرح حزب اقتدار میں شامل ہوجائیں تاکہ ملکی صورتحال سے بے فکر ہوسکیں۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو نہ صرف ملکی صورتحال کی پریشانی ہوگی بلکہ بجلی کے بل، گیس کے بل، پانی کی فراہمی کے بغیر اس کے بل، افراط زر، نجی بجلی بنانے والوں کو ادائیگی سے لے کر آسمان کے نیچے سے زمین کے اوپر اور نیچے دونوں کے مسائل آپ کے مسائل ہیں۔ اور شاید کبھی کبھی آپ کو ایسا بھی معلوم ہوگا کہ آج سورج کی روشنی کچھ کم ہے تو جناب روشنی کم نہیں ہوگی بلکہ حزب اختلاف میں رہنے کی وجہ سے آپ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہوگا، اس لیے آپ کو روشنی کم لگ رہی ہوگی۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ آپ ملکی صورتحال کی فکر کریں یعنی اپنی فکر کریں، تاوقتیکہ آپ دوبارہ حزب اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
سب سے آخر میں اگر آپ عوام ہیں تو کیا ہوگا؟ کیا آپ کو ملکی صورتحال کی فکر کرنی چاہیے؟ اگر آپ عوام ہیں تو آپ کو ملکی صورتحال کی فکر کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں، کیونکہ آپ نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ آپ کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ہر گزرتا دن آپ کی مشکلات میں اضافہ ہی کرے گا اور یہ اس وقت ہوتا رہے گا کہ جب تک عوام کو اس کی عادت نہ ہوجائے۔ عوام کی عادت کو پختہ کرنے کےلیے حکومت، حزب اختلاف اور فطرت سب کی کوشش ہوگی کہ آپ کو روزانہ کی بنیاد پر چھوٹی چھوٹی مشکلات کے ذریعے بڑی بڑی مشکلات کےلیے تیار کروایا جاسکے۔ آپ ہمیشہ روزی (اس سے مراد نوکری ہے معین اختر والی روزی نہیں)، روٹی، سہولیات بلکہ مشکلات کے بلوں کی ادائیگی کے حوالے سے ہمہ وقت پریشان رہیں اور آپ کو سوچنے کا وقت بھی نہ ملے کہ دنیا بھر کے لوگوں کےلیے جو سہولیات ہیں وہ ہمارے لیے مشکلات کیوں ہیں۔
آخر میں جب کچھ سمجھ نہ آئے تو خود یہ کہہ کر تسلی دے دیجیے گا کہ ’’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘ جو عوام سے لیا جارہا ہے اور عوام کی بھی مجبوری ہے کہ وہ جمہوریت کے علاوہ کسی اور کو الزام دے بھی نہیں سکتے، کیونکہ اگر کسی ایسے ویسے کو الزام دے دیا تو پھر کسی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
تحریر میں سبق کیا ہے؟
اگر آپ حزب اقتدار میں ہیں تو مزے میں ہیں۔
اگر آپ حزب اختلاف میں ہیں تو پھندے میں ہیں۔
اور اگر آپ عوام میں سے ہیں تو گڑھے میں ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔