پاکستان ایک نظر میں سیاست کے انوکھے نجومی
شیخ صاحب اپنی نجومی سیاست کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں خاص مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔
دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہاں پر ہر طرح کے لوگ پا ئے جا تے ہیں ۔ اب پاکستان کی خوش قسمتی سمجھے یا بد قسمتی کہ یہاں پر بھی ہر فن مولا لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔اور اگر ہم با ت کریں نجومیوں کی تو وہ ہمارے ہاں ایسے ہی پائے جاتے ہیں جیسے بدلتی ہوئی حکومتیں اور آتے جاتے موسم۔ ان نجومیوں کے بارے میں تو آپ اکثر سنتے ہی ہونگے ۔ ویسے بھی پاکستان میں ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ کئی قسموں کے نجومی پائے جا تے ہیں یعنی میرا مطلب یہاں پر ہر شعبے کا نجومی پایا جا تا ہے۔
آج کل جس شعبہ کے نجومیوں کی ہمارے ملک چاندی اور بھرمارہے وہ ہیں سیاست کے نجومی۔ جو ہر وقت کسی نہ کسی طرح پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر بیٹھ پاکستان کی سیاست کے بارے میں ایسے پیش گوئیاں کرتے ہیں جیسے فعل نکالنے والے کے باس بیٹھا ہوا طوطا ، جو ہر وقت لوگوں کی فعلیں نکالتا رہتا ہے جبکہ خود پنے بارے لا علم ہوتا ہے کہ کب وہ آزاد ہو گا؟۔ ہمارے سیاسی نجومی بھی کچھ اسی طرح کی با تیں کرتے ہیں مثلاً موجودہ حکومت کی عمر کتنی ہے ؟۔ اگلی حکومت فوج کی ہوگی یا سویلین؟۔ اگر اگلے انتخابات ہوتے ہیں تو وہ مڈٹرم ہوں گے یا اپنے مقرر وقت پر ہو نگے؟۔ اگلی بار کون سی پاڑتی اقتدار میں آئے گی؟۔عمران خا ن کا لانگ مارچ کامیاب ہو گا کہ نہیں؟ ۔ قادری صاحب کا انقلاب آئے گا کہ نہیں؟کون سی پاڑٹی حکومت میں شامل ہو رہی ہے اور کونسی حکومت سے علیحدہ ہو رہی ہے؟۔ وغیرہ وغیرہ۔
میرا خیال ہے کہ جس طرح ہر شعبے کا سربراہ ہو تا ہے اس طرح سیاسی نجومیوں کا بھی ایک سردا ر ہونا چاہیے ۔ اور اگران نجومیوں کے سر براہ کے لئے اگر الشیخ الا سیاستہ میرا مطلب جناب شیخ رشید صاحب کو نا مزد کروں تو امید کرتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ میرے جیسے صبح و شام ٹیلی ویژن دیکھنے والے حضرات شیخ صاحب کے اس اعزازو مرتبے سے خوش ہو ں گے۔ کیونکہ شیخ صاحب اپنی نجومی سیاست کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں خاص مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔ منٹوں اور سیکنڈوں میں بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں اور پورے دعوے کے ساتھ کرتے ہیں جیسے آپ اعلٰی حضرت کو کوئی الحام ہو تا ہے ۔
لیکن آج کل جناب کی سیاست صرف ٹی وی کی اسکرین تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ بھائی میرا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ شیخ صاحب کوئی ڈراموں یافلموں میں سیاست کرتے ہیں بلکہ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ آج کل اپنا زیادہ تر وقت مختلف ٹی وی چینلوں پر اپنی سیاسی ماہرانہ رائے دیتے ہوئے گزارتے ہیں۔اور آپ کا یہ کمال ہے کہ جن سیاسی مسئلوں پر اپنا نقطہ نظربیان فر ماتے ہیں اور جو سیاسی پیش گوئی آپ ٹی وی چینلوں پر کرتے ہیں اور اس سے بہت کم لوگ ہی اختلاف کرتے ہیں اور بھائی وہ اختلاف کر بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ کل ان کے بارے میں پیش گوئی ہوجائے گی۔ وہ ایک علیحدہ راز کی بات ہے کہ شیخ صاحب کی اپنی شادی کے بارے میں کوئی پیش گوئی بھی درست ثابت نہیں ہوئی اور وہ بیچارے ابھی تک کنوارے ہیں۔
اور اس بات کوئی بھی انکاری نہیں کہ جن پروگراموں حضور شرکت کرتے ہیں کیا مجال ہے اس کی ریٹنگ نیچے آئے۔ کیونکہ آپ اگر کسی پروگرام میں شرکت کریں تو اکیلے مہمان ہوتے ہیں ۔اور اگر کو ئی دوسرا غریب غلطی سے آہی جا ئے تو کیا مجال ہے کہ شیخ صاحب باتوں میں اس کو جیتنے دیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ویسے بھی لگتا ہے جیسے باتوں میں شیخ صاحب نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے ۔
یہ جناب کی برکات سمجھیں یا کوئی کرامت کہ جس کو چاہیں وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیں اور اترو ا دیں۔ آپ کو تو شاید یہ بھی پتہ ہو تا ہے کہ فلاں سیاسی بندے کا مستقبل روشن یا تاریک۔ وہ ہستی آپ ہی ہیں جن کو یہ سیاسی اداکار ی کا بانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اب اس طرح کی سیاست کو پورے ملک میں بے حد پیزرائی ملی رہی ہے اور ساری سیاسی پارٹیاں آپکے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ وہ ایک علٰحدہ راز کی بات ہے الیکشن کے دوران ان کے اپنے حلقے کی عوام ان کی مقبولیت کو بھول جاتی ہے اور ووٹ کسی اور کو دے دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دفعہ شیخ صاحب ایک سیٹ کے سا تھ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہیں مگر ان میں آپکی بہادری کم ہے اور عمران خان صاحب کی شفقت زیادہ نظر آتی ہے، جنہوں شیخ صاحب سے سیاسی دوستی کی لاج رکھی ۔مگر شیخ اور خان کی دوستی سمجھ سے بالا تر۔
چلیں جناب بہت ہو گیا مذاق اب شیخ صاحب سے اجازت لیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے شعبے میں مزید نام پیدا کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ کسی دن شیخ صاحب جلال میں آکر میرا نام بھی مستقبل کے وزیراعظم کی لسٹ میں ڈال دیں کیونکہ آپ کی اکثر پیش گوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں۔بس آخر میں شیخ صاحب سے یہی عرض کروں گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج کل جس شعبہ کے نجومیوں کی ہمارے ملک چاندی اور بھرمارہے وہ ہیں سیاست کے نجومی۔ جو ہر وقت کسی نہ کسی طرح پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر بیٹھ پاکستان کی سیاست کے بارے میں ایسے پیش گوئیاں کرتے ہیں جیسے فعل نکالنے والے کے باس بیٹھا ہوا طوطا ، جو ہر وقت لوگوں کی فعلیں نکالتا رہتا ہے جبکہ خود پنے بارے لا علم ہوتا ہے کہ کب وہ آزاد ہو گا؟۔ ہمارے سیاسی نجومی بھی کچھ اسی طرح کی با تیں کرتے ہیں مثلاً موجودہ حکومت کی عمر کتنی ہے ؟۔ اگلی حکومت فوج کی ہوگی یا سویلین؟۔ اگر اگلے انتخابات ہوتے ہیں تو وہ مڈٹرم ہوں گے یا اپنے مقرر وقت پر ہو نگے؟۔ اگلی بار کون سی پاڑتی اقتدار میں آئے گی؟۔عمران خا ن کا لانگ مارچ کامیاب ہو گا کہ نہیں؟ ۔ قادری صاحب کا انقلاب آئے گا کہ نہیں؟کون سی پاڑٹی حکومت میں شامل ہو رہی ہے اور کونسی حکومت سے علیحدہ ہو رہی ہے؟۔ وغیرہ وغیرہ۔
میرا خیال ہے کہ جس طرح ہر شعبے کا سربراہ ہو تا ہے اس طرح سیاسی نجومیوں کا بھی ایک سردا ر ہونا چاہیے ۔ اور اگران نجومیوں کے سر براہ کے لئے اگر الشیخ الا سیاستہ میرا مطلب جناب شیخ رشید صاحب کو نا مزد کروں تو امید کرتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ میرے جیسے صبح و شام ٹیلی ویژن دیکھنے والے حضرات شیخ صاحب کے اس اعزازو مرتبے سے خوش ہو ں گے۔ کیونکہ شیخ صاحب اپنی نجومی سیاست کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں خاص مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔ منٹوں اور سیکنڈوں میں بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں اور پورے دعوے کے ساتھ کرتے ہیں جیسے آپ اعلٰی حضرت کو کوئی الحام ہو تا ہے ۔
لیکن آج کل جناب کی سیاست صرف ٹی وی کی اسکرین تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ بھائی میرا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ شیخ صاحب کوئی ڈراموں یافلموں میں سیاست کرتے ہیں بلکہ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ آج کل اپنا زیادہ تر وقت مختلف ٹی وی چینلوں پر اپنی سیاسی ماہرانہ رائے دیتے ہوئے گزارتے ہیں۔اور آپ کا یہ کمال ہے کہ جن سیاسی مسئلوں پر اپنا نقطہ نظربیان فر ماتے ہیں اور جو سیاسی پیش گوئی آپ ٹی وی چینلوں پر کرتے ہیں اور اس سے بہت کم لوگ ہی اختلاف کرتے ہیں اور بھائی وہ اختلاف کر بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ کل ان کے بارے میں پیش گوئی ہوجائے گی۔ وہ ایک علیحدہ راز کی بات ہے کہ شیخ صاحب کی اپنی شادی کے بارے میں کوئی پیش گوئی بھی درست ثابت نہیں ہوئی اور وہ بیچارے ابھی تک کنوارے ہیں۔
اور اس بات کوئی بھی انکاری نہیں کہ جن پروگراموں حضور شرکت کرتے ہیں کیا مجال ہے اس کی ریٹنگ نیچے آئے۔ کیونکہ آپ اگر کسی پروگرام میں شرکت کریں تو اکیلے مہمان ہوتے ہیں ۔اور اگر کو ئی دوسرا غریب غلطی سے آہی جا ئے تو کیا مجال ہے کہ شیخ صاحب باتوں میں اس کو جیتنے دیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ویسے بھی لگتا ہے جیسے باتوں میں شیخ صاحب نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے ۔
یہ جناب کی برکات سمجھیں یا کوئی کرامت کہ جس کو چاہیں وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیں اور اترو ا دیں۔ آپ کو تو شاید یہ بھی پتہ ہو تا ہے کہ فلاں سیاسی بندے کا مستقبل روشن یا تاریک۔ وہ ہستی آپ ہی ہیں جن کو یہ سیاسی اداکار ی کا بانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اب اس طرح کی سیاست کو پورے ملک میں بے حد پیزرائی ملی رہی ہے اور ساری سیاسی پارٹیاں آپکے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ وہ ایک علٰحدہ راز کی بات ہے الیکشن کے دوران ان کے اپنے حلقے کی عوام ان کی مقبولیت کو بھول جاتی ہے اور ووٹ کسی اور کو دے دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دفعہ شیخ صاحب ایک سیٹ کے سا تھ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہیں مگر ان میں آپکی بہادری کم ہے اور عمران خان صاحب کی شفقت زیادہ نظر آتی ہے، جنہوں شیخ صاحب سے سیاسی دوستی کی لاج رکھی ۔مگر شیخ اور خان کی دوستی سمجھ سے بالا تر۔
چلیں جناب بہت ہو گیا مذاق اب شیخ صاحب سے اجازت لیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے شعبے میں مزید نام پیدا کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ کسی دن شیخ صاحب جلال میں آکر میرا نام بھی مستقبل کے وزیراعظم کی لسٹ میں ڈال دیں کیونکہ آپ کی اکثر پیش گوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں۔بس آخر میں شیخ صاحب سے یہی عرض کروں گا۔
مانا کہ تیری تحریرکے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، اورمیرا جذبہ دیکھ
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔